اس دور کا قیمتی ترین ہنر
حال ہی میں ہم نے ’کمیونیکیشن اسکلز‘ کا ایک کورس مکمل کیا۔ کورس پڑھانے والے ایک غیر ملکی سپروائزر تھے جنہوں نے ابتدائی دنوں میں ہمیں ایک بڑی ہی دلچسپ بات کہی کہ، ’میں نے آج تک زندگی میں جتنا کچھ بھی کمایا، نام، ہنر، مہارت اور دولت یہ سب مجھے اگر چھن جائے اور صرف اور صرف ابلاغ کی مہارت یا کمیونیکیٹ کرنے کا ہنر میرے پاس بچ جائے تو میں یہ سب کا سب پھر سے حاصل کرسکتا ہوں کیونکہ یہ کمیونیکیشن ہی ہے جس سے آپ سیکھتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ ساری ٹریننگ ہی شاندار تھی، ہم نے سیکھا کہ آج کا دور، آئی ٹی کا دور نہیں بلکہ ’آئی سی ٹی‘ یعنی انفارمیشن، کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اُن کے مطابق قدیم پتھروں کے دور یعنی ’اسٹون ایج‘ سے ارتقاء پاتا یہ زمانہ جدید آئی سی ٹی کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹون ایج میں وہ شخص نہایت ہی قابل اور کامیاب سمجھے جاتے تھے جو پتھر کا بہترین استعمال کرسکتے تھے، اسے بہترین اشکال میں ڈھالنا اور اس کے ذریعے زندگی کو آسان بنانے کا فن جانتے تھے جبکہ آج کے دور میں وہی شخص کامیاب اور قابل سمجھا جاتا ہے جو اس دور میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن کو بہترین انداز میں استعمال کرسکتا ہو اور یہ سیکھنا کوئی ناممکن نہیں، یہ درست ہے کہ کچھ لوگ قدرتی طور پر اچھے کمیونیکیٹر ہوتے ہیں البتہ یہ ہنر سیکھا بھی جاسکتا ہے اور تھوڑی سی پریکٹس سے آپ اس میں تاک ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ بات سُن کر میں اپنے ساتھ کچھ عرصہ قبل ہونے والا ایک واقعہ ریلیٹ کرنے لگا۔
یہ ملک بھر کے تعلیمی بورڈز میں ٹاپ کرنے والے طلباء کا پروگرام تھا اور انہیں یہاں بلانے کا مقصد ملک کے ان ذہین ترین بچوں کو بہترین اساتذہ اور دانشوروں سے تربیت دلوانا تھا۔
اگلے روز بھی ایک نشست رکھی گئی تھی جس میں پاکستان کے ایک نہایت تجربہ کار ماہرِ ابلاغیات مدعو تھے۔ سیشن شروع ہوا تو تعارف اور تمہید کے بعد اُنہوں نے دیوار پر لگے ایک وائٹ بورڈ پر لائن کھینچ کر 2 کالم بنائے، ایک طرف ’اچھا انسان‘ اور دوسری طرف ’کامیاب انسان‘ لکھا اور وہاں موجود تمام شرکاء سے کہا کہ وہ باری باری آئیں اور اپنے علم، مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں ایک ایک ایسا نکتہ لکھیں جو کامیاب انسان کو اچھے انسان سے ممتاز کرتا ہے۔
پڑھیے: قدرت کے اشاروں کو سمجھیے اور اپنا ٹیلنٹ پہچانیے
سوال ذرا پیچیدہ تھا۔ ایک اچھا انسان اور ایک کامیاب انسان میں فرق ہوتا ہے، یہ بات ذرا مشکل سے ہضم ہوئی، مگر سب شرکاء باری باری اُٹھے اور وائٹ بورڈ پر اپنے اپنے خیال کے مطابق فرق لکھنے لگے، باقی سب ان کو اپنی اپنی ڈائریوں میں نوٹ کرتے رہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد سب کے پاس ایسی درجنوں شاندار اور عمدہ خصوصیات لکھیں تھیں جو کامیاب اور اچھے انسانوں کا خاصا ہوسکتی تھیں۔ کسی نے احساسِ ذمہ داری کو کامیاب انسان کی امتیازی خاصیت لکھا تھا تو کسی نے وقت کے صحیح استعمال یعنی ٹائم مینجمنٹ کو۔ کوئی کامیابی کے لیے انتھک محنت یا کمفرٹ زون سے نکل کر کام کرنے کا پرچارک تھا تو کوئی وقت سے پہلے کام کی تیاری کرنے یعنی پرو ایکٹو ہونے کو کامیابی کے حصول کا گُر گردان رہا تھا۔
ایک نوجوان نے where focus goes, energy flows کے قلیے پر عمل کرنے والوں کو کامیاب انسان ٹھہرایا کہ انسان جس جگہ اپنی توجہ مرکوز کر دے، اُسکی تمام توانائیوں کا رُخ بھی وہیں مُڑ جاتا ہے، اس کے علاوہ مقصد، منصوبہ بندی اور اسی طرح کی بے شمار ایسی خصوصیات اور فلسفے لکھے گئے جو ایک کامیاب آدمی کو ایک اچھے انسان سے جُدا کرتے ہیں۔
جب سب لوگ اپنے اپنے نظریات لکھ چکے تو اُس سیشن کے ٹرینر نے ایک نظر بورڈ پر ڈالی اور اپنا رُخ شرکاء کی طرف بدل کر کہنے لگے، ’بہت خوب! آپ سب نے جو جو پوائنٹ یہاں لکھے وہ اپنی اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہیں اور اُن کی اہمیت مسلمہ ہے، کامیابی ایک سائنس ہے اور جب آپ اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کو ان سب نظریات اور فلسفوں سے گزرنا پڑتا ہے، یہ سیکھ کر ہی آپ اپنی زندگی بدلتے اور کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر آپ ایک بات پر غور کیجیے، آپ نے جو باتیں یہاں صرف کامیاب آدمی کے کالم میں لکھیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اُن میں سے بیشتر کا اطلاق اچھے آدمی پر بھی ہوتا ہے؟‘
سب شرکاء منہمک تھے، ’آپ بتائیں، کیا اچھا انسان سچا اور ایماندار نہیں ہوتا؟ احساسِ ذمہ داری بھی ایک ایسی خاصیت ہے جو کسی معتبر اور بہتر شخص میں بدرجہ اُتم پائی جاتی ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر اچھا انسان اپنی زندگی ایک مقصد کے تحت گزارتا ہے تو کیا یہ سمجھنا درست ہے کہ ان خصوصیات کے ’جملہ حقوق‘ صرف کامیاب لوگوں کو ہی حاصل ہیں‘۔ اسپیکر کے سوال نے سب کو لاجواب کردیا تھا، بات بھی سچ تھی۔
سب شرکاء ایک دوسرے کے چہرے تکنے لگے، ایک اور سوال آیا۔ ’چلیں آپ یہ بتائیے کہ ایک بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی کون سا کام کرتا ہے؟‘
’روتا ہے‘، جواب آیا۔
’صحیح، اور یہ رونا کیا ہے؟‘ جواب ندارد۔
’رونا ابلاغ ہے۔ کمیونیکیشن ہے‘۔ ہم اس دنیا میں آتے کے ساتھ ہی جو پہلا کام کرتے ہیں وہ اپنی باہر کی دنیا سے ابلاغ کرنا ہوتا ہے اور اسی ایک عمل سے ہمیں تمام عمر واسطہ رہتا ہے، یہی ایک چیز ایک کامیاب انسان کو ایک اچھے اور عام انسان سے ممتاز کرتی ہے۔ کامیاب لوگ بہترین ’کمیونیکیٹر‘ ہوتے ہیں، انہیں اپنی بات کہنے کا فن آتا ہے، یہ دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے ماہر ہوتے ہیں، اور یہ لوگوں کو قائل کرنے اور متاثر کرنے پر بھی ملکہ رکھتے ہیں۔
پڑھیے: کامیاب زندگی گزارنے کے لیے پُراعتماد ہونا لازمی ہے
کوئی انسان چاہے کتنا بھی قابل ہو اور اُس میں کامیاب لوگوں کی کتنی بھی خصوصیات ہوں، وہ تب تک سرفراز نہیں ہوسکتا جب تک اُسے ابلاغ کا فن نہ آتا ہو۔ آپ نے کئی لوگ ایسے دیکھیں ہوں گے جن کی قابلیت پر لوگ شک کرتے ہیں مگر وہ معاشی اور معاشرتی طور پر دوسروں کے مقابلے کافی آگے ہوتے ہیں، اور اس سب کی وجہ یہی ہے کہ وہ دوسرے کو متاثر کرنا، قائل کرنا اور مطمئن کرنا بخوبی جانتے ہیں‘۔ پانی کا ایک گھونٹ گلے میں اُتار کر وہ کہنے لگے، ’ہر انسان جو آج کی دنیا میں کامیاب ہے، اُس کے پاس مؤثر ابلاغ کا ہنر ہے، آپ بہترین انداز میں ’کمیونیکیٹ‘ کرنا سیکھ لیجیے آپ کی زندگی میں بے شمار مثبت تبدیلیاں آنے لگے گیں۔‘
ایک طلب علم نے سوال کیا کہ، ’مگر سر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بول نہیں سکتے، وہ کبھی کامیاب ہی نہیں ہو سکتے؟‘
’نہیں! ہرگز نہیں! صرف بولنا ہی ابلاغ نہیں ہوتا بلکہ اس کے کئی دیگر ذرائع بھی ہیں، لکھنا، تخلیقی کام، بدن بولی کے ذریعے بھی ابلاغ کیا جاتا ہے۔ آج کل خیالات اور سوچ کے ابلاغ کا دور ہے اور جو ان سب پر مہارت حاصل کرلے وہ زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے‘۔
ابلاغ بنیادی طور پر اپنے وجود کا مؤثر اور مکمل احساس دلانے کا نام ہے، اس پر وہ طرح طرح کی مثالیں دیتے رہے۔ بیسٹ سیلر مصنفین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ ضروری نہیں ایک بیسٹ سیلر کتاب، بیسٹ رٹن (لکھی ہوئی) کتاب بھی ہو، مگر وہ ایک چیز جو کسی عام سے لکھاری کو بیسٹ سیلر بناتی ہے وہ یہی ابلاغ کی مہارت ہے جو لوگوں کو اس کی کتاب خریدنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ایک اور مثال انہوں نے اسٹیفن ہاکنگ کی دی جو سوچ اور خیال کے ابلاغ کی حیرت انگیز مثال ہے اور یہی خاصیت اسے دنیا کے ذہین ترین انسانوں کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔ تمام گفتگو کا لُبِ لباب یہی تھا کہ کمیونیکیشن ہی آج کے دور میں کامیابی اور ترقی کی بنیاد ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دور میں کسی بھی میدان میں بڑی سطح پر کامیابی پانے کے لیے بھی 3 چیزیں درکار ہیں، انفارمیشن، کمیونیکیشن اور ٹیکنالوجی۔
معلومات اثاثے کی شکل اختیار کرچکی ہے، کئی بڑی کمپنیاں محض اپنے پاس موجود خاص معلومات کی بناء پر ہی چل رہی ہیں اور ٹیکنالوجی نے تو ابلاغ یا کمیونیکیشن کو مزید ضروری بنا دیا ہے اور موجودہ دور میں جو بھی بہتر کمیونیکیٹ کرسکتا ہے کامیابی اسی کے لیے ہے۔ یہ فن آپ کو زندگی کو مزید خوبصورت اور ’ایکٹیو‘ انداز میں گزارنے میں مدد دیتا ہے اور ممکنات اور مواقع کا ایک نئے جہاں سے آپ کو روشناس کراتا ہے۔
خزیمہ سلیمان میڈیا سائنسز کے طالب علم ہیں اور 11 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم آغا جی کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔ انہیں سیلف ہیلپ اور زندگی سے متعلق موضوعات پر لکھنا پسند ہے.
انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔