نقطہ نظر

جاگتا اور بھاگتا ضمیر

یہ بات تو طے ہے کہ یہ ’ضمیر‘ کبھی خود نہیں جاگتا، اسے بیدار کرنے کے لیے دھمک، چمک، کھنک اور جھلک کی ضرورت پڑتی ہے۔

جس طرح مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی نظم ’صبح کی آمد‘ سونے والوں سے کہتی ہے ’اُٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں‘ اسی طرح الیکشن کا سویرا آواز لگاتا ہے اُٹھو سونے والو کہ میں آرہا ہوں۔‘

یہ سدا سُنتے ہی سیاست دانوں اور اراکینِ اسمبلی کے خراٹے مارتے ضمیر جاگ اٹھتے ہیں، مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی نظم نیند میں ڈوبے ہوؤں کو یہ ہدایت بھی کرتی ہے کہ بس اب خیر سے اُٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو لیکن الیکشن کا سویرا بڑا جلد باز ہے اور سمجھ دار بھی، وہ جانتا ہے کہ منہ اور ہاتھوں پر اتنی کالک لگی ہے کہ دھونے کے چکر میں پڑگئے تو آنے والی صبح کے فوائد سمیٹنے کا ’ٹَیمُ نکل جائے گا۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ میاں! بس جھٹ سے اُٹھ بیٹھو اور جس حال میں ہو اُسی میں نکل لو۔

یہ پیغام سُنتے ہی گھوڑے بیچ کر سونے والے ضمیر اور خود بِکے ہوئے گھوڑوں کے ضمیر بھی جاگ اُٹھتے ہیں اور ساتھ ہی بھاگ اُٹھتے ہیں۔

ضمیر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بے خبر اور بے سدھ سوتا ہے اور اچانک ہڑبڑا کر اُٹھتا ہے۔ ضمیر کے بارے میں اکثر یہ بے تکا سوال کیا جاتا ہے کہ ’اب کیوں جاگا؟‘ بھئی ضمیر کی مرضی، ضمیر آخر ضمیر ہے کوئی پھاتاں کا بالا تو نہیں جسے بے بے ’اُٹھ بے غیرتا، اسکول نئیں جانا؟‘ کہہ کر دو ہتڑ لگائے اور وہ منہ بناتا جاگ اُٹھے۔

مزید پڑھیے: ’ہم جسے بندہ سمجھتے تھے وہ نظریہ نکلا‘

یہ کوئی ہم آپ جیسا نازک مزاج بھی نہیں کہ بجلی گئی تو ساتھ نیند بھی گئی، بلکہ گالیوں کی آمد کے ساتھ اخلاق بھی رخصت ہوجاتا ہے۔ نیند میں ڈوبے ضمیر کو کوئی تھپڑ، لات، نیستی پھیلانے کا طعنہ، پانی کا چھینٹا یہاں تک کہ دھماکا بھی بیدار نہیں کرسکتا۔

تو سوال یہ ہے کہ یہ ’سوتو‘ کب، کیوں اور کیسے جاگتا ہے؟ یہ بات تو طے ہے کہ یہ کبھی خود نہیں جاگتا، اسے بیدار کرنے کے لیے دھمک، چمک، کھنک اور جھلک کی ضرورت پڑتی ہے۔

دھمک

دھمک جوتوں کی ہوتی ہے، جو ظاہر ہے بھاری ہوتے ہیں، ہلکے جوتے تو بس چلائے جاسکتے ہیں یا ان میں دال بانٹی جاسکتی ہے۔ ضمیر کی سماعت میں یہ دھمک ممتا کی شفیق آواز میں گیت بن کر گونجتی ہے،’اُٹھو بیٹا آنکھیں کھولو، بستر چھوڑو اور منہ دھولو، اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے، وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے‘ یہ پُکار کانوں میں پڑتے ہی ضمیر کی آنکھیں پَٹ سے کُھل جاتی ہے اور وہ وقت کھونے نہیں دیتا، بستر سے چھلانگ لگا کر بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔

چمک

’چمک‘ زر کی ہوتی ہے، یہ جوں ہی پلکوں پر پڑتی ہے ضمیر کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اس کی چکاچوند سے خیرہ ہوجاتی ہے، وہ فوراً نیند کے اندھیرے کو چھوڑ کے اس روشنی کے پیچھے چل پڑتا ہے۔

کھنک

کھنک سکوں کی ہوتی ہے، بس ذرا چَھن چَھن ہوئی نیند یہ گئی وہ گئی اور ضمیر انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔

جھلک

جھلک کامیابی، مناصب اور عہدوں کی ہوتی ہے، جو خواب میں دکھائی جاتی ہے، یہ جھلک دیکھتے ہی نیند ٹوٹ جاتی ہے، جس کے ساتھ ہی ضمیر کے جاگنے کے باعث کبھی کبھی پوری کی پوری جماعت ہی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔

مزید پڑھیے: اب سے ’مائے نس‘ صرف عمران خان!

یہ اس کے ناقدین کو لگتا ہے کہ ضمیر دیر سے جاگا ہے مگر یہ ٹھیک وقت پر جاگتا اور ٹرین پکڑ کر منزل کی راہ لیتا اور منزل پا لیتا ہے۔ غالب نے کہا تھا، ’موت کا ایک دن معین ہے‘ ٹھیک اسی طرح ضمیر کے جاگنے کا بھی ایک دن معین ہوتا ہے، خود بے چارے ضمیر کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ دن کون سا ہے، بس وہ اتنا جانتا ہے کہ ایک دن جاگنا ہے اور ٹھیک وقت پر جاگ اٹھتا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضمیر جتنا نیند کا پَکّا ہے اُتنا ہی ارادے کا بھی پَکا ہے، بلکہ وعدے کا بھی پکا ہے، کہ بعض دفعہ یہ وعدہ کرکے سوتا ہے کہ ’بھیے! چراند کرکے نیند خراب مت کریو، یہ وعدہ کر ریا ہوں کہ وقت آنے پر تو جیسے ہی جگائے گا تیرا بھائی پھٹ دھنی سے جاگ جائے گا۔‘

یہ اپنا وعدہ پوری طرح نبھاتا ہے، یہاں تک کہ جگانے کے جن عوامل کا ہم نے ذکر کیا، ان کی آمد ہوتے ہی سویا ہوا تو کیا مُردہ ضمیر بھی اُٹھ بیٹھتا ہے، اور پھر یہ گڑا مُردہ قبر سے اُکھڑ اور کفن پھاڑ کر پریس کانفرنس میں اپنے جی اُٹھنے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔

ہم سوچتے ہیں کہ بھئی یہ ضمیر اتنے طویل عرصے اور اتنی گہری نیند سو کیسے جاتا ہے؟ بہت سوچ کر ہم نے ضمیر کا جو خاکہ بنایا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ ضمیر کو عشق، محبت، وفا جیسا کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا اس لیے شب فراق اور نیند غائب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ فارغ ہوتا ہے، کوئی کام کاج نہیں کرتا، اس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس اﷲ کا دیا اور بندوں سے لیا اتنا مال ہوتا ہے کہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، چنانچہ اسے صبح دفتر جانا ہوتا ہے، نہ دکان کھولنی ہوتی ہے۔ اس لیے جاگ کر کرے گا کیا؟ تو پڑا سوتا اور اینڈھتا رہتا ہے۔

مزید پڑھیے: فاروق ستار کی کامران مجبوری

اور جیسے ہی جاگتا ہے کوئی نیک اور اعلیٰ مقصد پرچے پر لکھا اس کے سرہانے رکھا ہوتا ہے، ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے،’اب اٹھ جا پپو! یہ کام کرلے، پھر سوجانا، جاگتا مَت رہیو پگلے، ہمارے لیے تیرا جاگنا جتنا ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ تیرا سونا ہمارے لیے ضروری ہے۔‘

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔