محمد بن سلمان اور جمال خاشقجی کن کن معاملات میں ہم خیال تھے؟
سعودی عرب کی جانب سے بیان کیا جانے والا دعوٰی اس وقت غلط ثابت ہوا جب مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسمانی اعضاء سعودی قونصلر جنرل کے استنبول میں واقع گھر سے مل گئے اور یوں 2 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے شروع ہونے والی داستان کا ڈراپ سین بھی ہوگیا۔
خاشقجی کا قتل اور اس کا طریقہ کار تو اب ایک کھلی حقیقت کے طور پر سامنے آچکا ہے، اور سعودی حکومت قتل کا اعتراف بھی کرچکی ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے 15 اہلکاروں کو گرفتار جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے انتہائی قریب 2 اعلیٰ اہلکاروں کو برطرف بھی کیا ہے۔ تاہم اس کے محرکات ابھی تک واضع نہیں ہوسکے۔
ترک ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر کیا گیا، ایک میڈیا ہاؤس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قتل سے پہلے جمال کی محمد بن سلیمان سے ٹیلیفونک گفتگو بھی کرائی گئی۔ اس کے برعکس ہر لمحے اپنی پوزیشن تبدیل کرتی سعودی حکومت کا اس وقت یہ ماننا ہے کہ اُن کے اہلکاروں نے احکامات سے تجاوز کرتے ہوئے جمال خاشقجی کو قتل کیا۔