پاکستان پیپلز پارٹی 1967 میں قائم ہوئی جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) تھے، موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
اہم رہنما
- ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)
- بے نظیر بھٹو (مرحوم)
- بلاول بھٹو زرداری (چیئرپرسن)
- آصف علی زرداری (شریک چیئرپرسن)
- رضا ربانی
- سید خورشید شاہ
- شیری رحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 1967 میں جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں وجود میں آئی۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے، جو جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں وزیر خارجہ رہے، پالیسی تنازع پر 1967 میں عہدے سے سبکدوشی کے بعد پارٹی قائم کی۔
پیپلزپارٹی نے جس کا نعرہ ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ ہے، جمہوری سوشلزم نظریے کی تقلید کی۔ پارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کا مقصد مساوی معاشرے کا قیام اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ تھا تاکہ ’کسانوں اور ان کے مفادات کا تحفظ‘ کیا جاسکے۔
پارٹی کے پہلے منشور میں کہا گیا کہ ’اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘
تاہم بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد نجی کاروبار اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جو ان کے والد کی قومیانہ پالیسی کے برعکس تھا، جس کے تحت تمام شعبے حکومت کے زیر اثر آگئے تھے۔
پیپلز پارٹی پہلی بار 1971 میں، دسمبر 1970 کے سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار میں آئی۔
اہم معاملات پر مؤقف
انتخابات 1970
شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی، تاہم دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی تنازعات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باعث پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی پوزیشن سنبھالی تھی، 1973 میں ملک کے وزیر اعظم بنے۔
انتخابات 1977
پیپلز پارٹی نے دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی، تاہم حزب اختلاف نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور حلف لینے سے انکار کیا۔ اس سیاسی تنازع نے ضیا الحق کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔
انتخابات 1988
پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آئی اور بےنظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
انتخابات 1990
کرپشن کے الزامات پر اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی۔
انتخابات 1993
پیپلز پارٹی نے پھر حکومت بنائی جس میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان کی حکومت کو 1996 میں ایک بار پھر ختم کردیا گیا جس کے فوری بعد وہ برطانیہ چلی گئیں۔
انتخابات 2008
بے نظیر بھٹو کے قتل کے چند ماہ بعد عام انتخابات ہوئے، کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث پیدا ہونے والی ہمدردی نے پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم جبکہ آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔
انتخابات 2013
پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی، جبکہ اس نے سندھ میں حکومت بھی بنائی۔
کامیابیاں
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں 1973 میں ’پاکستان کا آئین‘ منظور ہوا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کا آغاز پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں ہوا۔
گروہی تفریق کو کم کرنے اور جاگیرداری نظام ختم کرنے کا اپنا وعدہ نبھانے کے لیے پیپلز پارٹی نے غریب کسانوں میں زمینیں تقسیم کیں،پاکستان اسٹیل ملز قائم کی۔
1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996 کے درمیان اپنے مختصر دور حکومت میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بےنظیر بھٹو نے خواتین کے پولیس اسٹیشنز قائم کیے، خواتین کو کاربار کے لیے قرض فراہم کیا، 1993 میں ویانا اعلامیے میں خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرایا اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز کا تقرر کیا۔
2006 میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہندو خاتون رَتنا بھگوان داس چاؤلہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔
پیپلز پارٹی نے ’این ایف سی‘ ایوارڈ میں بلوچستان کے حصے میں اضافہ کرکے اور گوادر پورٹ پر ترقیاتی کام کا آغاز کرکے صوبے کو قومی دھارے میں لانے کی بھی کوشش کی۔
آئین میں 18ویں ترمیم منظور کرائی، جس سے صوبے بااختیار ہوئے۔
صوبہ ’سرحد‘ کا نام تبدیل کرکے ’خیبر پختونخوا‘ کیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار خاتون اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کا تقرر کیا۔
2018 کے سینیٹ انتخابات کے بعد شیری رحمٰن کو ایوان میں پہلی قائد حزب اختلاف بنایا۔
پہلی بار تھر سے تعلق رکھنے والی ہندو خاتون کرشنا کماری کو 2018 کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ جاری کیا اور وہ سینیٹر منتخب ہوئیں۔
سیاسی نقصان
1978 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے ایک ساتھی کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی، لیکن ان کا ٹرائل تاحال متنازع ہے۔
بےنظیر بھٹو کی دونوں حکومتی ادوار میں ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگے، جس پر پہلے 1990 میں غلام اسحٰق خان نے اور 1996 میں فاروق لغاری نے ان کی حکومت ختم کی۔
2007 میں تقریباً دس سالہ جلاوطنی کے بعد جس دن بےنظیر بھٹو برطانیہ سے واپس پاکستان آئیں، کراچی کے کارساز روڈ پر دو دھماکوں میں تقریباً 150 افراد ہلاک ہوئے۔
اگرچہ کارساز حملے میں بے نظیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن تقریباً دو ماہ بعد ہی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ریلی کے دوران انہیں قتل کردیا گیا، جس کے بعد پارٹی کی قیادت ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو سونپی گئی۔
2008 میں حکومت میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی، لیکن اس کے دور حکومت میں کئی تنازعات سامنے آئے، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونا پڑا۔
پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکا کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔
2011 میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اس وقت مزید خراب ہوئے جب ’سی آئی اے‘ کے سابق ملازم ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو موٹرسائیل سواروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا، ریمنڈ ڈیوس پاکستان سے اس وقت روانہ ہوگیا جب دونوں نوجوانوں کے خاندان نے دیت کی رقم قبول کرنے کا اعلان کیا۔
پاکستان اور امریکا کے دوران تعلقات کو شدید دھچکا اس وقت پہنچا جب امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں ریڈ کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔ پاکستانی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسے اس ریڈ کے بارے میں نہیں بتایا گیا لیکن امریکی انتظامیہ نے اس کے برعکس بیان دیا۔
اسی سال پاکستان نے نیٹو ہیلی کاپٹرز کی جانب سے سلالہ کی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں 28 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی لائن بند کردی۔
دہشت گردی، اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت میں اضافہ ہوا۔
قیادت کی ناکامی
صوبہ سندھ میں گزشتہ 10 سال سے حکومت میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کراچی میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
ضلع تھر میں غذائی قلت سے متعدد نومولود بچوں سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود حکومت اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں یہ کہا کہ تھر میں ہلاکتیں غذائی قلت سے نہیں بلکہ غربت کی وجہ سے ہوئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کے علاوہ پیپلز پارٹی کے تمام حکومتی ادوار میں کرپشن کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے۔