نقطہ نظر

تہذیبی تصادم ایک مفروضہ-2

درحقیقت تہذیبی تصادم ملٹی نیشنلزکا اسپانسرڈ پروگرام ہے، جو بہت باریک بینی اور برسوں کی سوچ بچار کے بعد تشکیل دیا گیا۔

اس مضمون کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے کلک کریں۔


ایک انتہائی گھسا پٹا لطیفہ ہے، لیکن اس مضمون کے اختتام پر ہمیں امید ہے کہ آپ کو بھی اس کا یہاں بیان کرنا موزوں معلوم ہوگا۔

ایک چوہییا نے ہتھنی سے کہا کہ ”اپنے شوہر سے کہنا کہ ہوش میں رہے، ورنہ ہمارے گھر میں بھی مرد ہیں۔“

ہمارے ہاں مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کو دن رات للکارنے والوں کی طرز فکر اور ذہنی سطح اس چوہییا کی مانند ہی محسوس ہوتی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ اپنی للکار، پکار، کوسنوں اور بددعاؤں یا پھر خودکش حملوں سے ان عالمی طاقتوں کو زیر کرلیں گے۔ ہمیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ انہی عالمی طاقتوں کے منصوبوں کی تکمیل کا باعث بنتے چلے آئے ہیں اور آئندہ بھی یہ صورتحال قائم رہنے کی امید ہے۔

آپ خود مستقبل کی منصوبہ بندی اور غور و فکر کے حوالے سے مذکورہ صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے گلوبلائزیشن، آزاد تجارت اور خصوصاً تہذیبی تصادم پر غور کیجیے، درحقیقت یہ ایسے Illusions ہیں، جن کو پھیلانے سے قبل ان کی منصوبہ بندی پر برسوں کام ہوا ہے۔ خوب جان لیجیے کہ ان تینوں عنوانات کی رات دن ڈفلی بجا کر سرمایہ پرست اپنے کون کون سے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں!

سرمایہ پرستوں کا تشخص انفرادی صورتوں کے بجائے اب اجتماعی طرز میں سامنے آیا ہے، اس اجتماعی طرز کو ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ناموں سے پہچانتے ہیں، ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بس خدائی کا دعویٰ نہیں کیا لیکن ان کے اثاثے اور ان کی ہوس، خدائی کے دعویداروں نمرود، فرعون اور شدّاد کو بھی شرمائے دے رہی ہے۔

بالفرض یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہیں تو یہ دنیا صرف تیس منٹ میں تباہ ہوجائے۔

اگر پانچ سو ملٹی نیشنل کمپنیز میں سے چند کمپنیاں اتحاد کرلیں تو وہ دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل پر قابض ہوسکتی ہیں، مثلاً پوری دنیا کے برقی نظام کو تین کمپنیاں مل کر خرید سکتی ہیں۔   دنیا بھر میں ڈاک کے نظام کی مالیت 113 ارب ڈالر ہے۔ پانی صاف کرنے کا نظام 58 ارب ڈالر، ریلوے کا نظام 109 ارب ڈالر، دنیا کی زیر کاشت زمین 178 ارب ڈالر، پوری دنیا کی صحت اور صفائی کا نظام 211 ارب ڈالر، اور دنیا کی تمام بڑی شاہراہیں 186 ارب ڈالر میں خریدی جاسکتی ہیں اور دنیا کے یہ سارے اثاثے پانچ سو کمپنیوں کی فہرست میں شامل پہلی 20 کمپنیاں خرید سکتی ہیں، اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اگر یہ کمپنیاں چاہیں گی تو بلب روشن ہوں گے،ڈاک کی ترسیل ہوگی، ٹرین اپنا سفر طے کرے گی، زمین پر گندم کاشت ہوگی اور سڑک پر پہیہ چلے گا اور جب یہ کمپنیاں چاہیں گی تو مریض کا علاج ہوگا۔ گویا کہ پوری دنیا ان  کمپنیز کے مالکان یا حصہ دار افراد کے اشارۂ ابرو کی محتاج ہوجائے گی۔

ان کثیر القومی اداروں کی وجہ سے سرمایہ کا ارتکاز مسلسل بڑھتا جارہا ہے، اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔ صرف ایک بین الاقوامی دوا ساز ادارہ اگر چاہے تو دنیا کے ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت مہیا ہوسکتی ہے۔ صرف دو ملٹی نیشنلز اگر چاہیں تو باہم مل کر دنیا کی کل آبادی کو پوری زندگی کے لیے ہسپتال کے ایک کمرہ کی سہولت فراہم کرسکتی ہیں۔ اگر تین کمپنیاں یہ ارادہ کریں کہ دنیا کی چھ ارب آبادی کے لیے  درمیانے درجے کے ہسپتال قائم کیے جائیں تو وہ اپنے ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں۔ اوپری درجے کی دو ملٹی نیشنل کمپنیز ایسی ہیں کہ اگر چاہیں تو دنیا کے ہر مریض کو بارہ بارہ گھنٹے کے لیے دو ڈاکٹر اور چار نرسیں فراہم کرسکتی ہیں، اور یاد رہے کہ ایسا کرنے کے باوجود ان کمپنیز کے سرمایے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

بالفرض اگر پانچ بین الاقوامی دوا ساز ادارے جان بچانے والی دواؤں پر سے اپنا کنٹرول ختم کردیں تو مہلک امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں 90فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔ تمام دواساز کمپنیاں ہر سال اپنی پروڈکٹ کی پروموشن کے لیے اشتہارات، سیمینارز اور ورکشاپس پر جس قدر سرمایہ خرچ کرتی ہیں، اگر یہ رقم بچا کر اسے حقیقی معنوں میں بامقصد طور پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے تین مہلک امراض کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ صرف سرجری کے آلات فروخت کرنے والی کمپنیاں چاہیں تو چار سال تک دنیا کے تمام مریضوں کے مفت آپریشن کرسکتی ہیں۔ طاقت کی دوائیں بنانے والی کمپنیاں دس سال کے عرصے تک دنیا کے تمام شیر خوار بچوں کے لیے دودھ فراہم کرسکتی ہیں۔ صرف دو کمپنیاں چاہیں تو دنیا سے ٹی بی، کینسر اور ایڈز کو جڑوں سے اُکھاڑ سکتی ہیں، اگر زرعی اجناس کے بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ بنانے والی صرف دو کمپنیاں چاہیں تو دنیا بھر کے انسانوں کو دس سال تک مفت گندم فراہم کرسکتی ہیں اور دنیا کی آدھی بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بناسکتی ہیں۔ بجلی بنانے والی آٹھ کمپنیاں ساتوں براعظم میں چار سال تک مفت بجلی فراہم کرسکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین سسٹم چلانے والی 5کمپنیاں تین سال تک اربوں انسانوں کو ٹرین کا مفت سفر کرواسکتی ہیں۔ دس بڑی ایئر لائنز چاہیں تو اربوں افراد کو پانچ سال تک فضائی سفر مفت کروا سکتی ہیں۔ ڈاک کی ترسیل کرنے والی کمپنیاں اب تک اس قدر خطیر سرمایہ جمع کرچکی ہیں کہ وہ اگلے پچاس برسوں تک مفت سروس فراہم کریں تو بھی خسارے میں نہیں رہیں گی۔

صرف ایک بین الاقوامی موبائل کمپنی کے عہدیداروں کے زیراستعمال گاڑیاں فروخت کرنے سے جو رقم حاصل ہوگی، اُس سے روانڈا، برونڈی اور ایتھوپیا کا قحط دُور ہوسکتا ہے۔ دنیا کی دس بڑی کمپنیاں اپنے دفتروں میں سالانہ جتنی اسٹیشنری استعمال کرتی ہیں اس کی مالیت دنیا کے پندرہ غریب ملکوں کے تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ جاپان میں ہر سال 35 ارب ڈالر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مہمانوں کی خاطر تواضع پر خرچ کیے جاتے ہیں، یہ دنیا کی صحت کے کل بجٹ کی ایک چوتھائی رقم ہے۔ شراب بنانے والی محض چار کمپنیاں اپنے منافع سے دنیا کے تمام نشئی افراد کا علاج کرسکتی ہیں۔ صرف ایک ملٹی نیشنل کمپنی چاہے تو دنیا بھر کی بارودی سرنگیں صاف کی جاسکتی ہیں۔ صرف ایک کمپنی پوری دنیا کے معذوروں کو مصنوعی اعضاء بنا کر دے سکتی ہے۔ ایک کمپنی اگر اپنا ایک سال کا منافع دنیا بھر میں تقسیم کردے تو ہر شخص کو ایک کار مفت فراہم ہوسکے گی!

اس طرز کی معلومات کا سمجھیے کہ ایک دفتر موجود ہے، جس میں سے ہم نے آپ کے سامنے صرف ایک جھلک ہی پیش کی ہے!

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملٹی نیشنل کمپنیز ایسا کریں گی؟

کیا وہ دنیا سے غربت، بھوک، افلاس اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوں گی؟

اور دنیا کیا واقعی جنت کا ایک نمونہ بن جائے گی؟

جی نہیں!

ایسا ہرگز نہیں ہوگا!

اس لیے کہ سرمایہ پرستوں کی طرزِ فکر تو یہ ہے کہ غریبوں کے ہاتھ سے لقمہ بھی چھین لیا جائے!

دنیا کو عالمی گاؤں کے طور پر متعارف کرانا اور WTO کے قوانین کا نفاذ کا مقصد یہی ہے کہ وسائل پر عالمی سطح کے سرمایہ داروں کی مکمل اجارہ داری قائم ہوجائے، مزید یہ کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے تہذیبی تصادم کا شوشہ بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔ درحقیقت تہذیبی تصادم ملٹی نیشنلزکا اسپانسرڈ پروگرام ہے، جو بہت باریک بینی کے ساتھ اور برسوں کی سوچ بچار کے بعد تشکیل دیا گیا۔

پہلے اس پروگرام کے کرداروں کو سووئیت یونین کے انہدام میں استعمال کیا گیا تھا، پھر انہی کرداروں کو دہشت گردی کی علامت اور بدی کا محور Exis of Evil قرار دے کر پوری دنیا کو اُن سے خوفزدہ کیا گیا، اب ایک مرتبہ پھر ان کرداروں کے تخلیق کار ان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر معانقہ کررہے ہیں۔

 پس پردہ مقاصد یہ محسوس ہورہے ہیں کہ قربانی کے ان بکروں کو اب شام میں قربان کیا جائے گا اور اس جہاد کا اجروثواب اس مرتبہ بھی عالمی طاقتوں کے حصہ میں ہی جائے گا۔

لیکن ہمارے بہت سے نابغے پھر بھی مغرب کو اسی طرح للکارتے رہیں گے، جس طرح اس چوہییا نے ہتھنی کو دھمکی دی تھی۔


جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔