لوہاروں کے محلے میں پانی اب بھی گلی کے بیچوں بیچ سے گزر رہا تھا، اُس نے بچپن سے لے کر 23 سال تک اپنی عمر انہی گلیوں میں گزاری تھی اور یہاں سے گئے ابھی 2 سال ہی تو ہوئے تھے، 2 سال میں بھلا کتنا کچھ بدل سکتا تھا؟
2 سال پہلے جب وہ رات کے وقت بانو کے ہمراہ یہاں سے بھاگا تھا تو بہت جلدی میں تھا، اسے ایسا لگتا تھا کہ ہر دیوار میں سے کئی آنکھیں نکل آئی ہیں جو انہیں رات کے اندھیرے میں دیکھ رہی ہیں۔ راستے لمبے ہوگئے تھے اور وہ بہت مشکل سے ریلوے اسٹیشن تک پہنچے تھے۔ اسے یاد آیا کہ اس رات وہ اتنا بدحواس تھا کہ پلیٹ فارم پر موجود ایک قُلی نے پان کی پیک پھینکی جو غلطی سے اُس کے کپڑوں پر آن گری تھی، قُلی گھبرا گیا تھا کہ ابھی یہ مجھ سے لڑے گا لیکن اُس رات تو اُن کے پاس لڑنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھ گئے تھے اور کونے پر موجود ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ 15 منٹ بعد ہی ٹرین آگئی تھی لیکن وہ 15 منٹ 15 صدیاں بن کر گزرے تھے۔
وہ لوہار تھا، اُس کے آباؤ اجداد بھی اِسی پیشے سے وابستہ تھے۔ اس نے بھلا کب سوچا تھا کہ شیر افضل ٹھیکیدار کی بیٹی اس سے محبت کرنے لگے گی۔ لوہاری بازار میں سارا دن ٹھک ٹھک کی آواز گونجتی رہتی تھی لیکن رات کے اس پہر مکمل خاموشی تھی، اُس نے واپسی کے لیے بھی رات کا وقت مقرر کیا تھا تاکہ اُسے کم سے کم لوگ ملیں۔
اگرچہ 2 سال پہلے اور اب کے حلیے میں بہت فرق تھا۔ اب اُس نے سر اور ڈاڑھی کے بال بڑھا لیے تھے اور سر پر سفید رنگ کا بڑا سا رومال پھیلا رکھا تھا جس سے آدھا چہرہ چھپا ہوا تھا، حلیے میں اتنی تبدیلی کے باوجود صلح ہونے سے پہلے وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔