قربانی کی کھالیں اور معیشت پر اس کے اثرات
عیدالاضحٰی کے موقع پر جب قربانی کا حکم ہوا تب معاشرہ زرعی تھا اور معیشت کا تمام تر دارومدار اجناس کی کاشت، مویشی پروری اور زرعی تجارت پر تھا۔ اس زمانے میں تقریباً ہر فرد ہی گوشت، دودھ اور باربرداری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پالتو جانوروں کی پرورش کرتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صنعتی انقلاب نے شہری اور دیہی معیشت کو یکسر الگ الگ کردیا۔ اب شہروں میں جانور پالنے کا رجحان تقریباً ختم ہوچکا ہے اور دیہی علاقوں تک محدود رہ گیا ہے۔
عیدِ قربان نہ صرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ ایک بڑی معاشی اور فلاحی سرگرمی کا دن بھی ہے۔
عید الاضحٰی کے لیے قربانی کے جانوروں کو بڑے پیمانے پر ملک کے دیہی علاقوں سے ملک کے دیگر بڑے شہروں میں لایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح اربوں روپے کا سرمایہ شہروں سے دیہی اور زرعی معاشرے میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ملک بھر میں کتنی مالیت کے جانور فروخت ہوتے ہیں اس بارے میں کوئی قابلِ بھروسہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں البتہ قربانی کے بعد جمع ہونے والی کھالوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
ماضی میں قربانی میں اضافے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کا اندازہ ہے کہ اس سال عید الاضحٰی پر تقریباً 30 لاکھ بڑے اور اتنے ہی چھوٹے جانوروں کی قربانی کی جائے گی۔ توقع ہے کہ سال 2018ء میں گائیں کی کھالوں (چرم قربانی) کی تعداد 23 لاکھ کو عبور کرسکتی ہے۔ بھینس کی قربانی ممکنہ طور پر کم ہوگی اور گزشتہ سال کی طرح 3 لاکھ بھینس کی کھالیں اکٹھا ہونے کی امید ہے جبکہ اونٹ کی 5 ہزار کھالیں جمع ہوسکتی ہیں۔ پاکستان میں چھوٹے چوپائے میں بکرے پسند اور قربان کیے جاتے ہیں اور اس سال 30 لاکھ سے زائد بکرے ذبیحہ کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ دنبے 3 لاکھ تک قربان کیے جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔