نقطہ نظر

افسانہ: روتا ہوا کتا اور قہقہ لگاتے انسان!

’جی بھائی کرامت بہت شکریہ‘ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، اس نے 2 سال میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ گاؤں واپس جاسکےگا

لوہاروں کے محلے میں پانی اب بھی گلی کے بیچوں بیچ سے گزر رہا تھا، اُس نے بچپن سے لے کر 23 سال تک اپنی عمر انہی گلیوں میں گزاری تھی اور یہاں سے گئے ابھی 2 سال ہی تو ہوئے تھے، 2 سال میں بھلا کتنا کچھ بدل سکتا تھا؟

2 سال پہلے جب وہ رات کے وقت بانو کے ہمراہ یہاں سے بھاگا تھا تو بہت جلدی میں تھا، اسے ایسا لگتا تھا کہ ہر دیوار میں سے کئی آنکھیں نکل آئی ہیں جو انہیں رات کے اندھیرے میں دیکھ رہی ہیں۔ راستے لمبے ہوگئے تھے اور وہ بہت مشکل سے ریلوے اسٹیشن تک پہنچے تھے۔ اسے یاد آیا کہ اس رات وہ اتنا بدحواس تھا کہ پلیٹ فارم پر موجود ایک قُلی نے پان کی پیک پھینکی جو غلطی سے اُس کے کپڑوں پر آن گری تھی، قُلی گھبرا گیا تھا کہ ابھی یہ مجھ سے لڑے گا لیکن اُس رات تو اُن کے پاس لڑنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھ گئے تھے اور کونے پر موجود ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ 15 منٹ بعد ہی ٹرین آگئی تھی لیکن وہ 15 منٹ 15 صدیاں بن کر گزرے تھے۔

وہ لوہار تھا، اُس کے آباؤ اجداد بھی اِسی پیشے سے وابستہ تھے۔ اس نے بھلا کب سوچا تھا کہ شیر افضل ٹھیکیدار کی بیٹی اس سے محبت کرنے لگے گی۔ لوہاری بازار میں سارا دن ٹھک ٹھک کی آواز گونجتی رہتی تھی لیکن رات کے اس پہر مکمل خاموشی تھی، اُس نے واپسی کے لیے بھی رات کا وقت مقرر کیا تھا تاکہ اُسے کم سے کم لوگ ملیں۔

اگرچہ 2 سال پہلے اور اب کے حلیے میں بہت فرق تھا۔ اب اُس نے سر اور ڈاڑھی کے بال بڑھا لیے تھے اور سر پر سفید رنگ کا بڑا سا رومال پھیلا رکھا تھا جس سے آدھا چہرہ چھپا ہوا تھا، حلیے میں اتنی تبدیلی کے باوجود صلح ہونے سے پہلے وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

بائیں طرف چھوٹی سی گلی جارہی تھی وہ وہاں رکا کہ وہاں سے یادوں کا ایک ریلا سا بہتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔ اسی گلی کے آخر میں اُس کا 2 منزلہ گھر تھا۔ اوپر کی منزل پر بھائی رفیق اور ان کے بیوی بچے رہتے تھے اور نیچے امّاں، ابّا اور اس کے چھوٹے بہن بھائی رہتے تھے۔ گھر کے اندر ہی دکان تھی، جس کا دروازہ باہر کی جانب کھلتا تھا۔ دکان کے دروازے کے ساتھ ایک پرانا لکڑی کا بینچ پڑا رہتا، جس کی ایک ٹانگ کب کی ٹوٹ چکی تھی لیکن 5 اینٹیں رکھ کر اس کی کمی کو پورا کرلیا گیا تھا۔ سارا دن اس بینچ پر ابّا کے دوست حقہ پیتے اور سارے جہان کی باتیں کیا کرتے تھے۔

’تو جب وہ وہاں سے بھاگا تھا تو اس کے بارے میں بھی بینچ پر موجود لوگوں نے باتیں کی ہوں گی؟‘

’ابّا نے کیا جواب دیا ہوگا؟‘

یہ سوچتے ہوئے اُسے ایک جھرجھری سی آگئی۔ اُس کی نگاہوں کے سامنے اُس کے ابّا کی خاموش نگاہیں گھوم سی گئیں۔ ابّا جو ہر موضوع پر بات کرنے اور رائے دینے کو اپنا حق سمجھتا تھا، اُس کے بارے میں بات کرتے ہوئے یقیناً خاموش ہوگیا ہوگا۔

لیکن میں اب واپس آگیا ہوں، صلح ہوجائے گی تو امّاں، ابّا سے بھی معافی مانگ لوں گا۔ وہ یہ سوچ کر اُس گلی میں نہ مڑا کہ اُس کی منزل سامنے کی گلی میں تھی۔

بانو نے اس سے کہا تھا کہ وہ بھی ساتھ چلے گی لیکن وہ اُسے ساتھ نہ لایا۔

’ابھی نہیں ابھی تو تمہارے بھائی کا فون آیا ہے، میں جاؤں گا بات کروں گا، صلح ہوجائے گی تو تمہیں اور بچے دونوں کو لے کرجاؤں گا بلکہ پھر تو ہم واپس گاؤں ہی لوٹ جائیں گے، وہی اپنا پرانا کام پھر سے کروں گا۔‘

’بھائی کرامت ہے تو بڑا سخت، معلوم نہیں کیسے اُس کا جی پگھل گیا، مجھ سے محبت بھی تو بہت کرتا تھا۔ جس رات ہم بھاگے تھے میں کہتی تھی ابّا جاگ گیا تو وہ مجھے شاید چھوڑ دے پر بھائی کرامت نے میرے ٹکڑے کرکے اپنے شکاری کتوں کے آگے ڈال دینے تھے۔ اس کی لاڈلی بھی تو بہت تھی نا۔ شہر جاتا تھا تو پراندے اور چوڑیوں کے ڈھیر لے آتا تھا۔‘ بانو نے کہا۔

’بس وہی محبت پھر جاگ اُٹھی ہے، آدمی محبت تو پھر بھی ساری عمر کرسکتا ہے، ساری عمر نفرت کی بھٹی جلائے رکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ کرامت کی آگ بھی ٹھنڈی ہوگئی ہوگی، بس تم میرا انتظار کرنا،‘ اُس نے بانو کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

وہ ایک دفتر میں آفس بوائے کے طور پر کام کرتا تھا، ایک دوست نے ایک کمرے کا مکان کرائے پر لے دیا تھا، جیسے تیسے کرکے زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے۔ ان 2 سالوں میں وہ ایک بچے کا باپ بن گیا تھا لیکن اُس نے مُڑ کر گاؤں میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ معلوم نہیں لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے یہ خیال اُسے اکثر آتا۔

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اُس روز بے تحاشا گرمی تھی اور بجلی بھی کئی گھنٹوں سے لاپتہ تھی۔ وہ کئی کئی بار ایک کپڑا گیلا کرکے سر پہ باندھ لیتا لیکن پھر بھی کام کرنا مشکل ہوگیا تھا وہ دوپہر کو باہر نکلا کہ چوک سے گنے کا رس پی لے، وہیں چوک پر جب وہ گنے کا رس پی رہا تھا تو کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا،

’اشرف یہ تم ہو؟‘ ایک آواز آئی۔

اُس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا، وہ اجنبی کو پہچان نہیں پایا۔

’کون۔۔۔۔؟‘ اُس نے غور کیا یہ چہرہ کہیں دیکھا ہوا تو تھا۔

’کمال ہے تم مجھے بھول گئے، گاؤں کی گلیاں بھی بھول گئے کیا؟ میں سرفراز ہوں یار۔

’اوہ سرفراز یاد آیا چچا گلفراز کے بیٹے، بس یار وہ گرمی اتنی ہے کہ دماغ کام نہیں کررہا۔‘

’تو تم یہاں رہتے ہو؟ سرفراز نے کہا۔

’نہیں۔۔۔ وہ۔۔۔ ہاں‘ اُس نے گھبرا کر جواب دیا، اُسے معلوم تھا کہ سرفراز کرامت کا بڑا جگری دوست ہے، کہیں کوئی مصیبت نہ کھڑی کردے۔

’اوئے اشرف گھبرا نہیں، مجھے اپنا بھائی سمجھ۔ کرامت کو بھی میں سمجھا دوں گا، تمہارے جانے کے بعد تو وہ بالکل ٹوٹ گیا تھا۔ کہتا تھا ایک ہی بہن تھی اس کی شادی بھی مرضی سے نہ کرسکا۔‘

’وہ مجھے افسوس ہے کہ۔۔۔‘

’او کوئی نہیں یار جوان آدمی ہو ہوجاتی ہے محبت کیا ہوگیا ہے۔ ابھی میں جلدی میں ہوں ایک کام کے سلسلے میں کچہری آیا تھا، شام تک واپس جانا ہے، تُو اپنا نمبر دے میں فون کروں گا تمہیں اور پریشان نہیں ہونا، کرتے ہیں تمہارے سارے مسئلے حل۔ یہ شہر میں یوں کب تک چھپ چھپ کر جیو گے؟‘ سرفراز نے اُسے حوصلہ دیا۔

اشرف نے کچھ نہ سمجھ آتے ہوئے اپنا نمبر اُسے دے دیا تھا۔

اُسی رات شاید ایک بجے کا عمل تھا کہ اُس کا فون بج اُٹھا۔

’اس وقت کون فون کرسکتا ہے؟‘ اُس نے بڑبڑاتے ہوئے فون کی اسکرین دیکھی، کوئی نیا نمبر تھا۔

’ہیلو جی کون۔۔۔‘ اُس نے کہا۔

’کرامت بول رہا ہوں‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

اُس کے اندر ایک کرنٹ سا دوڑ گیا وہ چارپائی پر اُٹھ کے بیٹھ گیا۔

’جی جی کرامت بھائی آپ کیسے ہیں‘ اُس نے گھبرا کر کہا۔

’میں ٹھیک ہوں بانو کیسی ہے؟ سرفراز نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا، کب تک یوں مارے مارے پھرتے رہو گے؟ جو ہوا سو ہوا، میں صلح کرنا چاہتا ہوں، تم لوگوں کو گاؤں آنا ہوگا۔ میرے گھر کے دروازے کھلے ہیں تم لوگوں کے لیے۔‘

’جی بھائی کرامت بہت شکریہ‘ اُسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، اُس نے 2 سال میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی گاؤں واپس جاسکے گا۔

اور آج وہ ٹھیکیدار شیر افضل کے گھر کے سامنے تھا۔

2 سال پہلے رات کے 2 بجے جب وہ یہاں بانو کا انتظار کررہا تھا تو اُس کی دھڑکن بہت تیز تھی جب کبھی کہیں دُور سے کوئی کتا بھونکتا تو اُس کو یوں لگتا کہ جیسے سارا شہر لاٹھیاں لے کر اُس کو مارنے آجائے گا لیکن سوائے بانو کے اور کوئی نہیں آیا تھا۔

بھاگنے سے کئی روز پہلے اُس نے بہت ضد کرکے امّاں ابّا کو ٹھیکیدار شیر افضل کے گھر رشتے لینے کے لیے بھیجا تھا اور وہ گئے بھی تھے لیکن ٹھیکیدار شیر افضل نے صاف انکار کردیا تھا کہ اُس کی اور لوہاروں کی حیثیت میں بہت فرق تھا، وہ بھلا اپنی بیٹی کو کسی ایسے گھر میں کیسے بیاہ سکتے تھے کہ جہاں آمد و رفت کے لیے سب سے بڑی سہولت سائیکل تھی جس کو 4 بھائی چلاتے تھے۔

اُس نے دستک کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن پھر کچھ سوچ کر دستک نہ دی اور اپنے موبائل سے کرامت کا نمبر ملایا،

’جی السلام علیکم میں اشرف۔۔۔ جی میں آگیا ہوں، دروازے پر ہوں، آپ گھر پر ہیں تو باہر آجائیں۔‘

دوسری طرف سے اچھا کہہ کر فون بند کردیا گیا تھا۔

اُس کی دھڑکن بہت تیز ہوگئی تھی اُس کا جی چاہا کہ یہاں سے بھاگ جائے لیکن حالات بہتر بنانے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔

تھوڑی دیر میں حویلی کا دروازہ کھلا اور کرامت باہر تھا جو تیزی سے آگے بڑھا اور اُس کا ہاتھ تھام لیا۔

’اچھا کیا تم آگئے۔۔۔ آؤ ڈیرے پر چلتے ہیں، وہاں آرام سے بات ہوگی۔‘

اس گلی کے پچھلی جانب چھوٹی سی پہاڑی کے نیچے اُن کا ڈیرہ تھا۔

انہوں نے ڈیرے کا گیٹ جیسے ہی پار کیا کرامت تیزی سے مُڑا اور گیٹ بند کرکے تالا لگا دیا اور شلوار میں اڑسا پستول نکال لیا۔

’سالے بے غیرت! کمی کمین! تیری اتنی جرات کہ تُو ہماری عزت سے کھیل گیا‘ یہ کہہ کر کرامت نے پستول کا دستہ اُس کے سر پہ مارا۔

اُس کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہ آیا، ڈیرے پر 2 اور لوگ بھی موجود تھے۔

’پکڑ لو اِسے اور ہاتھ پیر باندھ دو!‘ کرامت نے کہا۔

دونوں جوانوں نے فوراً ہی رسیوں کی مدد سے اُس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے۔

کرامت اتنے میں ایک موٹا ڈنڈا ڈھونڈ لایا تھا جو اُس نے اندھا دھند اشرف پر برسانا شروع کردیا، اُس کی چیخیں بلند ہوئیں تو اُس کے منہ میں رومال ٹھونس دیا گیا، بار بار زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے اُس کے ناک اور دانتوں سے خون بہنے لگا تھا۔

اُسے اب یقین آگیا تھا کہ محبت کی طرح نفرت بھی ساری عمر کی جاسکتی ہے۔

بے تحاشہ تشدد کے بعد وہ بے ہوش ہوگیا۔

اُس کے منہ پر پانی پھینک کر ہوش میں لایا گیا اور منہ سے رومال نکال لیا گیا۔

’اچھا اب بول تُو کتا ہے‘، کرامت نے اُس سے کہا۔

اُس کے جسم کا رواں رواں درد کررہا تھا، اُسے لگا کہ اُس کا جسم کئی جگہوں سے ٹوٹ چکا ہے اور اگر اب وہ کھڑا ہونا چاہے گا تو گرجائے گا۔

’بول میں کہتا ہوں‘ کرامت نے ایک زوردار تھپڑ اُس کے منہ پر مارا۔

’اور تُو یہ موبائل پکڑ اور بنا اِس کی ویڈیو سارے گاؤں کو دکھائیں گے کہ یہ سالا کتا ہے ہماری عزت کے ساتھ کھیلا تھا نا، اب میں بتاؤں گا اِسے کہ اِس کی حیثیت کیا ہے‘۔ کرامت نے اپنا موبائل ساتھ کھڑے نوجوان کو دیا جو اشرف کی ویڈیو بنانے لگ گیا۔

’ہاں اب بول کہ تو کتا ہے‘۔

موت سامنے تھی، آخری امید کے طور پر وہ اپنے انسان ہونے سے مکر گیا۔

’ہاں میں کتا ہوں‘، اُس نے کہا۔

’اونچا بول‘ کرامت دھاڑا۔

’ہاں میں کتا ہوں‘، اُس نے درد سے کراہتے ہوئے کہا۔

’اچھا اب بھونک کر دکھا‘ کرامت چلایا۔

وہ چپ رہا۔

’بھونک کتے!‘ کرامت نے اُسے ایک زوردار تھپڑ رسید کیا اور وہ غش کھا کر گرگیا۔

گرتے کے ساتھ ہی وہ بے تحاشا بھونکنے لگا، اتنی شدت سے کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کرامت اور اُن 2 لڑکوں نے زندگی میں پہلی بار ایک روتا ہوا کتا دیکھا تھا، جسے دیکھ کر وہ تینوں انسان قہقہے لگا رہے تھے۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔