بدلتا مردان؛ جہاں سائنسی میلے انتہا پسندی کی جگہ لے رہے ہیں
مضافات اور دیہاتوں میں تبدیلی کے بغیر پاکستان بدل نہیں سکتا اور اس کی ایک جھلک میں نے مردان کے طلباء کی آنکھوں میں دیکھی، جو ایک نئے مستقبل کی امید لیے حصولِ تعلیم کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
مردان کے طلباء نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار کسی سائنسی میلے میں شرکت کی ہے اور وہ ایسی بامقصد سرگرمیوں میں حصہ لینے کے متمنی ہیں۔ ان کی آواز ناظمِ شہر نے سن لی اور انہوں نے مردان میں ہر سال سائنسی میلے منعقد کروانے کے لیے 2 کروڑ روپے کے سالانہ فنڈ کا اعلان بھی کردیا۔ یوں اسلام آبادی غیر سرکاری تنظیم نے جو ’تعلیمی جرگہ‘ کروایا اب وہ اہلِ مردان کی زندگی کا مستقل جزو قرار پایا، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
میں نے یہ تمام مناظر اسی شہر میں دیکھے جسے انتہا پسندیوں سے عبارت کیا جاتا تھا، مردان یہ داغ اتنی جلدی دھو ڈالے گا اس کا یقین شاید ہی کسی کو ہو۔
9 اور 10 مئی کو مردان میں ایک سماجی تنظیم نے تعلیمی جرگہ اور ضلعی حکومت مردان سے مل کر ضلع بھر کے 300 سرکاری و نجی اسکولوں کے جھرمٹ میں سائنسی میلہ منعقد کیا، اور یہ اس سائنسی میلے کے سلسلے کا اختتام تھا جس کے تحت سوات، تھر، لاڑکانہ، گوادر اور فیصل آباد میں سائنسی میلے سجائے گئے تھے۔ تنظیم کے رکن نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ ان 6 سائنسی میلوں میں 936 سرکاری و نجی اسکولوں کے 79 ہزار طلباء نے شرکت کی۔