لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
چلیے ایک سیدھی سادھی حقیقت سے ابتداء کرتے ہیں، وہ یہ کہ زرِ مبادلہ کی شرح میں کمی ہونا دنیا کا اختتام ہوجانا نہیں ہے، نہ ہی یہ کمی اپنے طور پر کسی آفت کی نشانی ہے۔ تقریباً تمام ممالک میں زرِ مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ ہونا عام بات ہے۔
چند کیسز میں یہ اتار چڑھاؤ مقامی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں (جیسے ادائیگیوں کے توازن میں استحکام)، اور دیگر صورتوں میں عالمی وجوہات بھی شامل ہوسکتی ہیں (جیسے امریکا میں بڑھتے ہوئے شرح سود کی وجہ سے اگر ڈالر کو عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط کردیا جاتا ہو)۔
لہٰذا آج کا بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم گزشتہ جولائی سے اب تک 4 مرتبہ کرنسی کی کمی دیکھ چکے ہیں بلکہ مسئلہ تو یہ ہے کہ مارچ 2014ء سے لے کر، جب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار زرِ مبادلہ کو 98 روپے فی ڈالر تک لانے میں کامیاب ہوگئے تھے، پھر ان کی رخصتی تک یہ فرق آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے 105 روپے تک جا پہنچا، اب تک دراصل ملک کو انتظامی طریقے سے کنٹرول کی جانے والی شرح زر مبادلہ (managed exchange rate regime) کے تحت چلایا جا رہا تھا۔
لیکن ڈار صاحب کی عہدے سے برطرفی کے ساتھ یہ سلیمانی سہارا بھی ختم ہوگیا، کیونکہ اس وقت تک ناگزیر عدم توازن ناقابل انتظام کی حد تک بڑھ چکا تھا۔
اسے سمجھنے کے لیے آئیے دیکھتے ہیں کہ انہی سالوں کے دوران پڑوسی ملک ہندوستان میں کیا ہوا۔ 2013ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت اقتدار میں آئی، تب فی ڈالر کی قیمت 58 ہندوستانی روپے تھی۔ آج فی ڈالر کی قیمت 68 ہندوستانی روپے ہے، جبکہ مئی کے آخر میں فی ڈالر 68 ہندوستانی روپے کی قیمت بلند ترین سطح پر جا پہنچا تھا۔ مگر جون کی ابتداء میں ’ریپو ریٹ کی غیر معمولی پالیسی‘ میں اچانک ہونے والی بلندی نے ہندوستانی روپے کو تھوڑی تقویت بخشی۔
پڑھیے: روپے کی قدر میں کمی سے متعلق حکومتی فیصلہ کتنا ٹھیک؟ کتنا غلط؟
اگر 2014ء سے اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہندوستانی روپے کی قمیت کا فی ڈالر 68 روپے تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی روپے کی قیمت میں 14 فیصد گرواٹ کے مقابلے میں ہندوستانی روپے کی قیمت 17 فیصد گراوٹ کا شکار رہی ہے۔
مثلاًً ہندوستانی روپے کے ماہانہ اوسط شرح زر مبادلہ کے گراف میں 2013ء سے اب تک اتار اور چڑھاؤ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
گزشتہ 6 ماہ میں، آئی این آر (ہندوستانی روپیہ) 3 گرواٹ دیکھنے کو ملی، جسے ہندوستان میں تجزیہ کار دسمبر اور مارچ میں 2 بار شرح سود میں 25 بیسز پوائنٹس کے چڑھاؤ کے باعث ڈالر کے بڑھتے ہوئے استحکام سے منسوب کرتے ہیں۔
2018ء میں مزید بلندیوں کے امکان پر یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، دیگر مرکزی بینک ’شرح سود کی نارملائزیشن‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس طرح 2008ء کے غیر معمولی مالی بحران کے بعد ریکارڈ کم شرح دیکھنے کو ملی تھی۔
یہ ویسے تو آپ کو تھوڑی پیچیدہ سی بات محسوس ہوگی مگر درحقیقت یہ ایک عام سا معاملہ ہے۔ اگر تمام معاملات اسی انداز میں چلنے لگیں جس کی ان سے توقع وابستہ کی گئی تھی تو شرح زرمبادلہ کو منڈی کی طلب اور رسد کے اشاروں کے مطابق بروقت ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔
جو ممالک ہمارے ملک کے بڑے تجارتی ساتھی ہیں اگر ان عالمی کرنسیوں کی باسکٹ میں چڑھاؤ آ رہا ہے تو روپے کی قدر میں کمی کی توقع کرنا ایک نارمل سی بات ہے۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے پاس ایک مسئلہ کھڑا ہوجائے گا، کیونکہ شرح زرِ مبادلہ میں موجود ناہمواری کو درست کرنا پڑے گا اور جب اس نکتے کا وقت آئے گا تب جتنا بڑا فرق ہوگا اتنا ہی معیشت کو جھٹکا پہنچے گا۔
چند لوگوں کو شاید 2013ء کا آخر اور 2014ء کا آغاز یاد ہو، جب ڈار صاحب برآمدکاروں پر غصہ ہوگئے اور مطالبہ کیا کہ جلد ہی اپنی نیٹ اوپن پوزیشن کو بند کردیں اور فوراً (قانون انہیں 90 دنوں تک اپنی پوزیشنز بند کرنے کی اجازت دیتا ہے) سے اپنے ایکسپورٹ پروسیڈز کو واپس لے آئیں ورنہ انہیں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، کیونکہ وہ دھمکی دے چکے تھے کہ روپے کی قدر کو نیچے لانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
پڑھیے: روپے کی قدر میں کمی سے کیا فائدہ اور نقصان ہوتا ہے؟
دسمبر 2013ء میں انہوں نے ٹی وی انٹرویوز میں اعلان کیا کہ پاکستانی روپیہ فی ڈالر 98 روپے تک آ جائے گا۔ اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 105 روپے تھی۔
کچھ ہی عرصے کے بعد، فروری 2014ء کے آخر میں، ایک ’دوست ملک‘ کی جانب سے 2 اقساط میں تقریباً 3 اعشاریہ 1 ارب ڈالر ملکی ذخائر میں آگئے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ ملک سعودی عرب تھا، اور یوں روپے کی قدر فی ڈالر 98 روپے تک پہنچ گئی، جس کا وزیر خزانہ نے وعدہ کیا تھا۔
پھر اسٹیٹ بینک سے وارننگ آئیں۔ مانیٹری پالیسی کے اعلان میں کہا گیا کہ ’ایک ہی بار ہونے والی پیسوں کی آمد اور بیرونی قرضوں سے تھوڑی مدت کے لیے تو استحکام پیدا ہوسکتا ہے مگر دیرینہ استحکام کے لیے پرائیوٹ مالیاتی بہاؤ کے شیئر کو مستقل انداز میں بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘خلاصہ: ’ہم متاثر نہیں ہوئے۔‘
روپے کی قدر دھیرے دھیرے 105 روپے فی ڈالر تک جا پہنچی، مگر یہاں پر گراوٹ کا سلسلہ رک گیا۔ اس سطح پر مدد کے لیے مرکزی بینک نے براہ راست مداخلت یعنی عبوری کمی کو پورا کرنے کے لیے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالرز کو بیچنے کے بجائے سرگوشیوں میں بڑی بینکوں کے سربراہانِ خزانہ کو ’تجویز‘ دی کہ جب بھی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 105.50 یا اس کے آس پاس سے بڑھ جائے تو اس کی خریداری سے اجتناب کریں۔
استحکام کا سراب قائم و دائم رہا مگر ایک بھاری قیمت پر اور اس بھاری قیمت کو اپنے قریب آتا دیکھ رہے ہیں۔ ڈار صاحب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ایک مستحکم اور مضبوط روپیہ ہی سب سے اچھی چیز ہے (اور شاید چند صورتوں میں ایسا ہے بھی) اور اسے ہر قیمت پر برقرار رکھنا ضروری ہے۔
گزشتہ جولائی میں جب اچانک سے روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں ان کے تعمیر کردہ تصوراتی محل میں دراڑ آئی تب انہوں نے ناراض لہجے میں ایک طویل گفتگو کے دوران اپنے سوچے ہوئے ارادوں کا اظہار کیا۔ اس دوران انہوں نے زور دے کر کہا کہ روپے میں 3.1 فیصد کی کمی کا مطلب ہے ’سرکاری قرضے میں 230 ارب روپے کا خسارہ‘۔ ہمیں اب بھی معلوم نہیں کہ آیا ان کی مراد بیرونی قرضے کے لیے اقساط کے واجبات میں اضافے سے تھی یا پھر قرض کے ذخیرے میں اضافے سے تھی۔
شرح زرمبادلہ کو کمزور رسی کی مدد سے قابو میں رکھنا ایک اچھی اقتصادی پالیسی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ جو اتار چڑھاؤ ہوتا ہے ہونے دیں اور خود سے ہی راستہ نکلنے دیں۔ اس طرح آپ معیشت کو بے نظمی کے بھرپور دھچکوں سے بچا سکتے ہیں اور خسارے یا نقصان کے جذبات کو ابھرنے اور ڈالر کی قدر میں بے قابو اضافے کو روک سکتے ہیں۔
اگر ان شرح زر مبادلہ کی حرکت کے رد عمل میں معیشت کے دیگر حصوں کو شرح زرمبادلہ کے اتار چڑھاؤ کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے تو انہیں ایڈجسٹ کرنے دیں۔ جھوٹ کے ساتھ جینے میں کوئی فائدہ نہیں اور اقتصادی انتظام بھی اس بات سے مستثنیٰ نہیں۔
یہ مضمون 14 جون 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔