نقصان دہ کونوکارپس کو اکھاڑنا فائدے مند کیوں نہیں؟
کراچی کے جھاڑی نما درخت کونوکارپس کاٹ دیے جائیں یا نہیں؟ اب یہ بحث ماہرین سے نکل کر عام لوگوں تک پھیل چکی ہے۔ ہر شخص اپنے نکتہءِ نظر کے حق میں صحیح یا غلط دلائل ضرور رکھتا ہے۔
کراچی میں شجرکاری اب ایک گرما گرم بحث کا موضوع بن چکی ہے اور کونوکارپس کے درخت اس بحث کا بنیادی نکتہ ہیں۔ کچھ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ نئی شجرکاری سے پہلے شہر بھر میں موجود تمام کونوکارپس کے درخت کاٹ دیے جائیں تو کچھ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی کو نیم کے پودوں سے بھر دیا جائے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوہانجنا کے درخت کراچی کے لیے بہترین ہیں کیونکہ ان کی طبی طور پر بھی بہت اہمیت ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
آخر کراچی میں کون سے درخت لگائے جائیں اور کونوکارپس کا کیا کیا جائے؟ اس حوالے سے ہم نے کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل اسٹڈیز سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال شمس صاحب سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی بہت بڑا شہر ہے اور بہت سے جغرافیائی زون میں منقسم ہے، کسی ایک پودے کو پورے شہر کے لیے تجویز نہیں کرسکتے۔
جن علاقوں میں پانی نہیں ہے وہاں ایسے پودے لگائے جائیں جو خشک سالی کو برداشت کرسکیں۔ ایسی جگہوں پر چھوٹے پتوں والے پودے بہتر رہتے ہیں کیونکہ انہیں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ سمندری علاقے ڈیفنس اور کلفٹن جہاں نمک زیادہ ہے وہاں نمک برداشت کرنے والے پودے لگانے ہوں گے۔ جہاں پانی موجود ہے وہاں ساحلوں پر ناریل لگایا جاسکتا ہے کیونکہ ناریل کو زیادہ پانی چاہیے، ایسی جگہوں پر ناریل کے ساتھ ساتھ چیکو بھی لگ سکتے ہیں۔
بہت سے درخت کراچی میں لگ سکتے ہیں جن میں سوہانجنا، املتاس، گل مہر، برنا، شیشم، لسوڑہ، گوندنی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ کراچی میں اس وقت 70 سے 75 کے قریب درختوں کی انواع موجود ہیں اور پورے شہر میں درختوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار ہے۔ اسے اگر بہت زیادہ بھی کرلیا جائے تو یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں
شجرکاری سے پہلے 2 باتیں مدِنظر رکھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہیں۔ ایک تو مقامی انواع لگانی چاہیے اور دوسرا کسی ایک نوع کو پورے شہر میں لگانا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اگر کسی ایک درخت کو کوئی بیماری لگ گئی تو پورے شہر کے درختوں کو بیماری لگنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔