نقطہ نظر

سینیٹ انتخابات سے جمہوریت کو لگنے والے 5 دھچکے!

ریاست نے ہمیشہ بلوچستان سے بڑے ناموں کو شامل کیا جنہیں صوبے کے مسائل حل کرنے سے زیادہ مرکز کے مفادات کیلئے استعمال کیا
لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

سینٹ انتخابات سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ٹھیک ہونے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔ بلوچستان کے رکن کو سینیٹ چیئرمین منتخب کرنا اس وقت ہی ایک جمہوری سنگِ میل ثابت ہوتا اگر اس عمل کو شفاف طریقے سے انجام دیا گیا ہوتا۔ مگر جوں ہی گزشتہ پیر کا سورج غروب ہوا ویسے ہی پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے کی گئی کوششوں کو کم از کم 5 دھچکے لگے ہیں۔

پہلا دھچکہ

سینیٹ جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے، لیکن اب یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ شروع ہونے والے واقعات کا سلسلہ سینیٹ کو اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں ڈالنے کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔

ملک کو ایسے ممکنہ سینیٹ چیئرمین سے محروم رکھا گیا کہ جسے حکومت اور حزب اختلاف دونوں نشستوں پر بیٹھے ارکان کا اعتماد حاصل ہوتا۔ اس روایت کا ہر جمہوری ملک خیر مقدم کرتا۔ آصف زرداری نے رضا ربانی کو ایک طرف کردینے کی جو وجوہات گنوائیں، ان میں سے کوئی بھی قائل نہ کرسکی۔ اس حوالے سے شیخ رشید پہلے ہی اشارے دے چکے تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ رضا ربانی کا دوبارہ بطور سینیٹ چیئرمین انتخاب اہم اداروں کے درمیان تصادم کا باعث بنے گا۔ انہوں نے جو اشارہ دیا دراصل وہ ان کی یا کسی دوسرے کی یہ خواہش تھی کہ ریاست کے تمام اداروں پر صرف ایک مخصوص ادارے کی اجارہ داری قائم رہے۔

ہوسکتا ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر جو سوچا جا رہا ہے اس کے برعکس نتائج برآمد ہوں اور ممکن ہے کہ سینیٹ ممبران جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کا چیلنج قبول کرلیں، لیکن موجودہ وقت کی بات کریں تو لگتا ہے کہ سینیٹ کو اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں بے اثر بنا دیا گیا ہے۔

پڑھیے: 'سینیٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے تو کھل کر بات کرنی چاہیے'

دوسرا دھچکہ

زرداری نے پیپلزپارٹی کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ سینیٹ چیئرمین کے عہدے کے لیے اپنے ہی پارٹی امیدوار کو ملنے والے موقع کو ٹھکرانے پر انہیں کس بات نے مائل کیا اسے سمجھنا کافی آسان ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں انہوں نے ہمیشہ کے لیے خود کو خطرات سے محفوظ کرلیا ہے تو ان کا یہ خیال جلد ہی خام خیالی ثابت ہوسکتا ہے۔ آخری جے آئی ٹی ابھی بننی باقی ہے۔ شاید ان کے لیے یہی اچھا وقت ہے کہ جب وہ پاسِ ادب کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کی یاد تازہ رکھتے ہوئے، پارٹی کی لگام صاف ہاتھوں کے ساتھ اپنے بچوں اور پارٹی کارکنان کے حوالے کردیں۔ ہوسکتا ہے کہ یوں وہ اس پارٹی کو چند برسوں میں ایک تاریخ بننے سے بچالیں۔

پیپلزپارٹی کا زوال ایک قومی لمحہ فکریہ ہے اور اس کی آسانی سے نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ سیاسی منظرنامے پر دائیں اور انتہائی دائیں بازو کا غلبہ ہے۔ پیپلزپارٹی کا بطور برائے نام ہی سہی لیکن درمیانے بائیں بازو کی پارٹی کا منظرِعام سے غائب ہونا ریاست کو مزید دباؤ کا شکار کرسکتا ہے۔ اس طرح ریاست میں مذہبی انتہاپسندی جیسے چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت محدود ہوجائے گی اور ساتھ ہی ساتھ اقوام عالم، بالخصوص ایران، انڈیا، امریکا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے لیے ایک قومی پالیسی ترتیب کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہوجائے گی۔

تیسرا دھچکہ

تیسرا یہ کہ، مسلم لیگ (ن) میں ایک بار پھر اپنی موجودہ حالت کے تناظر میں حکمت عملی کی کمی نظر آئی۔ نئے سینیٹرز کے انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی یہ واضح ہوجانا چاہیے تھا کہ ایوانِ بالا میں چیئرمین شپ کے لیے کھڑے کیے گئے لیگی نمائندے کی فتح کا کوئی امکان نہیں، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے پارٹی ممبر کو چیئرمین کی نشست مل جانے سے سینیٹ انتخابات کے لیے جوڑ توڑ کی جو کوششیں ہوئی تھیں، وہ رائیگاں ہوجاتیں۔

قربانی کے لیے راجہ ظفر الحق کا چناؤ شاید اچھا خیال نہیں تھا۔ وہ دن چلے گئے جب وہ اپنی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین ثابت ہوسکتے تھے۔ آصف زرداری اور عمران خان کے مشترکہ امیدوار کو شکست دینے کے لیے زیادہ قابلِ فہم یہ تھا کہ لیگی امیدوار بھی بلوچستان سے ہوتا۔ انتخابی عمل سے دستبرداری اور بھی بہتر آپشن تھا۔ انتخابی عمل کے بعد میر حاصل بزنجو نے جو تقریر کی دراصل وہ بائیکاٹ کی ہی تشریح ثابت ہوتی۔ مسلم لیگ (ن) کی حقیقی سیاسی کام سے لاتعلقی جمہوریت کے امکانات کو مدھم کردے گی۔

مزید پڑھیے: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟

چوتھا دھچکہ

سینیٹ انتخابات کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو یہ سمجھانے کا موقع تھا کہ ملکی حالات، بالخصوص جمہوری نظریے کو فروغ دینے کے لیے سینیٹ اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، لیکن اس اہم موقع کو تمام متعلقہ جماعتوں نے نظر انداز کردیا جیسے آپس میں ہی ایک معاہدہ کر رکھا ہو کہ لوگوں کو سینیٹ کے جمہوری کردار کی اہمیت کا پتہ نہ لگنے دیا جائے۔

تمام اہم شخصیات بس ان گھوڑوں کو گننے میں مصروف رہیں جنہیں ہارس ٹریڈرز کے منصوبوں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت تھی۔ سینیٹ کے لیے براہِ راست انتخابات کروانے کی تجویز کے فائدے اور نقصان کے حوالے سے کوئی بحث نہیں ہوئی، اور نہ ہی ریاست کے مالی معاملات میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے سینیٹ کے کردار کو بہتر کرنے پر کوئی بحث ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہی نہیں تھا کہ سینیٹ کے حوالے سے لوگوں میں کوئی بات ہو کہ کس طرح یہ ایوان وفاقی نظام کو مستحکم بنانے میں کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے کس طرح کردار ادا کرنا چاہیے۔

پانچواں دھچکہ

پانچواں اور آخری دھچکہ یہ کہ صادق سنجرانی کے سینیٹ چیئرمین منتخب ہونے سے بلوچستان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تاریخ رہی ہے کہ ریاست نے اقتدار کے ڈھانچے میں بلوچستان سے صرف نامور شخصیات کو ہی شامل کیا ہے، پھر چاہے بات ہو جام غلام قادر اور نواب اکبر بگٹی کی یا پھر حالیہ دور کے وفاقی وزراء اور وزرائے اعلیٰ کی، اور حقیقت یہ ہے کہ ان شخصیات کو ہمیشہ مرکز کے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ سنجرانی کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ممکنہ طور پر بلوچستان وفاقی ایجنسیوں کے پہلے سے بھی زیادہ کنٹرول میں ہوگا۔

پڑھیے: اداریہ ڈان، ملک کو ایک بہتر سینیٹ کی ضرورت ہے

بلوچستان کی کسی بھی حکومت کو گورننس کے اہم حصوں پر اپنا آئینی اختیار استعمال ہی کرنے نہیں دیا گیا مثلاً قوم پرست عناصر کے ساتھ معاملات کا حل یا پھر جبری گمشدیوں کا خاتمہ یا پھر صوبے کو اپنے وسائل خود سنبھالنے کا حق۔ اگر یہ صورتحال نہیں بدلی تو ہوسکتا ہے کہ بلوچستان بحران کی اس نہج پر پہنچ جائے جہاں اس کا حل پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ترین بن جائے گا۔

آمرانہ نظام کے سائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور اب شاید ضروری ہے کہ آنے والے عام انتخابات کے موقع پر عوام میں بحالی جمہوریت کے لیے ایک اور تحریک پیدا کیا جائے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 مارچ 2018 کو شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔