نقطہ نظر

اردو کی ماں ترک زبان: اگر یقین نہ آئے تو آزما لیجیے

ترکی اور اردو زبان میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں۔ ترکی میں کوئی بات سمجھانے کے لیے اردو کا ایک لفظ بھی کافی ہوسکتا ہے۔

میں نے ترکی کا سفر 4 مرتبہ کیا ہے۔ 1995ء، 2007ء، 2010ء اور 2015ء۔ یعنی 20 سال میں چار سفر۔ ترک سیاسی تاریخ کے یہ 20 سال اس حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس پورے عرصے میں ترک سیاست کا انداز ماضی کی روایات کے بالکل برعکس ہوگیا اور ملکی قیادت بلند ایجیوت، تانسو چلر اور سلیمان دیمرل وغیرہ سے ہوتی ہوئی نجم الدین اربکان اور رجب طیب اردوان جیسی شخصیات کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی۔

ترکی کا پہلا سفر میں نے 1995ء میں کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نہ انٹرنیٹ کا استعمال عام تھا، نہ ای میل تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا۔ جو دیکھا حسرت سے دیکھا، جس شے پر نگاہ ڈالی، آخری نگاہ سمجھ کر ڈالی اور جس سے بھی دوستی ہوئی، اس سے جدا ہونے کو زندگی بھر کی جدائی سمجھا۔ ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ کا محاورہ اس دور کا صحیح عکاس تھا۔ آج کل کی طرح نہیں کہ کسی سے سرِ راہ ہلکی پھلکی ہیلو ہائے کیا ہوئی، رات کو وہ اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ فیس بک پر آن حاضر ہوا اور محبتوں اور دوستیوں کی نئی نویلی داستانیں رقم ہونا شروع ہوگئیں۔

میرے دل میں ترکی دیکھنے کی خواہش پہلی مرتبہ کب پیدا ہوئی، یہ میں یقین کے ساتھ تو نہیں بتاسکتا، البتہ یہ یاد ہے کہ بچپن سے نکل کر لڑکپن کی حدود میں داخل ہوا تو بچوں کی کتابوں اور رسالوں سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوا اور ادبی کتابوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ سب رنگ، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ ہمارے گھر ان دنوں باقاعدگی سے آتے تھے۔ اعلیٰ ادب پیش کرنے والے ان رسالوں کے مطالعے نے ذہن کو سنجیدہ ادب کی طرف مائل کردیا۔

70ء کے عشرے میں سیارہ ڈائجسٹ میں بہت عمدہ سفرنامے شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ کا ’نکلے تیری تلاش میں‘ تھا اور دوسرا محمد اختر ممونکا کا ’پیرس 205 کلو میٹر‘ تھا، یہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی سفر پر مشتمل بہت اعلیٰ پائے کے سیاحت نامے تھے۔

میں نے مستنصر حسین تارڑ کی سب سے پہلی تحریر ’الپس کے آسیب زدہ قصبے‘ سیارہ ڈائجسٹ میں ہی پڑھی۔ یہ ان کے یورپی سفرنامے کا ایک باب تھا۔ یقین جانیں کہ اس سفری قصے کو پڑھ کر میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا اور آج بھی ان صفحات کا عکس میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ پھر کچھ ہی دن بعد محمد اختر ممونکا کا سفرنامہ پڑھا تو دل اسی طرح کے سفر کرنے کے لیے بے چین ہوگیا۔ چنانچہ میں نے جو اولین ادبی کتابیں خریدیں، ان میں تارڑ صاحب کا سفرنامہ ‘نکلے تیری تلاش میں‘ بھی شامل تھا۔

تارڑ صاحب کے اس سفرنامے کا سب سے طویل حصہ ترکی کے سفر پر مشتمل ہے اور ان کے قلم سے نکلے ترکی کے اس سیاحت نامے نے میرے دل میں ترکی اور استنبول سے محبت کی جو جوت جگائی، وہ آج تک روشن ہے۔ میں تادمِ تحریر ترکی کے 4 سفر کرچکا ہوں، لیکن ترکی سے لگاؤ میں کمی کے بجائے مستقل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

جہاں تک میری بیرونِ ملک سیاحتوں کا تعلق ہے، تو میرا سب سے پہلا غیر ملکی سفر چین کا تھا جو میں نے 1987ء میں شاہراہِ قراقرم سے بائی روڈ سنکیانگ کے پہلے شہر کاشغر تک کیا تھا۔ 1992ء میں دوسرا غیر ملکی سفر ایران کا تھا۔ یہ بھی بائی روڈ صوبہ بلوچستان کے راستے تفتان، زاہدان اور اصفہان سے ہوتے ہوئے بحیرہ کیسپیئن کے ساحلوں تک کا سفر تھا۔

میں ترکی کا سفر سب سے پہلے کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کا موقع مجھے 1995ء میں ملا۔ بات اصل میں یہ بھی ہے کہ چین اور ایران کے سفر میں نے بائی روڈ کیے تھے، جو خاصے کم خرچ تھے۔ چونکہ اس وقت میں اپنے طالب علمی کے ادوار میں تھا، لہٰذا صرف اسی طرح کے سفر کرنے کی سکت رکھتا تھا جو کم خرچ ہوں۔ جب برسرِ روزگار ہوا اور 4 پیسے جیب میں آئے تو ’بائی ایئر‘ سفر بھی ممکن محسوس ہونے لگے اور پھر سب سے پہلے میں نے جس سفر کا ارادہ کیا اس کی منزل ترکی تھی۔

1995ء میں ترکی کا سفر—تصویر عبیداللہ کیہر

ترکی کے دوسرے سفر کا موقع مجھے 12 سال بعد 2007ء میں ملا۔ اس وقت ترکی میں عدالت پارٹی کے رجب طیب اردان کی حکومت کا پہلا دور چل رہا تھا۔ اس سفر میں مجھے ترکی کے طول و عرض میں ایک بھرپور سفر کا موقع ملا۔ میں نے ترکی کے شہروں استنبول، ایدرنہ، بورصہ، قونیہ، مرسین، چناق قلعہ اور گیلی بولو میں سیر و سیاحت کی اور ترکی کے طول و ارض میں تقریباً 12 ہزار کلو میٹر سفر کیا۔ پاکستان واپس آکر میں نے ایک اخبار میں اس سفر کا مختصر رپورتاژ تو ضرور تحریر کیا لیکن دل میں بہت کچھ تھا جسے نوکِ قلم پر نہ لاسکا۔

ترکی کے ان دونوں اسفار میں ایک تکلیف دہ قدر مشترک بات یہ تھی کہ وہ سفر میں نے تقریباً گونگوں کی طرح کیے۔ ترکی کا مجھے ایک حرف پلے نہ پڑتا تھا اور انگلش ترکوں کو ذرا بھی نہیں آتی۔ چنانچہ یہ سیاحتیں اشاروں اشاروں میں ہی کی گئیں۔ میں ترکی جانے سے پہلے ایران کا سفر بھی کرچکا تھا لیکن وہاں تو 2 سے 4 دن بعد ہی ٹوٹی پھوٹی فارسی بولنا شروع کردی تھی،ٍ یوں وہاں نہ صرف یہ کہ اجنبیت میں کمی آئی بلکہ کئی اچھے اور مخلص ایرانی دوست بھی بن گئے جو آج تک رابطے میں ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ تھی کہ ترکی میں اچھے اور مخلص لوگ، خصوصاً پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والے بے شمار ہیں لیکن صرف زبان نہ آنے کی وجہ سے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی تعلق پیدا نہ ہوسکا۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ کسی طرح کچھ نہ کچھ ترکی زبان ضرور سیکھ لوں۔

2007ء میں کھینچی گئی نیلی مسجد کی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر

میں 2003ء میں اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) میں بھی گیا۔ وہاں ترکی زبان کے کورس کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اس سال ترکی زبان سیکھنے کا خواہش مند میں اکیلا ہی آیا تھا، چنانچہ وہ مجھ اکلوتے شاگرد کے لیے ترکی کلاسز کا انعقاد نہیں کرسکتے تھے۔ مجبور ہوکر جب میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا تو یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ بنیادی ترکی سیکھنے کے لیے یہاں خاصی آسانیاں موجود تھیں۔ میرے پاس ترکی سے خریدی ہوئی زبان سیکھنے کے لیے چند کتابیں بھی موجود تھیں، لہٰذا ان کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد سے میں نے ترکی زبان کا قفل توڑا اور معمولی استعداد پیدا کی۔ پھر ’گوگل ٹرانسلیٹ‘ کے پروگرام نے بھی خاصی مدد کی۔

انہی دنوں انٹرنیٹ پر فیس بک کی سوشل نیٹ ورکنگ کا دنیا میں وہ غلغلہ اٹھا کہ لگتا تھا کہ کچھ دنوں میں انٹرنیٹ کا نام ہی فیس بک ہوجائے گا۔ میں بھی فیس بک کے اس میدانِ کارزار میں کود پڑا۔ فیس بک پر جہاں میرے ہزاروں پاکستانی دوست بنے، وہیں میں نے 30 سے 40 ترک دوست بھی بنا ڈالے، جن کے ساتھ میں اپنی معمولی ترکی شدھ بدھ اور گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے ترکی زبان میں گفتگو کرتا رہا اور وہ رفتہ رفتہ میرے گہرے دوستوں میں شامل ہوگئے۔

ان ترک دوستوں نے مجھے خاصی توجہ اور وقت دیا اور یوں میری ترکی زبان کی استعداد روز بہ روز بڑھتی چلی گئی۔ اب جبکہ ترکی زبان سے میری اجنبیت بھی دور ہوچکی تھی اور میں کچھ ترک دوست بھی بنا چکا تھا چنانچہ فطری طور پر دل میں ایک بار پھر ترکی جانے کی شدید خواہش پیدا ہورہی تھی سو 2010ء میں، مَیں نے ترکی کا تیسرا سفر کیا تو واپسی پر کچھ ہمت ہوئی اور میں نے ترکی پر ایک تفصیلی کتاب لکھنے کا آغاز کردیا۔ اس کتاب میں، مَیں نے اپنی تینوں سیاحتوں کی روداد کے ساتھ ساتھ ترکی کی تاریخ و ثقافت اور تہذیبی و سیاسی کشمکش کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ میری کتاب ’یارِ مَن ترکی‘ پہلے کراچی کے ایک اخبار میں قسط وار شائع ہوئی اور بالآخر 2015ء کے شروع میں کتابی صورت میں چَھپ کر مارکیٹ میں آگئی۔

2010ء میں باسفورس کی کھینچی گئی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر

2010ء میں باسفورس کی کھینچی گئی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر

ترکی میں سیاحت کے لیے ترکی زبان کا آنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کو کسی کی زبان نہ آتی ہو، تب تک آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔ ترک چونکہ ہمیشہ سے آزاد رہے ہیں اور انہوں نے ہماری طرح غلامی کے مزے نہیں چکھے، اس لیے انہیں انگریزی بالکل نہیں آتی اور نہ ہی وہ اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ترکوں میں عربی بولنے اور سمجھنے والے پھر بھی مل جاتے ہیں کیونکہ ترک جزیرہ عرب پربھی حکمرانی کرچکے ہیں۔

ہٹلر سے دوستی اور جرمنوں میں اثرو رسوخ کے باعث جرمن زبان سمجھنے والے بھی موجود ہیں لیکن انگریزی سمجھنے والے ترک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ترک اردو زبان بھی نہیں سمجھتے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ترکی اور اردو زبان میں کم از کم 9 ہزار الفاظ مشترک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ترکی میں کوئی بات کرنی ہو تو پورے پورے جملے کی جگہ آپ صرف اردو کے الفاظ بول کر بھی کام چلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو کسی دکان سے کوئی چیز خریدنی ہو، تو آپ How Much یا What is the price کہنے کے بجائے صرف اردو کا ایک لفظ بول دیجیے ’قیمت‘۔ دکاندار آپ کی بات فوراً سمجھ جائے گا اور آپ کو چیز کی قیمت بتا دے گا۔

اس حوالے سے بہت ہی دلچسپ قصہ یاد آگیا. میں ایک بازار سے گزر رہا تھا تو اچانک دکان پر کچھ اچھا سامان نظر آیا اور میں نے دکاندار سے پوچھا کہ ?What is the price

لیکن مجال ہے کہ وہ میری بات کو سمجھ جائے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں کسی طرح اپنی بات سمجھا سکوں لیکن میں ناکام رہا، جس پر تنگ آکر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار اب اس کی قیمت کیسے معلوم کی جائے۔ بس میری یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ فوراً دکاندار نے مجھے سے پوچھا قیمت؟ اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔

یوں میرے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ ترکی میں بھی قیمت کو قیمت ہی کہا جاتا ہے۔

2015ء میں ترکی کی سیر—تصویر عبیداللہ کیہر

میں نے اپنی ترک سیاحتوں کے لیے سب سے پہلے عام استعمال کے وہ ترکی الفاظ اور جملے اردو رسم الخط میں تیار کرنا چاہے کہ جن کی کسی سیاح کو ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو متوجہ کرنے کے لیے ’سنیے‘ یا ’ہیلو‘ کہا جاتا ہے تو ترکی میں اس کے لیے ’مرحبا‘ کہتے ہیں۔ مرحبا کہہ کر آپ کسی بھی ترک کی فوری توجہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر السلام علیکم کہہ کر بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ مزید آگے بڑھا تو یہ جملے سامنے آئے:

اردو: آپ کا نام کیا ہے؟ ترکی: آدِ نیز نے؟ Adınız ne

اردو: میرا نام عبید ہے۔ ترکی: آدِم عبید Adım Obaid

اردو: کیا حال ہیں؟ ترکی: ناسِل سی نیز Nasılsıniz

اردو: میں ٹھیک ہوں۔ ترکی: ای یی یم İyiyim

اردو: ہاں۔ ترکی: ایویت Evet

اردو: نہیں۔ ترکی: ہائر Hayır

اردو: کیا۔ ترکی: نے Ne

اردو: کیوں۔ ترکی: نیدن Neden

اردو: کیسے۔ ترکی: ناسل Nasıl

اردو: کب۔ ترکی: نے زمان Ne zaman

اردو: کہاں۔ ترکی: نیردا Nerede

اردو: کون۔ ترکی: کِم Kim

اردو: کتنا۔ ترکی: کچ Keç

اردو: چاہیے۔ ترکی: اِستیورم İstiyorum

اردو: یہ۔ ترکی: بُو Bu

اردو: وہ۔ ترکی: سُو Su

اردو: ٹھنڈا۔ ترکی: سوغق Suğuk

اردو: گرم۔ ترکی: سجاک Sıcak

اردو: چھوٹا۔ ترکی: کوچُک Küçük

اردو: بڑا۔ ترکی: بویوک Büyük

اردو: ہے۔ ترکی: وَر Ver

اردو: نہیں ہے۔ ترکی: یوق Yok

اردو: خوبصورت۔ ترکی: گُزل Güzel

اردو: بدصورت۔ ترکی: چرکن Çirkin

اردو: سستا۔ ترکی: عجز Ucuz

اردو: مہنگا۔ ترکی: پہالی Pahalı

اردو: رقم۔ ترکی: پارہ Para

اردو: سڑک۔ ترکی: جادہ Cadde

اردو: نقشہ۔ ترکی: خریطہ Harita

اردو: ہوائی جہاز۔ ترکی: اُچاک Uçak

اردو: ایئرپورٹ۔ ترکی: ہوا لانی Havalanı

اردو: کار۔ ترکی: عرابہ Araba

اردو: بس۔ ترکی: آتو بُس Otobüs

اردو: دِن۔ ترکی: گُن Gün

اردو: رات۔ ترکی: گاجہ Gece

اردو: صبح۔ ترکی: آئدن Aydın

اردو: شام۔ ترکی: اکشام Akşam

اردو: آج۔ ترکی: بوُگن Bugün

اردو: کل۔ ترکی: یارِن Yarın

اردو: میں۔ ترکی: بین Ben

اردو: ہم۔ ترکی: بِز Biz

اردو: تم۔ ترکی: سین Sen

اردو: مرد۔ ترکی: ارکک Erkek

اردو: عورت۔ ترکی: کادن Kadın

اردو: لڑکا۔ ترکی: اوغلان Oğlan

اردو: لڑکی۔ ترکی: قز Kız

اردو: بچہ۔ ترکی: چوجک Cücük

اردو: ماں۔ ترکی: انّا Anne

اردو: باپ۔ ترکی: بابا Baba

اردو: بھائی۔ ترکی: قاردیش Kardeş

اردو: بہن۔ ترکی: قِز قردیش Kız Kardeş

اردو: روٹی۔ ترکی: ایکمیک Ekmek

اردو: گوشت۔ ترکی: ایت Et

اردو: مچھلی۔ ترکی: بالِک Balık

اردو: مرغی۔ ترکی: تاوُک Tavuk

اردو: سبزی۔ ترکی: سبزہ Sebze

اردو: پھل۔ ترکی: میوہ Meyve

اردو: میٹھا۔ ترکی: تاتلہ Tatlı

اردو: خدا حافظ۔ ترکی: گُلے گُلے Güle güle

اردو: اللہ حافظ۔ ترکی: اللہ اسما رالدک Allah ısmarladık

ان الفاظ اور جملوں کے علاوہ گنتی، دنوں اور مہینوں کے نام یاد کرنا بھی ضروری تھے۔ وہ بھی یاد کرلیے۔ دنوں کے نام ہیں:

مہینوں کے نام ہیں:

سیاح کے لیے گنتی آنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ترکی گنتی یوں ہے:

یہ سارے الفاظ اور جملے مجھے خاص طور پر اردو رسم الخط میں اس لیے تیار کرنے پڑے کہ ترکی کے جدید رومن رسم الخط کو پڑھنا اور سمجھ کر درست ادائیگی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ کئی رومن حروف ایسے ہیں جن کی آواز ہم انگلش اصول کے مطابق ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں پہنچ کر ان کی آواز بدل جاتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ رومن حرف ’C‘ کا ہے۔ ہم عام طور سے اسے ’ک (کاف) یا س (سین)‘ کی آواز سے ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں یہ ’ج (جیم)‘ کی آواز دیتا ہے جبکہ ترکی کے C کے لیے جیم کی ادائیگی میں چونکہ لوگ اکثر غلطی کرجاتے ہیں اس لیے وہ لفظ بے معنی ہوجاتا ہے۔

مثلاً ترکی کے وزیرِاعظم کا نام رجب طیب اردوان (Recep Tayyip Erdogan) ہے۔ اب اگر ہم یہاں لفظ Recep کو ’رجب‘ کے بجائے ’رسپ‘ پڑھیں تو یہ بے مطلب ہوجائے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال لفظ ’جمہوریت‘ ہے جسے رومن ترکی میں Cumhuriyet لکھا جاتا ہے۔ اب ہم اسے جمہوریت کی بجائے ’کمہوریت‘ پڑھیں تو کیسا رہے گا!

’ج‘ کے علاوہ جدید ترکی زبان میں ’ح‘، ’خ‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں لفظ ’خ‘ کی ادائیگی بھی ’ح‘ جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً ’خان‘ کو وہاں ’حان‘ کہا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈرامہ ’میرا سلطان‘ میں ملکہ کا نام آپ نے ’حُریم سلطان‘ سنا ہوگا، جو دراصل ’خُرم سلطان‘ ہے۔

انگلش جاننے والوں کے لیے رومن ترکی حروف کی ادائیگی میں اکثر مسئلہ ہوتا ہے اس لیے میں نے احتیاطاً یہ سارے ترکی جملے سمجھ کر اردو رسم الخط ہی میں لکھ لیے تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر پڑھ کر بھی درست ادائیگی کرسکوں۔ ترکی میں اگر رومن رسم الخط کی یہ بدعت نہ آتی تو اسے سمجھنا بہت آسان ہوتا، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے۔ کیونکہ ترکی اور اردو میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں، بلکہ ترکی زبان تو اردو کی ماں ہے۔ ’اردو‘ ترکی زبان ہی کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’لشکر‘۔

مغل بادشاہوں کے بین الاقوامی فوجی لشکروں نے باہمی گفت و شنید کے لیے ترکی، فارسی، عربی اور ہندی زبانوں کا ملغوبہ بناکر ایک بولی ایجاد کی تھی جس پر ترکی زبان کا غلبہ تھا۔ یہی بولی آگے چل کر دنیا کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اس میں مزید کئی الفاظ شامل ہوتے رہے اور بالآخر اسے ایک ملک پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ملا۔

گزشتہ 2 عشروں میں ترکی نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں ہے اور اپنی معیشت کو اس قدر مضبوط کرلیا ہے کہ اب وہ ترقی یافتہ یورپی ممالک سے کندھا ملا رہا ہے۔ چنانچہ ہم جیسے ملکوں کے کسی شخص کو ترکی دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے دل میں لازماً یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اُس کا اپنا ملک بھی ایسا ہی ہوتا اور اگلے لمحے وہ یہاں کی شہریت حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہونے کی خواہش بھی کرتا ہے۔ ترکی میں دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہے، چنانچہ آپ اپنے ملک کی شہریت رکھتے ہوئے ترک شہریت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ترکی کے وہ شہری جنہوں نے کسی ایسے ملک کی شہریت اختیار کرلی ہے کہ جہاں دوہری شہریت رکھنا قانوناً منع ہے، جیسے جرمنی یا آسٹریا، تو ان کے لیے ترکی ’بلو کارڈ‘ جاری کرتا ہے، جس کے تحت وہ ترکی میں رہ سکتے ہیں، ملازمت یا کاروبار کرسکتے ہیں اور جائیداد خرید سکتے ہیں، البتہ قومی انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتے اور نہ ہی الیکشن میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔

1982ء کے ترک آئین کے مطابق ہر وہ شخص جس کی ماں یا باپ ترک ہو تو وہ ترکی کا شہری ہے۔ البتہ اگر کوئی بچہ ترکی میں پیدا ہوا ہو، لیکن اس کے ماں باپ میں سے کوئی بھی ترک نہ ہو تو اسے ترک شہریت نہیں ملے گی۔ ایک ایسا غیر ملکی بچہ جسے ترک والدین نے 18 سال سے کم عمر میں اپنی لے پالک اولاد بنالیا ہو، وہ ترک شہری ہے۔ اگر کسی کو ترکی میں رہتے ہوئے بغیر کسی وقفے کے پانچ سال گزرچکے ہوں تو وہ بھی ترک شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ترکی میں ایک مخصوص مالیت یا رقبے کی جائیداد خرید لے تو اسے بھی ترک شہریت مل سکتی ہے مگر ترک شہریت حاصل کرنے کے ان سب طریقوں میں سب سے آسان طریقہ ’شادی‘ ہے۔ اگر آپ کسی ترک خاتون سے (یا آپ خاتون ہیں تو کسی ترک مرد سے) شادی کرلیں اور اس شادی کے 3 سال بخیریت گزر جائیں تو آپ ترک شہریت حاصل کرسکتے ہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ ترکی میں دوسری شادی کرنا قانوناً ممنوع ہے۔

ایک دن میں ایشیائی استنبول کے ’حیدر پاشا‘ ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہا تھا۔ حیدر پاشا کبھی تاریخی ’حجاز ریلوے‘ اور ’بغداد ریلوے‘ کا پہلا اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ بغداد ریلوے کی گاڑی استنبول سے چلتی تھی اور قونیہ، ادانہ اور حلب کے شہروں سے گزرتی ہوئی بغداد جاتی تھی۔ جبکہ حجاز ریلوے کی گاڑیاں استنبول سے چھوٹ کر قونیہ، ادانہ، حلب، دمشق اور عمان سے ہوتی ہوئی مدینہ منورہ تک جاتی تھیں۔

بغداد ریلوے کی گاڑی جرمن شہر برلن سے آتی تھی اور یورپ کے کئی ملکوں سے گزر کر استنبول میں آخری یورپی ریلوے اسٹیشن سرکجی پہنچتی تھی۔ یہاں سے آگے ایشیاء کے پہلے اسٹیشن حیدر پاشا تک جانے کے لیے آبنائے باسفورس کو عبور کرنا ضروری تھا، چنانچہ مسافروں سے بھری یہ پوری کی پوری ٹرین سمندر میں کھڑی ایک فیری میں گھس جاتی تھی۔ یہ فیری اسے سمندر عبور کرواکے یہاں حیدر پاشا اسٹیشن تک لے آتی تھی اور پھر ٹرین کا ایشیائی سفر شروع ہوجاتا تھا۔

حیدر پاشا کی یہ عمارت ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ دونوں کا کام دیتی تھی۔ میں خاصی دیر تک حیدر پاشا کے بلند و پرشکوہ ایوانوں میں بھٹکتا رہا اور پھر سمندر کی طرف کھلنے والے دروازے سے باہر نکل آیا۔ باسفورس کا پانی ہلکورے لیتے ہوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کو تھپیڑے مار رہا تھا۔ میرے سامنے سمندر سے متصل ایک مختصر سی خوبصورت قدیم عمارت کھڑی تھی جس میں 2 رنگارنگ دروازے تھے۔ لوگ فیری میں سوار ہونے کے لیے پہلے دروازے سے داخل ہوتے تھے۔ اس دروازے پر فارسی رسم الخط والی ترکی میں ’برنجی موقع‘ (یعنی پہلا دروازہ) لکھا تھا، جبکہ یورپ سے ایشیاء کی طرف آنے والے مسافر فیری سے اتر کر جس دروازے سے اسٹیشن میں داخل ہوتے تھے اس پر ’اکنجی موقع‘ (یعنی دوسرا دروازہ) تحریرتھا۔ دروازے کے لیے ترکی زبان کا لفظ ’موقع‘ دیکھ کر میں چونک اٹھا۔اس لفظ کو ہم اردو میں بھی تو غیر محسوس طور پر انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ’میں موقع دیکھ کر نکل گیا‘۔ تو کیا وہ یہی نہیں کہنا چاہتا کہ میں ’دروازہ‘ دیکھ کر نکل گیا؟‘

اگر ہم ترکی زبان کے حروف تہجی کو سمجھ لیں اور پھر کوئی بھی ترک لغت اٹھا کر پڑھیں تو ایسے لاتعداد الفاظ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ عین انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کے لیے ہم انہیں اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ بُرا ہو اس رومن رسم الخط کا جو ترکی زبان کو ہمارے لیے یکسر اجنبی بنا دیتا ہے۔

ہم برِصغیر کے باسی چونکہ رومن رسم الخط کے English Environment میں رہتے ہیں اس لیے ترکی کے کئی حروف کی آواز انگریزی کے مطابق نکالتے ہیں، یوں ترکی کا وہ لفظ ہمارے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’HACI‘ آپ اسے ’ہاکی‘ پڑھیں گے، لیکن یہ سیدھا سادہ ’حاجی ہے۔ ’ک اور ’ق‘ دونوں کے لیے ترکی میں ’K‘ استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں Q نہیں ہوتا۔ ’واؤ‘ کے لیے W کے بجائے V استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں W نہیں ہوتا۔ ’ح‘ اور ’خ‘ دونوں کے لیے H استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ع‘ اور ’غ‘ دونوں کے لیے G استعمال ہوتا ہے۔ ’ب‘ کے لیے B اور P دونوں مستعمل ہیں۔ مثلاً ایوب کو Eyup لکھا جاتا ہے۔ ’د‘ کے لیے D اور T دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے مراد کو Murat لکھا جاتا ہے۔ الفاظ کے آخر میں ’ہ‘ (چھوٹی ہے) کے لیے E استعمال کیا جاتی ہے۔ مثلاً سادہ کو Sade لکھتے ہیں۔ ذرا مندرجہ ذیل الفاظ دیکھیے۔ رومن حروف میں یہ کس قدر ناقابلِ فہم ہیں لیکن اردو رسم الخط میں آتے ہی یہ سب الفاظ کیسے مانوس اور اپنے اپنے سے ہوجاتے ہیں:

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔