کراچی جو اِک شہر تھا (چھٹا حصہ)
یہ اس سیریز کا چھٹا بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں حصہ پڑھیں۔
ملیر کی ایک سنسان گلی میں، شام کے دھندلکے میں، مجھ 14 سالہ لڑکے کو اُس 12 سالہ لڑکی کی محبت کی پیشکش نے ایک عجب سنسنی میں مبتلا کردیا۔ پاکیزہ، خواتین، سسپنس اور سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں میں عشق و محبت کی داستانیں پڑھنا الگ بات تھی، لیکن اس طرح کی صورت حال کا اچانک سامنے آجانا میرے لیے بہت زیادہ ہیجان خیز تھا۔
میں اس لڑکی کے اس جملے سے سٹپٹا گیا اور اسے کوئی جواب دیے بغیر تیزی سے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس نے بھی پھر کچھ نہ بولا اور خاموشی سے میرے پیچھے چلی آئی۔ یہ راز ہم نے سب سے، بلکہ ایک دوسرے سے بھی چھپا کر رکھا۔
کراچی روشنیوں کا شہر تھا، عروس البلاد تھا، ادب و آداب کا مرکز تھا اور ساتھ ہی سیر و تفریح کرنے والوں کے لیے بھی بڑی کشش رکھتا تھا۔ ہمیں تو سیر و تفریح کے مواقع کم ہی ملتے تھے کیونکہ ایک تو ہم ابھی عمر میں چھوٹے تھے، دوسرا یہ کہ گھومنے پھرنے کے لیے جو پیسے چاہیے ہوتے تھے، وہ بھی ہمارے پاس نہیں ہوتے تھے۔ بس کبھی کبھی ہمارے گاؤں سے مہمان آتے تو ان کے ساتھ لٹک کر ہم بھی گھوم پھر آتے تھے۔
کراچی میں سیر و تفریح کے لیے کئی مقامات تھے۔ ان میں ہمارے لیے سب سے اہم کلفٹن کا سرمئی ساحل تھا کہ جہاں ہم ہوا کے تیز جھونکوں میں ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرتے ہوئے نرم روی سے آتی سمندری لہروں سے کھیلتے تھے۔ کلفٹن سمندری ہواؤں کی آماج گاہ ہے اور کراچی کی قدیم آبادیوں کے باسی آج بھی اسے کلفٹن کے بجائے ’ہوا بندر‘ کہتے ہیں۔
70ء یا 80ء کی دہائی میں یہاں ساحل پر پانی میں نصف ڈوبا ہوا ایک پرانا متروک اور زنگ آلود بحری جہاز بھی ٹیڑھا پڑا ہوتا تھا۔ من چلے تیراک اکثر سمندر میں تیرتے ہوئے اس جہاز کے نزدیک چلے جاتے تھے۔ یہ جہاز یہاں کئی سال پڑا رہا، پھر اللہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔ کلفٹن پر ساحل سمندر کے علاوہ ایک اور کشش جہانگیر کوٹھاری پریڈ سے متصل ’جبیس فن لینڈ‘ کے نام سے ایک پلے لینڈ بھی تھا جہاں طرح طرح کے جھولے اور بجلی سے چلنے والی ڈاجنگ کاریں ہوا کرتی تھیں جن کو لوگ الارم بجنے تک آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بے حال ہوجاتے تھے۔