نقطہ نظر

4 ماہ کے لیے بجٹ پیش کرنا ٹھیک ہے یا پورے سال کا؟ ماہرین کی رائے

آئینی اور قانونی طور پر حکومت پورے سال کا بجٹ پیش کرسکتی ہے، لیکن اخلاقی طور پر ایسا کرنا ٹھیک نہیں، ماہرین
|

مسلم لیگ (ن) کی منتخب حکومت سال 19-2018 کا بجٹ کل پیش کرنے جارہی ہے، جو اس حکومت کا آخری بجٹ ہوگا۔ عام طور پر جب بھی بجٹ پیش ہورہا ہوتا ہے تو اُس سے پہلے یہی موضوعات زیرِ بحث ہوتے ہیں کہ کیا آنے والا بجٹ عوام دوست بجٹ ہوگا یا اس بار بھی امیروں اور جاگیرداروں کو سہولت فراہم کرتے ہوئے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جائے گا؟ لیکن اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔

اس مرتبہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ بجٹ پیش ہونے سے محض ایک دن پہلے تک یہ سوال اُٹھائے جارہے ہیں کہ کیا آئینی اور قانونی طور پر 30 دن کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پورے سال کا بجٹ پیش کرے؟ کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے نہیں دیں گی۔

کیا آئین اور قانون حکومت کو ایسی اجازت دیتے بھی ہیں یا نہیں؟ پھر سب سے بڑھ کر اخلاقی طور پر ہونا کیا چاہیے؟ کیا حکومت کو اپوزیشن کی بات مان لینی چاہیے یا پھر ماضی کی روش اپناتے ہوئے تمام تر اختلافات کے باوجود اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔

ایسی صورت میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

خرم حسین


صحافی، ماہرِ معاشیات

حکومت پورے سال کے لیے بجٹ بنانے کا حق رکھتی ہے۔ جو بھی اعتراضات وغیرہ اُٹھائے جا رہے ہیں وہ سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔ دراصل آئینی طور پر حکومت اگلے سال کا بجٹ بنانے کی پابند ہے، جو قومی اسمبلی ہی منظور کرتی ہے۔ آئین میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ اگر حکومت ایسے وقت میں بجٹ پیش کرنے جا رہی ہو جب اس کی مدت میں قلیل عرصہ رہ گیا ہو تو حکومت مختصر عرصے کے لیے ہی بجٹ پیش کرے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی بات شامل نہیں، حزبِ اختلاف کے ارکان دراصل آئین کی شق 85 اور 86 کا سہارا لے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان شقوں کا بجٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق 4 مہینوں کے لیے دی جانے والی گرانٹس سے ہے۔ اگر کسی ایک چیز کے لیے اخراجات کو مختص کرنا ہے تو آپ قومی اسمبلی کے ذریعے شق 85 اور 86 کا استعمال کرسکتے ہیں مگر اس کے ذریعے پورا بجٹ نہیں پیش کیا جاسکتا۔

پڑھیے: وفاقی بجٹ میں خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

لوگ ٹی وی پر آکر یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئین میں کسی نہ کسی طرح سے گنجائش نکال کر 4 ماہ کا بجٹ پیش کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ 4 ماہ کا بجٹ کیونکر ایک سال کے بجٹ سے بہتر ہوگا؟ مگر ہمارے اکثر ٹی وی اینکرز یہ سوال نہیں اٹھا پاتے، کیونکہ انہیں خود بھی اِس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔

دوسری چیز یہ بھی ہے کہ اگلی حکومت بجٹ میں تبدیلیاں کرنے کا اختیار رکھتی ہے، بجٹ میں ہمیشہ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ بجٹ کے 2 حصے ہوتے ہیں ایک وہ حصہ ہے جو آپ مختلف شعبوں کے لیے منظور کرتے ہیں اور دوسرے حصے کا تعلق ریونیو سے ہوتا ہے جس میں ٹیکس لگانے جیسے فیصلے ہوتے ہیں۔ اب اگلی جو بھی حکومت ہوگی اگر وہ کوئی ٹیکس ناجائز سمجھتی ہے تو وہ اسے ختم کرسکتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اگر موجودہ حکومت پورے سال کا بجٹ پیش بھی کرتی ہے تو اگلی حکومت اس میں رد و بدل کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتی ہے، لہٰذا اس وقت جو بھی اعتراضات اور مخالفت کی جا رہی ہے وہ صرف اور صرف سیاست کا حصہ ہے اور کچھ نہیں۔

فرخ سلیم


صحافی، ماہرِ معاشیات

دیکھیے دونوں طرف ہی سیاسی جماعتیں ہیں، حکومتی جماعت کہہ رہی ہے کہ ہمیں ایک سال کا بجٹ پیش کرنا ہے جبکہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی مدت پوری ہونے والی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ دونوں طرف سے سیاسی نعرہ لگایا جا رہا ہے، اور کل جو بھی بجٹ پیش کیا جائے گا وہ بجٹ سے زیادہ اعداد و شمار ہوں گے۔

حکمراں جماعت کا مقصد یہ ہوگا کہ ایسا بجٹ دیا جائے جس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل ہوں، ان کا مقصد بجٹ دینا نہیں بلکہ ایک سیاسی نعرہ ہوگا، دوسری طرف دیگر سیاسی جماعتیں خوف میں مبتلا ہیں کہ انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کی جا رہی ہے اور ایسا بجٹ دیا جا رہا ہے جس سے ان کے ہاتھوں سے ووٹ نکل جائیں گے۔

پڑھیے: نئے مالی سال کا بجٹ دینا موجودہ حکومت کا اختیار نہیں، خورشید شاہ

انہوں نے کہا کہ اخلاقی طور پر بات کی جائے تو بجٹ کا تعلق ترجیحات سے ہے کہ آپ کو کتنے پیسے کس پر مختص کرنے ہیں اور آپ کی آمدن کہاں سے ہوگی؟ اب حکومت کے پاس تو 25 سے 30 دن ہی باقی رہ گئے ہیں ایسے میں آپ پورے سال کی ترجیحات تو نہیں دے سکتے۔ اگر آپ انتخابات میں ہار جائیں اور کوئی دوسری جماعت حکومت سنبھالتی ہے تو اس کی ترجیحات مختلف ہوں گی لہٰذا نئی حکومت کو مکمل طور پر بجٹ تبدیل کرنا پڑے گا۔

مثلاً حکومت کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح یہ بھی ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں 250 یا 300 ارب روپے کی کٹوتی کی جائے، لیکن اگر کوئی دوسری جماعت اقتدار میں آتی ہے تو شاید اس کی ترجیح یہ ہو کہ ترقیاتی بجٹ مزید بڑھانا ہے، لہٰذا یہ اخلاقی طور پر تو ٹھیک نہیں ہے لیکن قانون کہیں بھی موجودہ حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے سے روکتا نہیں ہے۔ بجٹ کے تناظر میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن موجودہ حکومت کے بجٹ کو کہیں انتخابات سے قبل دھاندلی قرار نہ دے دے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی


ماہرِ معاشیات

بجٹ کتنے عرصے کے لیے پیش کیا جائے اس پر میری رائے کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ پاکستان کے آئین کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پورے سال کا بجٹ پیش کرے، یہ ہے قانونی پوزیشن۔ 18ویں ترمیم میں کہا گیا تھا کہ صوبوں کو زیادہ اختیارات دیے جائیں اور ان کا اہم کردار ہے، لہٰذا عملی طور پر بہتر یہ ہوتا ہے کہ مشاورت سے یہ فیصلہ کرلیا جاتا تو بہتر تھا مگر حکومت قانونی طور پر پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتی ہے۔

اب سیاسی جماعتیں یہ بات کر رہی ہیں کہ آیا وفاق کے پاس پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ہے، یہ وہ وفاق کے اختیار کے استعمال کرنے کی بات کررہے ہیں، ہاں اگر وہ یہ کہیں کہ قانونی طور پر وفاق پورے سال کا بجٹ پیش نہیں کرسکتا تو پھر اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ مخالف جماعتوں کے وزراء اعلٰی جو قومی اقتصادی کونسل سے واک آؤٹ کرگئے، اس کی بھی اہمیت نہیں ہے کیونکہ قانونی طور پر یہ کونسل ایک ایڈوائزری باڈی ہے وہ فیصلہ نہیں کرتی بلکہ مشورہ دیتی ہے، جو نہیں مانا گیا۔ اچھی بات تو یہی ہوتی کہ یہ سارے ملکر کوئی مشترکہ فیصلہ کرتے تاکہ یہ مسئلہ ہی پیش نہیں آتا، لہٰذا یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر قانونی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ آئین کی شق 156 (2) دیکھ لیجیے، اس کے تحت وفاق یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کتنے اخراجات کہاں کیے جائیں، صوبوں سے مشورہ تو کیا جائے گا مگر فیصلے کا اختیار وفاق کے پاس ہی ہے۔

پڑھیے: 6 کروڑ غریبوں کے ٹیکس چور سیاستدان

ان سے جب پوچھا گیا کہ آئینی اور قانونی طور پر تو حکومت پورے سال کا بجٹ پیش کرسکتی ہے مگر کیا حکومت اخلاقی جواز بھی رکھتی ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اخلاقی طور پر تو جواز نہیں ہے مگر یہ بتایا جائے کہ ہمارے صوبے چاہتے ہیں کیا ہیں؟ یہ میں قانونی پوزیشن بتا رہا ہوں کہ ایمنسٹی اسکیم آئی تو اس پر عمران خان نے کہا کہ میں آکر ریورس کردوں گا، جس پر میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ آپ ریورس کرنے کی بات چھوڑ دیں، اس میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ وفاق صوبوں سے کہے گا کہ وہ ڈی سی (DC) ریٹ ختم کردے، اگر صوبے دھمکی دینے کے بجائے صرف ایک کام کردیں کہ ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ ریٹ پر لے آئیں تو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پراپرٹی کی حد تک ختم ہوجائے گی۔

اب تحریک انصاف کے منشور میں لکھا ہوا ہے کہ جس پراپرٹی کی قیمت کم بیان کی گئی ہے اسے ہم قومی دھارے میں شامل کردیں گے، میرے مطابق یہ تو ایک بہت بڑی بات ہے، انہیں مشورہ ہے کہ آپ صرف اتنا کردیں کہ ایسی تمام پراپرٹی کو مارکیٹ ویلو پر لے آئیں تو یہ ایمنسٹی اسکیم اسی دن ناکام ہوجائے گی کیونکہ اصل اور کم بیان کی گئی قیمت کے درمیان جو فرق ہے، ایسا کرنے سے وہ ختم ہوجائے گا۔

دراصل چوری کا پیسہ آج کل پراپرٹی میں جارہا ہے اور چاروں صوبے اس میں معاونت کررہے ہیں، اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کے سبب معیشت ترقی نہیں کر رہی۔ لہٰذا میری رائے میں تو یہ بحث نورا کشتی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

مزمل اسلم


ماہرِ معاشیات

مزمل اسلم نے بغیر کوئی وقفہ لیے فوری طور پر جواب دیا کہ ’ہاں‘ حکومت کو اِس حوالے سے مکمل اختیار ہے اور یہ سارے اعتراضات بے معنی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ بجٹ تو ایک سال کا ہی ہوتا ہے، اگر ایک حکومت بجٹ پیش کرتی ہے تو اگلی حکومت اس میں تبدیلی بھی لاسکتی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سیاسی جماعتیں بجٹ کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرر ہی ہیں تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا اور بتایا کہ اگر حزبِ اختلاف جماعتوں کو وفاقی بجٹ پر اعتراض ہے تو وہ پہلے ان صوبوں میں بجٹ کو کیوں نہیں روک رہے جہاں ان کی حکومتیں قائم ہیں، سندھ 5 مئی جبکہ ممکنہ طور پر خیبرپختونخوا 14 مئی کو اپنا بجٹ پیش کرنے جا رہا ہے۔ اگر اپوزیشن میں موجود جماعتوں کو وفاق میں ایک سال کا بجٹ پیش کرنے پر اعتراض ہے تو اِس اعتراض میں وزن اُس وقت پڑے گا جب وہ اپنی صوبائی حکومتوں کے بجٹ کو بھی 4 ماہ تک محدود کرنے کا اعلان کردیں۔

ایاز احمد لغاری
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔