نقطہ نظر

اسلام آباد کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت نہ کریں!

اگر ہم وزارتِ داخلہ پر موجود بوجھ کو دیکھیں تو اس کی خامیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ تھوڑی سے ہمدردی بھی ہونے لگتی ہے۔

وفاقی حکومت کے کیپٹل افیئرز ڈویژن (کیڈ) کے خاتمے پر زیادہ آنسو نہیں بہائے گئے شاید اس لیے کیوں کہ یہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہا ہے۔ مگر پھر بھی دارالحکومت کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں دینے کے فیصلے پر نظرِ ثانی ہونی چاہیے۔

آئی اے رحمٰن

پہلی وجہ تو وزارتِ داخلہ کی کارکردگی پر پڑنے والے بُرے اثرات دیکھے بغیر اس کے بوجھ میں اضافہ ہے۔ امن و امان کی صورتحال اور داخلی سلامتی پر نظر رکھنا اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے قومی ایکشن پلان کا نفاذ پہلے ہی وزارت کے پاس موجود ایک سنجیدہ اور بھاری ذمہ داری ہے۔ اسے اضافی ذمہ داریاں دینے سے لامحالہ طور پر یہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں بھی ٹھیک سے ادا کرنے میں مشکلات کا شکار ہوگی۔ سلامتی یقینی بنانے کی بے انتہا کوششوں کی وجہ سے یہ پہلے ہی ترقیاتی اور عوامی فلاح کے کام کرنے سے قاصر ہے۔ لوگوں کو ان کی بنیادی آزادیوں سے بہتر انداز میں لطف اندوز ہونے دینے کے بجائے یہ اکثر ان کی نقل و حرکت پر ہی پابندیاں عائد کر دیتی ہے۔

امیگریشن، پاسپورٹس اور انسانی اسمگلنگ کے شعبوں پر غور کریں۔ وزارت سے توقع ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں کا بیرونِ ملک سفر اور غیر ملکی شہریوں کا سفرِ پاکستان آسان بنائے، مگر واضح طور پر اس کی حکمتِ عملی رکاوٹ انگیز ہے اور یہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا قانونی طور پر متعین حدود سے ماوراء ہوکر استعمال کرتی ہے۔ پاکستان سے دیگر ممالک اور دیگر ممالک سے پاکستان انسانی اسمگلنگ کنٹرول کرنے کے اقدامات ہوں یا بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں کے مسائل، سبھی کچھ غیر اطمینان بخش ہے۔

1988-89ء سے اب تک کئی مرتبہ حکام کو جیل اصلاحات کا خیال آچکا ہے۔ نتیجتاً وزارت کی الماریوں میں فائلوں کے انبار لگ چکے ہیں۔ سندھ میں چنّہ رپورٹ پر کچھ ایکشن کے علاوہ مختلف کمیٹیوں کی سفارشات ابھی تک نفاذ کی منتظر ہیں۔ مجرموں کو معاف کرنے کی صدر کی آئینی طاقت اور قانونِ قصاص کے درمیان جو تصادم موجود ہے اسے کبھی بھی حل نہیں کیا گیا۔

پڑھیے: "خوبصورت اسلام آباد" کے لیے گھروں سے بے دخلی؟

سینٹرل پولیس بیورو جس کی ذمہ داریوں میں جرائم اور علمِ جرائم پر ڈیٹا اکھٹا کرنا، مجرموں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو ہونے والی سزا اور ان کی بحالی پر تحقیق کرنا شامل ہے، وسائل اور عزم کی کمی کی وجہ سے بے یار و مددگار نظر آتا ہے۔ اس کے بعد شہریوں کی رجسٹریشن اور نادرا کی اس حوالے سے رہنمائی کرنا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے لیے بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں شامل ہیں۔

اگر ہم وزارتِ داخلہ کے اسٹاف کے کندھوں پر موجود بوجھ کو دیکھیں تو ان کی خامیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ تھوڑی سے ہمدردی بھی ہونے لگتی ہے۔

وزارتِ داخلہ کے قلمدان میں ذمہ داریوں کے اضافے کے نتائج بھی متاثر کن نہیں ہیں۔ اسے جبری گمشدگیوں سے نمٹنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جو درحقیقت وزارتِ قانون و انصاف کو دیا جانا چاہیے تھا اور اس کا کریڈٹ بہت ہی کم ملا ہے۔ اس کے بعد بین الاقوامی این جی اوز اور سول سوسائٹی تنظیموں کو بھی وزارتِ داخلہ کے ماتحت کردیا گیا جس فیصلے سے پاکستان کو بے انتہا نقصان ہونے والا ہے۔ اب وقت ہے کہ جن امور کا سیکورٹی اور پولیسنگ سے براہِ راست تعلق نہ ہو انہیں وزارتِ داخلہ پر ڈالنا بند کیا جائے۔

وزارتِ داخلہ کی ذمہ داریوں میں امورِ اسلام آباد کے اضافے سے جو چیز کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ افشاں ہوتی ہے وہ دار الحکومت کی ضروریات سے عدم واقفیت ہے اور سیکورٹی ان ضروریات کا صرف ایک حصہ ہے۔

لگ بھگ آدھی صدی عمر رکھنے والا یہ شہر اب بھی زیرِ تعمیر ہے بھلے ہی اس کی کچھ ضروری بنیادیں رکھی جاچکی ہیں اور اس کے پُرانے لیبلز جیسے کہ ڈپلومیٹک ولیج یا پھر حاضر سروس بیوروکریٹس کے لیے ریٹائرمنٹ کا ٹھکانہ جیسے اب اترتے جا رہے ہیں۔

اسلام آباد اب سویلین اور ملٹری اداروں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) کی اسلام آباد منتقلی کے بعد تینوں مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ہوں گے اور سول اور ملٹری انتظامیہ کے درمیان کم از کم زمینی فاصلہ تو کم ہو ہی جائے گا۔ شہر پہلے ہی ملک کا قانون سازی اور انصاف کا دارالحکومت ہے۔ یہاں ہماری کچھ صفِ اول کی یونیورسٹیاں ہیں۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے بعد اب یہاں یونیورسٹی آف ڈیولپمنٹ اکنامکنس، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، بحریہ یونیورسٹی اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی بھی موجود ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بھی اس شہر میں ہے جبکہ انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز بھی۔

یہ شہر اپنے فنون و ثقافتی مراکز پر بجا طور پر فخر کرتا ہے۔ یہاں نیشنل گیلری، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور لوک ورثہ موجود ہیں۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس اور نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن یہاں قائم ہیں۔ شہر میں نیشنل آرکائیوز اور ایک نیشنل لائبریری بھی موجود ہے۔ جلد ہی یہاں اقلیتوں کے حقوق پر ایک کمیشن اور بچوں کے حقوق کا کمیشن بھی قائم ہونے کا امکان ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ کے لیے سیکورٹی انتظامات کے علاوہ جو بنیادی کام ہے وہ ان اداروں کی پرورش کرنا ہے تاکہ یہ نئی بلندیوں کو چھو سکیں۔

مزید پڑھیے: میرے پیارے اسلام آباد!

اسلام آباد کی ایک زندہ دل، آزاد اور متحرک بستی کے طور پر شناخت اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے گورننس کی ترقی پسند اور انسان دوست پالیسیوں کی تشکیل، جابرانہ عدم مساوات کے خاتمے، نظامِ انصاف کے سامنے تمام شہریوں کی برابری، اس کے تدریسی و ثقافتی و فنی مراکز کی جانب سے لوگوں کو زبان فراہم کرنے اور اس کے ماہرینِ تعمیرات کی ثقافتی ورثے کو جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے اور وہ بھی اس قیمت پر جو وسائل کی کمی کے شکار لوگ برداشت کرسکیں۔

اس سب میں دہائیاں، شاید صدی بھر لگ جائے، مگر راستہ آج سے متعین کرنا ہوگا اور ترجیحات واضح طور پر طے کرنی ہوں گی۔ کوئی ایک وزارت اس کام کو تنِ تنہا سرانجام نہیں دے سکتی۔

بہت کچھ اسلام آباد کے سیاسی نظام پر منحصر ہوگا۔ شاید اسے ایک طاقتور چیف کمشنر یا لیفٹیننٹ گورنر کی بطور سربراہِ شہر ضرورت ہے۔ دارالحکومت کے تمام امور کو ایک خصوصی ادارے کے سپرد کرنا چاہیے جس میں ہاؤسنگ، ٹرانسپورٹ، تعلیم، انسانی حقوق، آرٹس اور ثقافت کے ماہرین شامل ہوں، ایسے ماہرین جو لوگوں کی ضروریات اور امنگوں کو سننے سے خوفزدہ نہ ہوں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔