کیا کزن میرج مستقبل کی اولاد کے لیے خطرناک ہوتی ہے؟
کیا خاندان میں شادیاں یا یوں کہہ لیں کزن میرج سے بچوں میں پیدائش نقص کا خطرہ بڑھتا ہے ؟ تو اس کا جواب اتنا آسان نہیں بلکہ ایسا بنیادی جینیاتی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں پاکستان میں خاندان میں شادیوں کا رواج کافی زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اکثر افراد کے آباﺅ اجداد ایک ہی ہوتے ہیں۔
جینیاتی اعتبار سے بات کی جائے تو اگر آباؤ اجداز آپ کے ڈی این اے کا 0.20 فیصد حصہ شیئر کرتے ہیں، تو اس کے مقابلے میں تھرڈ کزن سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح 0.78 فیصد، سیکنڈ کزن میں 3.12 فیصد اور فرسٹ کزن 12.5 فیصد ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں : جگر گوشوں کو تھیلیسیمیا سے محفوظ بنانے کے لیے اعلان جنگ کی ضرورت
اور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے، اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلیسمیا اور دیگر اولاد میں سامنے آنے کا امکان بڑھے گا۔
تاہم اس بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے ایک حقیقت جان لینا ضروری ہے کہ اولاد میں جینیاتی مرض اس وقت منتقل ہوگا، جب آپ کے جینز میں مسئلہ ہوگا۔
یہ بھی دیکھیں : خون کے موروثی امراض کا علاج اب ہوگا ممکن؟
جیسے cystic fibrosis نامی مرض ہے جو کہ سی ایف ٹی آر جین میں نقص کے باعث ہوتا ہے، مگر اس مرض کا شکار ہونے کے لیے آپ کے اندر ناقص جین کی 2 کاپیوں کی ضرورت ہوگی، اگر صرف ایک میں مسئلہ ہے تو آپ میں یہ مرض سامنے آئے گا۔
مگر یہ نقص آپ آگے اپنی اولاد میں ضرور منتقل کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں جب آپ کے جین میں یہ نقص ہو اور شریک حیات کے جین میں بھی، اگر دونوں میں کوئی ایک ٹھیک ہوگا، تو بچوں کے بیمار ہونے کا خطرہ نہیں ہوگا۔
تاہم والدین کے جینز میں یہ مسئلہ ہو تو بچوں میں بیماری کا خطرہ اور 2 ناقص جینز موروثی طور پر منتقل ہونے کا خطرہ 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
تو اب بات کرتے ہیں کہ کزن میرج خصوصاً فرسٹ کزن (چچا اور تایا کی اولاد) میں شادی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے، جس کے لیے یہ تخمینہ لگانا ہوگا کہ دونوں کزن میں ایک جینیاتی مرض کی کاپی کا امکان کتنا ہوتا ہے۔
اس کا حساب کتاب تو کافی پیچیدہ ہے مگر سائنسدانوں کے مطابق کزن میرج سے بچوں میں کسی موروثی مرض کا خطرہ 4 سے 7 فیصد تک بڑھتا ہے جبکہ عام آبادی میں یہ 3 سے 4 فیصد ہے۔
سننے یا پڑھنے میں کچھ زیادہ فرق نہیں مگر تو صرف ایک جینیاتی مرض کی بات ہے، جبکہ شجرہ نسب میں ایسے ہزاروں امراض چھپے ہوسکتے ہیں۔
پھر اگر بچے مستقبل میں اپنے فرسٹ کزن سے شادی کریں اور ان کے بچے بھی یہی روایت آگے بڑھائیں تو یہ آنے والی نسلوں میں تباہی کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ وہ پرانے جینز وہ بھی ممکنہ طور پر خطرناک کو ری سائیکل کررہے ہوں گے۔
مثال کے طور پر اگر 2 تھیلیسیمیا مائنر افراد بے خبری میں آپس میں شادی کرلیں تو انہیں مستقبل میں تلخ تجربات کا سامنا ہوتا ہے، اور ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو تھیلیسیمیا میجر ہوجاتا ہے۔
رواں سال آئرلینڈ کی ایک کوئینز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کزن میرجز کے نتیجے میں ان کے بچوں میں شیزوفرینیا جیسے مرض کا امکان دوگنا بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : خاندان میں شادیوں کا ایک اور نقصان سامنے آگیا
تحقیق کے مطابق اس طرح کے امراض والدین سے بچوں میں مخصوص ڈی این اے کے باعث ورثے میں منتقل ہوتے ہیں، جیسے سیکھنے میں مشکلات اور ذہنی معذوری وغیرہ۔
دنیا میں ہر 10 میں سے ایک بچے کے والدین ایک دوسرے کے رشتے دار ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج چونکا دینے والے ہیں، کیونکہ عام طور پر کسی شخص میں شیزوفرینیا کا خطرہ 0.3 سے 0.66 فیصد تک ہوتا ہے تاہم رشتے داروں کی آپسی شادیوں سے یہ خطرہ 0.6 فیصد سے 1.32 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح عام افراد میں ڈپریشن کا خطرہ زندگی میں 10 فیصد تک ہوتا ہے مگر کزن میرج کے نتیجے میں یہ خطرہ 30 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔
گزشتہ سال لاہور میں چلڈرنز ہسپتال کے زیراہتمام ایک ورکشاپ میں طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ میڈیکل کی اصطلاح میں لائیسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈر (ایل ایس ڈی) کہلائی جانے والی جینیاتی بیماری سے نومولود بچے متاثر ہورہے ہیں اس لیے کزنز کے درمیان یا خاندان میں شادی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
اس بیماری میں مبتلا بچوں کا اگر شروع میں ہی علاج نہ کروایا جائے تو وہ بمشکل 5 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں، ایل ایس ڈی کے علاج سے بچوں میں اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے لیکن یہ بہت مہنگا علاج ہے۔
تو جہاں تک کزن سے شادی کی بات ہے تو ایسا کرنے میں برائی نہیں اگر طبی معائنہ کراکے جینیاتی امراض کے خطرے کی جانچ پڑتال کی جائے، تاہم اسے خاندانی روایت بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔