2015ء میں ترکی کی سیر—تصویر عبیداللہ کیہر
میں نے اپنی ترک سیاحتوں کے لیے سب سے پہلے عام استعمال کے وہ ترکی الفاظ اور جملے اردو رسم الخط میں تیار کرنا چاہے کہ جن کی کسی سیاح کو ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو متوجہ کرنے کے لیے ’سنیے‘ یا ’ہیلو‘ کہا جاتا ہے تو ترکی میں اس کے لیے ’مرحبا‘ کہتے ہیں۔ مرحبا کہہ کر آپ کسی بھی ترک کی فوری توجہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر السلام علیکم کہہ کر بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ مزید آگے بڑھا تو یہ جملے سامنے آئے:
اردو: آپ کا نام کیا ہے؟ ترکی: آدِ نیز نے؟ Adınız ne
اردو: میرا نام عبید ہے۔ ترکی: آدِم عبید Adım Obaid
اردو: کیا حال ہیں؟ ترکی: ناسِل سی نیز Nasılsıniz
اردو: میں ٹھیک ہوں۔ ترکی: ای یی یم İyiyim
اردو: ہاں۔ ترکی: ایویت Evet
اردو: نہیں۔ ترکی: ہائر Hayır
اردو: کیا۔ ترکی: نے Ne
اردو: کیوں۔ ترکی: نیدن Neden
اردو: کیسے۔ ترکی: ناسل Nasıl
اردو: کب۔ ترکی: نے زمان Ne zaman
اردو: کہاں۔ ترکی: نیردا Nerede
اردو: کون۔ ترکی: کِم Kim
اردو: کتنا۔ ترکی: کچ Keç
اردو: چاہیے۔ ترکی: اِستیورم İstiyorum
اردو: یہ۔ ترکی: بُو Bu
اردو: وہ۔ ترکی: سُو Su
اردو: ٹھنڈا۔ ترکی: سوغق Suğuk
اردو: گرم۔ ترکی: سجاک Sıcak
اردو: چھوٹا۔ ترکی: کوچُک Küçük
اردو: بڑا۔ ترکی: بویوک Büyük
اردو: ہے۔ ترکی: وَر Ver
اردو: نہیں ہے۔ ترکی: یوق Yok
اردو: خوبصورت۔ ترکی: گُزل Güzel
اردو: بدصورت۔ ترکی: چرکن Çirkin
اردو: سستا۔ ترکی: عجز Ucuz
اردو: مہنگا۔ ترکی: پہالی Pahalı
اردو: رقم۔ ترکی: پارہ Para
اردو: سڑک۔ ترکی: جادہ Cadde
اردو: نقشہ۔ ترکی: خریطہ Harita
اردو: ہوائی جہاز۔ ترکی: اُچاک Uçak
اردو: ایئرپورٹ۔ ترکی: ہوا لانی Havalanı
اردو: کار۔ ترکی: عرابہ Araba
اردو: بس۔ ترکی: آتو بُس Otobüs
اردو: دِن۔ ترکی: گُن Gün
اردو: رات۔ ترکی: گاجہ Gece
اردو: صبح۔ ترکی: آئدن Aydın
اردو: شام۔ ترکی: اکشام Akşam
اردو: آج۔ ترکی: بوُگن Bugün
اردو: کل۔ ترکی: یارِن Yarın
اردو: میں۔ ترکی: بین Ben
اردو: ہم۔ ترکی: بِز Biz
اردو: تم۔ ترکی: سین Sen
اردو: مرد۔ ترکی: ارکک Erkek
اردو: عورت۔ ترکی: کادن Kadın
اردو: لڑکا۔ ترکی: اوغلان Oğlan
اردو: لڑکی۔ ترکی: قز Kız
اردو: بچہ۔ ترکی: چوجک Cücük
اردو: ماں۔ ترکی: انّا Anne
اردو: باپ۔ ترکی: بابا Baba
اردو: بھائی۔ ترکی: قاردیش Kardeş
اردو: بہن۔ ترکی: قِز قردیش Kız Kardeş
اردو: روٹی۔ ترکی: ایکمیک Ekmek
اردو: گوشت۔ ترکی: ایت Et
اردو: مچھلی۔ ترکی: بالِک Balık
اردو: مرغی۔ ترکی: تاوُک Tavuk
اردو: سبزی۔ ترکی: سبزہ Sebze
اردو: پھل۔ ترکی: میوہ Meyve
اردو: میٹھا۔ ترکی: تاتلہ Tatlı
اردو: خدا حافظ۔ ترکی: گُلے گُلے Güle güle
اردو: اللہ حافظ۔ ترکی: اللہ اسما رالدک Allah ısmarladık
ان الفاظ اور جملوں کے علاوہ گنتی، دنوں اور مہینوں کے نام یاد کرنا بھی ضروری تھے۔ وہ بھی یاد کرلیے۔ دنوں کے نام ہیں:
- جمعہ (جمعہ) Cuma،
- ہفتہ (جمارتیسی) Cumartesi،
- اتوار (پازار) Pazar،
- پیر (پازارتیسی) Pazartesi،
- منگل (سالہ) Salı،
- بدھ (چارشنبہ) Çarşamba اور
- جمعرات (پرشنبہ) Perşamba۔
مہینوں کے نام ہیں:
- جنوری (اوجاک) Ocak،
- فروری (شوبات) şubat،
- مارچ (مارد) Mart،
- اپریل (نیساں) Nisan،
- مئی (مائیس) Mayıs،
- جون (حاضران) Haziran،
- جولائی (تموز) Temmuz،
- اگست (اغستوس) Ağustos،
- ستمبر (آئلول) Eylül،
- اکتوبر (ایکِم) Ekim،
- نومبر (قاسم) Kasım اور
- دسمبر (آرالک) Aralık۔
سیاح کے لیے گنتی آنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ترکی گنتی یوں ہے:
- ایک (بِر) Bir،
- دو (اکّی) İki،
- تین (اُچ) Üç،
- چار (دورت) Dört،
- پانچ (بیش) Beş،
- چھ (التہ) Elte،
- سات (یدی) Yedi،
- آٹھ (سیکز) Serkis،
- نو (دوکز) Dokus،
- دس (اون) On،
- بیس (یرمی) Yirmi،
- تیس (اوتوز) Otuz،
- چالیس (کِرک)Kırk،
- پچاس (ایلی)Elli،
- ساٹھ (آلتمش) Altmiş،
- ستر (یاتمش) Yetmiş،
- اسی (سیکسن) Seksen،
- نوے (دوکسن) Doksan،
- سو (یوز)Yüz،
- ہزار (بِن) Bin اور
- دس لاکھ (ملیون) Milyon
یہ سارے الفاظ اور جملے مجھے خاص طور پر اردو رسم الخط میں اس لیے تیار کرنے پڑے کہ ترکی کے جدید رومن رسم الخط کو پڑھنا اور سمجھ کر درست ادائیگی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ کئی رومن حروف ایسے ہیں جن کی آواز ہم انگلش اصول کے مطابق ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں پہنچ کر ان کی آواز بدل جاتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ رومن حرف ’C‘ کا ہے۔ ہم عام طور سے اسے ’ک (کاف) یا س (سین)‘ کی آواز سے ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں یہ ’ج (جیم)‘ کی آواز دیتا ہے جبکہ ترکی کے C کے لیے جیم کی ادائیگی میں چونکہ لوگ اکثر غلطی کرجاتے ہیں اس لیے وہ لفظ بے معنی ہوجاتا ہے۔
مثلاً ترکی کے وزیرِاعظم کا نام رجب طیب اردوان (Recep Tayyip Erdogan) ہے۔ اب اگر ہم یہاں لفظ Recep کو ’رجب‘ کے بجائے ’رسپ‘ پڑھیں تو یہ بے مطلب ہوجائے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال لفظ ’جمہوریت‘ ہے جسے رومن ترکی میں Cumhuriyet لکھا جاتا ہے۔ اب ہم اسے جمہوریت کی بجائے ’کمہوریت‘ پڑھیں تو کیسا رہے گا!
’ج‘ کے علاوہ جدید ترکی زبان میں ’ح‘، ’خ‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں لفظ ’خ‘ کی ادائیگی بھی ’ح‘ جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً ’خان‘ کو وہاں ’حان‘ کہا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈرامہ ’میرا سلطان‘ میں ملکہ کا نام آپ نے ’حُریم سلطان‘ سنا ہوگا، جو دراصل ’خُرم سلطان‘ ہے۔
انگلش جاننے والوں کے لیے رومن ترکی حروف کی ادائیگی میں اکثر مسئلہ ہوتا ہے اس لیے میں نے احتیاطاً یہ سارے ترکی جملے سمجھ کر اردو رسم الخط ہی میں لکھ لیے تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر پڑھ کر بھی درست ادائیگی کرسکوں۔ ترکی میں اگر رومن رسم الخط کی یہ بدعت نہ آتی تو اسے سمجھنا بہت آسان ہوتا، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے۔ کیونکہ ترکی اور اردو میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں، بلکہ ترکی زبان تو اردو کی ماں ہے۔ ’اردو‘ ترکی زبان ہی کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’لشکر‘۔
مغل بادشاہوں کے بین الاقوامی فوجی لشکروں نے باہمی گفت و شنید کے لیے ترکی، فارسی، عربی اور ہندی زبانوں کا ملغوبہ بناکر ایک بولی ایجاد کی تھی جس پر ترکی زبان کا غلبہ تھا۔ یہی بولی آگے چل کر دنیا کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اس میں مزید کئی الفاظ شامل ہوتے رہے اور بالآخر اسے ایک ملک پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ملا۔
گزشتہ 2 عشروں میں ترکی نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں ہے اور اپنی معیشت کو اس قدر مضبوط کرلیا ہے کہ اب وہ ترقی یافتہ یورپی ممالک سے کندھا ملا رہا ہے۔ چنانچہ ہم جیسے ملکوں کے کسی شخص کو ترکی دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے دل میں لازماً یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اُس کا اپنا ملک بھی ایسا ہی ہوتا اور اگلے لمحے وہ یہاں کی شہریت حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہونے کی خواہش بھی کرتا ہے۔ ترکی میں دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہے، چنانچہ آپ اپنے ملک کی شہریت رکھتے ہوئے ترک شہریت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ترکی کے وہ شہری جنہوں نے کسی ایسے ملک کی شہریت اختیار کرلی ہے کہ جہاں دوہری شہریت رکھنا قانوناً منع ہے، جیسے جرمنی یا آسٹریا، تو ان کے لیے ترکی ’بلو کارڈ‘ جاری کرتا ہے، جس کے تحت وہ ترکی میں رہ سکتے ہیں، ملازمت یا کاروبار کرسکتے ہیں اور جائیداد خرید سکتے ہیں، البتہ قومی انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتے اور نہ ہی الیکشن میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔
1982ء کے ترک آئین کے مطابق ہر وہ شخص جس کی ماں یا باپ ترک ہو تو وہ ترکی کا شہری ہے۔ البتہ اگر کوئی بچہ ترکی میں پیدا ہوا ہو، لیکن اس کے ماں باپ میں سے کوئی بھی ترک نہ ہو تو اسے ترک شہریت نہیں ملے گی۔ ایک ایسا غیر ملکی بچہ جسے ترک والدین نے 18 سال سے کم عمر میں اپنی لے پالک اولاد بنالیا ہو، وہ ترک شہری ہے۔ اگر کسی کو ترکی میں رہتے ہوئے بغیر کسی وقفے کے پانچ سال گزرچکے ہوں تو وہ بھی ترک شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ترکی میں ایک مخصوص مالیت یا رقبے کی جائیداد خرید لے تو اسے بھی ترک شہریت مل سکتی ہے مگر ترک شہریت حاصل کرنے کے ان سب طریقوں میں سب سے آسان طریقہ ’شادی‘ ہے۔ اگر آپ کسی ترک خاتون سے (یا آپ خاتون ہیں تو کسی ترک مرد سے) شادی کرلیں اور اس شادی کے 3 سال بخیریت گزر جائیں تو آپ ترک شہریت حاصل کرسکتے ہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ ترکی میں دوسری شادی کرنا قانوناً ممنوع ہے۔
ایک دن میں ایشیائی استنبول کے ’حیدر پاشا‘ ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہا تھا۔ حیدر پاشا کبھی تاریخی ’حجاز ریلوے‘ اور ’بغداد ریلوے‘ کا پہلا اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ بغداد ریلوے کی گاڑی استنبول سے چلتی تھی اور قونیہ، ادانہ اور حلب کے شہروں سے گزرتی ہوئی بغداد جاتی تھی۔ جبکہ حجاز ریلوے کی گاڑیاں استنبول سے چھوٹ کر قونیہ، ادانہ، حلب، دمشق اور عمان سے ہوتی ہوئی مدینہ منورہ تک جاتی تھیں۔
بغداد ریلوے کی گاڑی جرمن شہر برلن سے آتی تھی اور یورپ کے کئی ملکوں سے گزر کر استنبول میں آخری یورپی ریلوے اسٹیشن سرکجی پہنچتی تھی۔ یہاں سے آگے ایشیاء کے پہلے اسٹیشن حیدر پاشا تک جانے کے لیے آبنائے باسفورس کو عبور کرنا ضروری تھا، چنانچہ مسافروں سے بھری یہ پوری کی پوری ٹرین سمندر میں کھڑی ایک فیری میں گھس جاتی تھی۔ یہ فیری اسے سمندر عبور کرواکے یہاں حیدر پاشا اسٹیشن تک لے آتی تھی اور پھر ٹرین کا ایشیائی سفر شروع ہوجاتا تھا۔
حیدر پاشا کی یہ عمارت ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ دونوں کا کام دیتی تھی۔ میں خاصی دیر تک حیدر پاشا کے بلند و پرشکوہ ایوانوں میں بھٹکتا رہا اور پھر سمندر کی طرف کھلنے والے دروازے سے باہر نکل آیا۔ باسفورس کا پانی ہلکورے لیتے ہوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کو تھپیڑے مار رہا تھا۔ میرے سامنے سمندر سے متصل ایک مختصر سی خوبصورت قدیم عمارت کھڑی تھی جس میں 2 رنگارنگ دروازے تھے۔ لوگ فیری میں سوار ہونے کے لیے پہلے دروازے سے داخل ہوتے تھے۔ اس دروازے پر فارسی رسم الخط والی ترکی میں ’برنجی موقع‘ (یعنی پہلا دروازہ) لکھا تھا، جبکہ یورپ سے ایشیاء کی طرف آنے والے مسافر فیری سے اتر کر جس دروازے سے اسٹیشن میں داخل ہوتے تھے اس پر ’اکنجی موقع‘ (یعنی دوسرا دروازہ) تحریرتھا۔ دروازے کے لیے ترکی زبان کا لفظ ’موقع‘ دیکھ کر میں چونک اٹھا۔اس لفظ کو ہم اردو میں بھی تو غیر محسوس طور پر انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ’میں موقع دیکھ کر نکل گیا‘۔ تو کیا وہ یہی نہیں کہنا چاہتا کہ میں ’دروازہ‘ دیکھ کر نکل گیا؟‘
اگر ہم ترکی زبان کے حروف تہجی کو سمجھ لیں اور پھر کوئی بھی ترک لغت اٹھا کر پڑھیں تو ایسے لاتعداد الفاظ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ عین انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کے لیے ہم انہیں اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ بُرا ہو اس رومن رسم الخط کا جو ترکی زبان کو ہمارے لیے یکسر اجنبی بنا دیتا ہے۔
ہم برِصغیر کے باسی چونکہ رومن رسم الخط کے English Environment میں رہتے ہیں اس لیے ترکی کے کئی حروف کی آواز انگریزی کے مطابق نکالتے ہیں، یوں ترکی کا وہ لفظ ہمارے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’HACI‘ آپ اسے ’ہاکی‘ پڑھیں گے، لیکن یہ سیدھا سادہ ’حاجی ہے۔ ’ک اور ’ق‘ دونوں کے لیے ترکی میں ’K‘ استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں Q نہیں ہوتا۔ ’واؤ‘ کے لیے W کے بجائے V استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں W نہیں ہوتا۔ ’ح‘ اور ’خ‘ دونوں کے لیے H استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ع‘ اور ’غ‘ دونوں کے لیے G استعمال ہوتا ہے۔ ’ب‘ کے لیے B اور P دونوں مستعمل ہیں۔ مثلاً ایوب کو Eyup لکھا جاتا ہے۔ ’د‘ کے لیے D اور T دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے مراد کو Murat لکھا جاتا ہے۔ الفاظ کے آخر میں ’ہ‘ (چھوٹی ہے) کے لیے E استعمال کیا جاتی ہے۔ مثلاً سادہ کو Sade لکھتے ہیں۔ ذرا مندرجہ ذیل الفاظ دیکھیے۔ رومن حروف میں یہ کس قدر ناقابلِ فہم ہیں لیکن اردو رسم الخط میں آتے ہی یہ سب الفاظ کیسے مانوس اور اپنے اپنے سے ہوجاتے ہیں:
- Hisap حساب
- Kitap کتاب
- Siyah سیاہ
- Sise شیشہ
- Mesgul مشغول
- Sebep سبب
- Peynir پنیر
- Sehir شہر
- Hava ہوا
- List item
- Zaman زمانہ