بھارت میں برطانونی سامراج سے سیاسی سطح پر نمٹنے کے لیے 1919 میں دیوبند مکتبہ فکر کے حامل افراد نے جمعیت علماء ہند (جے یو ایچ) کی بنیاد رکھی اور جے یو آئی کی جڑیں اسی نظریے سے ملتی ہے۔
واضح رہے کہ جے یو ایچ نوآبادیات کے خلاف تھی اور متحدہ بھارت کی خواہاں رہی۔ جے یو ایچ بھارتی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے تصور ‘پاکستان’ کی مخالف تھی اور اسی وجہ سے 1945 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کے تنازع پر ایک دھڑا قائم ہوا۔
اس دھڑے کو جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کا نام ملا اور بعدازاں 1988 میں صدر ضیاء الحق کے دور میں افغانستان جنگ کے دوران مجاہدین کی حمایت کے تنازع پر جے یو آئی مزید تقسیم کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق) اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن) کا قیام عمل میں آیا۔
قومی اسمبلی کی 41 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ خیبر پختونخوا میں 29 نشستوں پر کامیابی ملی۔
جے یو آئی (ف) نے بھارت کو ‘زیادہ پسند کی جانے والی قوم’ کہلائے جانے کی حمایت کی اور اس کے حق میں دلائل دیئے کہ اس طرح تاجربرادری کو فائدہ پہنچے گا۔
پارٹی کی پالیسی میں خواتین کے حقوق اورمعاشرے میں ان کے کردار کے حوالے سے متعدد حلقوں میں فساد کا باعث رہا ہے۔
جے یو آئی (ف) نے پارلیمانی کمیٹی کے سیشن برائے گھریلو تشدد کے بل کو پاکستان میں ‘مغربی ثقافت’ پھیلانے کی ایک سازش قرار دیا اور دھمکی دی کہ بل نے قانون کا درجہ اختیار کیا تو ملک گیر احتجاج ہوگا۔
پارٹی نے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کی سخت مخالفت کی لیکن اب کبھی کبھار حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کی ‘پرو امریکی پالیسی’ قرار دیتی ہے۔
2002 کے انتخابات سے قبل پارٹی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ بنی۔ اس حوالے سے الزام لگایا جاتا ہے کہ انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے ایم ایم اے کی بنیاد رکھی تھی۔
ایم ایم اے نے 2003 میں پرویز مشرف کی حمایت میں آکر 17ویں ترمیم منظور کرائی اور یوں صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔
بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے مطالبہ کیا کہ وہ رواں برس 20 مئی سے قبل منصوبہ مکمل کریں ورنہ جے یو آئی (ف) صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرے گی۔