اے میرے ابرِِ محبت
تمہاری قربت میرے لیے اس بارش کی طرح ہے جس کے بعد مٹی مہک اُٹھتی ہے۔
ہمارے آس پاس محبت کی بے شمار کہانیاں رقص کر رہی ہیں، اُن کہانیوں میں مجھے 2 کہانیاں بے حد پسند ہیں، ایک میری اور تمہاری اور دوسرا مٹی اور بارش کی۔
تم نے کبھی دیکھا، بارش کے بعد مٹی میں سے کیسی خوشبو نکلتی ہے، یہ کتنی ریشمی، کتنی گداز ہوجاتی ہے۔ اس میں زندگی پھر سے جنم لینے لگتی ہے۔ یہ خوشی کے نغمے گاتی ہے، اپنے بطن سے بے شمار دلکش، رنگین، خوشبودار پھول پیدا کرتی ہے۔ آنے جانے والوں کو، سانس لینے والوں کو یہ روح تک کی تازگی اور خوشگوار احساس دیتی ہے۔ یہ تتلیوں کو ہوا کے دوش پر بلاتی ہے، ان کا رقص دیکھتی ہے۔ یہ پھولوں کے رس سے مدھو مکھیوں کی دعوت کرتی ہے۔ یہ بہار کا پیام دیتی ہے۔
تمہاری قربت جانِ من، میرے لیے اسی بارش کی طرح ہے۔
میں مٹی ہوں جس پر جب تم برستی ہو تو وہ کِھل اُٹھتی ہے۔ مہک اٹھتی ہے۔ ریشمی، گداز اور مرمریں ہوجاتی ہے۔ یہ میرے بطن سے محبت کی نظمیں کشیدتی ہے، تعریف کی غزل بُنواتی ہے، محبت کے گیت لکھواتی ہے اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کو محبت کی میٹھی راگنیاں سناتی ہے، یہ انہیں اپنے حسن کے قصیدے سے مبہوت کرتی ہے۔ یہ ان کی روح کو جلاء بخشتی ہے۔
میرا وجود تیز دھوپ میں بھی تمہارے انتظار اور تمہاری امید میں رہتا ہے، مجھ پر زمانے کی گرمی نے آج تک کوئی اثر نہیں چھوڑا کہ مجھے یقین ہے تمہارے وجود کی چند بوندیں میرے تمام غم دور کردیں گی۔ میں اپنا آپ، اپنا وجود تمہارے لیے سجا رکھتا ہوں، یہ تمہاری امانت ہے، تم وہ گھر ہو جہاں مسافر جہاں گردی کے بعد لوٹے تو دہلیز اس کے قدموں کا بوسہ لے کر اس کی آدھی تھکن پی جاتی ہے۔ میں اپنی پیاس کو صرف تم سے بجھاتا ہوں۔ کسی ہنرمند کے ہاتھ آؤں تو وہ مجھے گوندھ کر شہ پارے بنا دیتا ہے، لوگ کہتے ہیں یہ اس کے ہاتھ کا کمال ہے، نہیں میری جان، یہ تمہاری قربت کا، تمہاری محبت کا کمال ہے۔ میں تم سے مل کر اس گیلی مٹی کی طرح ہوجاتا ہوں جو اپنے اندر بے شمار فن پارے لیے ہوتی ہے اور اسے صرف کسی صاحبِ نظر ہنرمند کے ہاتھ لگنے کی دیر ہوتی ہے اور وہ اپنا آپ آشکار کردیتا ہے۔
مگر اے میرے ابرِ محبت! محبت ڈر کی سیڑھی سے کبھی نیچے نہیں اترتی اور مجھے یہ ڈر کھائے جاتا ہے کہ اگر تم نے مجھ پر یوں برسنا چھوڑ دیا تو میرا کیا بنے گا؟ میں پتھر بن جاؤں گا، اے میرے ابرِ محبت۔ جس میں زندگی کی رمک تک نہ ہوگی۔ میں پاؤں کی دھول بننے کے بھی قابل نہ رہوں گا۔ ایک بے جان، بے کار پتھر، جو نہ کسی دل میں سما سکتا ہوگا اور نہ کسی عمارت میں مل سکے گا۔
میرا وجود کسی عمارت کو طاقت دینے کے قابل نہیں رہے گا اور میں زمانے کی کڑی دھوپ میں، کسی کونے میں پڑا اس وقت کا انتظار کروں گا جب میں کسی بے دل کی وحشت زدگی میں مسل دیا جاؤں۔ میرا وجود دوبارہ خاک ہوجائے گا، مگر ہاں، میرے ذرے ذرے میں تب بھی شاید تمہاری بخشی خوشبو ہوگی مگر اس قدر بھینی، اس قدر کم کہ اسے کسی کی حسِ شامہ تک پہنچنے میں بھی شرمندگی ہوگی۔ میں مسلا جاؤں گا تو خاک ہوجاؤں گا۔ میرے وجود کا ذرہ ذرہ اس زمین کا حصہ بن جائے گا جہاں پر تم نہیں برستی۔ بھلا وہ زمین کیسی ہوگی، جہاں تم نہیں برستی؟
یہ ہوا مجھے لیے اُڑے گی اور مجھے ایسے لگے گا جیسے یہ میرا تماشا بنا رہی ہو، یہ در بدر مجھے لے جائے گی اور مجھ پر طنز کسے گی، یہ وہ تھا جس کے بطن سے محبت کی نظمیں کشید ہوتی تھیں، یہ وہ تھا جس کے افسانوں میں محبت راج کرتی تھی، یہ وہ تھا جس کی غزلوں نے اس کے محبوب کو جاویداں کردیا تھا اور اب دیکھو اسے۔ اس کی حقیقت۔ اس کا وجود اور میں صرف اپنے ناتواں دل پر اپنی دم توڑتی سانسوں کی گرمی میں تمہارا عکس کاڑھ کر اس زمین میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہوجاؤں گا۔ اس زمیں پر جہاں تم نہیں برستی۔ میں مٹ جاؤں گا۔ مرجاؤں گا۔ ختم ہوجاؤں گا۔
خزیمہ سلیمان میڈیا سائنسز کے طالب علم ہیں اور 11 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم آغا جی کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔ انہیں سیلف ہیلپ اور زندگی سے متعلق موضوعات پر لکھنا پسند ہے.
انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔