نقطہ نظر

خان صاحب ... خوشامدیوں سے ذرا بچ کے!

کابینہ کو بتانا ہوگا کہ عمران خان کی بحیثیت فرد تعریف کرنے پر پابندی ہے اور جنہیں یہ مذاق لگے ان کو مثال بنادیا جائے
لکھاری کتاب Brokering Peace in Nuclear Environments: US Crisis Management in South Asia کے مصنف ہیں۔

اس وقت تو عمران خان کا نام ہی امید کا استعارہ بن چکا ہے۔ ان کے مخالفین بھی اب اس دلیل پر رضامند نظر آ رہے ہیں کہ کسی نئے شخص کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ ایسے پہلے حکمران نہیں جن سے اتنی زبردست امیدیں وابستہ ہیں۔ دنیا بھر میں کئی سیاستدان اس مرحلے سے گزر چکے ہیں مگر کم ہی ہیں جو ان امیدوں پر پورا اترے ہیں۔

تو نئے وزیرِ اعظم کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ وہ عوامی امیدوں پر پورا اتریں؟ انتخابات سے لے کر اب تک اخباری کالم ان کے لیے ٹھوس مشوروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مگر مجھے اب بھی ایک کڑی گمشدہ محسوس ہو رہی ہے: آخر وہ کیسا رویہ رکھیں کہ ہمارے نظام پر حاوی ناقابلِ برداشت سیاسی کلچر کے ہتھے نہ چڑھ جائیں؟ اس سیاسی کلچر کے قلب میں خوشامد کی وباء موجود ہے۔

مزید پڑھیے: 'وزیرِ اعظم' عمران خان کے لیے کون سے چیلنجز منتظر ہیں؟

خوشامد پاکستانی سیاست کا ذہن چاٹ لینے والا امیبا ہے۔ اس سے ہر کوئی متاثر ہوتا ہے، دیانتدار بھی اور بے ایمان بھی۔ خوشامدی لوگ درحقیقت عملیت پسند لوگ ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ میرٹ کی عدم موجودگی اور کمزور ساکھ والے نظاموں میں معروضی تنقید کی نسبت باس کی خوشامد کے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ مختلف رہنماؤں کا خوشامد سے متاثر ہونے کا امکان مختلف ہوتا ہے۔ دفتر میں کوئی بھی یہ سوچ کر نہیں آتا کہ وہ خوشامدیوں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔ مگر پھر بھی زیادہ تر لوگ اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ رہنما ایسے افراد کے گھیرے میں آجاتے ہیں جو چوکیدار کا سا روپ دھار لیتے ہیں۔ اب رہنما کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور وہ بتدریج عوامی رائے سے اپنا تعلق کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان جیسے ممالک کے تناظر میں زیادہ شدید ہے جہاں بُری خبروں کی کوئی انتہا نہیں؛ چنانچہ تعریف چاہے حقیقی ہو یا نہیں، رہنماؤں کو مسلسل تناؤ اور ملک کے لاتعداد مسائل سے نمٹنے کی بے چینی سے خوش کن آرام پہنچاتی ہے۔

ان لوگوں سے بات کریں جنہوں نے بے نظیر، مشرف یا نواز شریف کے ساتھ کام کیا، وہ آپ لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح ان رہنماؤں کے اندرونی حلقے وقت کے ساتھ ساتھ معروضیت پسندوں سے خوشامد پسندوں میں تبدیل ہوگئے اور یہ کہ کس طرح اس کا بھرپور تعلق ان رہنماؤں کے عوام کے مسائل صبر سے سننے والے رہنماؤں سے اپنی مرضی نافذ کرنے والے اور کوئی بھی ناپسندیدہ تنقید مسترد کر دینے والے رہنماؤں میں بدل جانے سے ہے۔

عمران خان بھی اس دباؤ سے محفوظ نہیں رہیں گے اور چاہے وہ اپنے پیشروؤں سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، اگر انہوں نے اس بیل کو ابھی سے ہی جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکا تو خوشامد ان کے رویے پر اثرانداز ضرور ہوگی۔

مزید پڑھیے: کیا عمران خان بھٹو بن سکتے ہیں؟

سب سے پہلے تو انہیں اپنے آس پاس موجود لوگوں سے نمٹنا ہوگا۔ 4 اقدام ایسے ہیں جو انہیں ترتیب سے اٹھانے ہوں گے۔

اس کے بعد عمران خان کو پاکستان پر ایسے حکومت کرنی ہوگی جیسے کہ یہ ان کی آخری حکومت ہے۔ جب اقتدار میں موجود سیاسی جماعت پر سیاسی حقیقتیں کھلیں گی، تو انہیں عوامیت پسند اور ووٹ پکے کرنے والے اقدام اور وہ اقدام جو ملک کے طویل مدتی مفاد میں ہوں مگر پارٹی کی حمایت متاثر کرسکتے ہیں، ان سے انتخاب کرنا ہوگا۔

جب یہ بات واضح ہونے لگے گی تو خوشامد پسند افراد اٹھ کھڑے ہوں گے۔ وہ باس کو یقین دلائیں گے کہ ایسے مثالی اقدام جن کے صرف طویل مدتی فوائد ہوں، وہ پارٹی کو اقتدار سے باہر نکال دیں گے۔ اکثر اوقات یہ دلیل اس وقت مضبوط ہوجاتی ہے جب ایک رہنما اپنے دورِ حکومت کے دوسرے نصف میں داخل ہوتا یا ہوتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے معاملے میں عمران خان کے عوامیت پسند وعدے اور ان سے وابستہ بلند و بالا توقعات اس کام کو دوسرے نصف سے پہلے ہی پُرکشش بنا سکتی ہیں۔ اسے روکنے کے لیے عمران خان کو ایسی کسی بھی گفتگو کو جھٹک دینا ہوگا جو دوبارہ منتخب ہونے کے لیے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے لینے کے بجائے عوامیت پسندی کی حمایت کرے۔

وزیرِ اعظم کو اہم فیصلہ سازی اس طرح اپنے سے نچلی سطح پر منتقل کرنی چاہیے تاکہ خوشامدیوں کے لیے وہ پُرکشش ہدف نہ رہیں۔ عمران خان کو اپنے آپ کو ایک بھرتی کار کے طور پر تصور کرنا چاہیے اور چیزوں کی باریک بینی سے انتظام کاری کی خواہش کا سدِ باب کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیے: عمران خان کے اقتدار کو خطرہ ’کب‘ اور ’کیوں‘ ہوسکتا ہے؟

پاکستان کے مسائل اتنے زیادہ اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ہر مسئلہ خود حل کرنے والا قیادت کا اسٹائل کام نہیں کرسکتا۔ اس کے بجائے وزیرِاعظم کو اپنا وقت ملک کے اہم سرکاری سیاسی اور ٹیکنوکریٹ عہدوں پر بہترین ہنر کو بھرتی کرنے میں گزارنا چاہیے اور انہیں بااختیار بنانا چاہیے تاکہ وہ نتائج لاسکیں۔ خوشامد پسندوں کو پھر ان فیصلہ سازوں کے گرد جمع ہونا زیادہ پُرکشش لگے گا۔ یہ کم نقصان دہ ہوگا، تب تک جب تک کہ وزیرِاعظم ان افراد کی کارکردگی باقاعدگی سے جانچنے کا ایک طریقہ کار وضع نہ کرلیں اور ان لوگوں کو سزائیں دیں جو خوشامدی افراد کی وجہ سے کارکردگی نہیں دکھا سکے۔

یقیناً یہ سب کہنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ مگر ثبوت ناقابلِ تردید ہے: آپ اس کے ہتھے چڑھتے ہیں اور حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں، پھر چاہے آپ جو بھی ہوں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

معید یوسف

لکھاری کتاب Brokering Peace in Nuclear Environments: US Crisis Management in South Asia کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔