ٹرمپ کا پاکستان پر وار، دوست بھی نا بنے غم خوار
37 رکنی بین الحکومتی فورم، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس 18 سے 23 فروری تک پیرس میں جاری رہا جس کے اختتام پر یہ خبریں گردش کرنی شروع ہوگئیں کہ پاکستان کو دہشتگردوں کی مالی مدد روکنے میں ناکام ہونے والے ملکوں کی واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس واچ لسٹ کو ’گرے لسٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ واچ لسٹ میں ڈالے جانے کی خبروں پر پاکستانی حکام کا ردِعمل ویسا ہی مبہم رہا جیسی ہماری خارجہ پالیسی ہے۔
واچ لسٹ میں ڈالے جانے کی خبر کو سب سے پہلے بھارتی میڈیا نے نشر کیا جو پورا ہفتہ اس اجلاس کے اعلامیہ کا ایسے منتظر تھا جیسے سفارتی محاذ پر بھارت نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہو اور بس اعلان باقی ہو۔ جوں ہی اجلاس اختتام کو پہنچا تو بھارتی میڈیا نے اعلامیے کے اجراء سے پہلے ہی بریکنگ نیوز چلا کر شادیانے بجانا شروع کردیے۔
بھارتیوں کے اس عمل پر پاکستانی میڈیا بھی تردید اور وضاحت کی تلاش میں لگ گیا۔ پاکستانی حکمران جو پہلے ہی اندرونی مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں اور قومی امور پر یکسوئی کے بجائے اپنی سیاست بچانے کے لیے فکرمند ہیں، لہٰذا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس سے آنے والی خبروں پر واضح مؤقف اپنانے کے بجائے ’باضابطہ اطلاع نہیں ملی‘ کی آڑ لینے لگے۔
پیرس اجلاس کے اختتام پر پریس ریلیز میں پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کا کہیں ذکر نہیں آیا، لیکن برطانوی خبر ایجنسی نے پاکستانی حکام کے حوالے سے خبر دی کہ پاکستان کا نام واچ لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے، اس طرح ابہام مزید گہرا ہوا۔ اس ابہام کو مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے یوں دور کیا کہ پاکستان تو پہلے سے ہی گرے لسٹ میں موجود ہے، اب پاکستان کو مزید 3 ماہ کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے مالی ذرائع کے خاتمے کے لیے موثر اور مستقل اقدامات دکھائے ورنہ جون میں اسے بلیک لسٹ میں شامل کردیا جائے گا۔
پیرس اجلاس کے اختتام سے 2 دن پہلے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے دورہ ماسکو کے دوران نصف شب کے قریب ٹویٹر کے ذریعے اسی اجلاس کی ابتدائی ووٹنگ پر ہی کامیابی کے شادیانے بجانا شروع کر دیئے تھے۔ پیرس اجلاس میں 20 فروری کو ہونے والی ابتدائی ووٹنگ میں چین، ترکی، سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل نے پاکستان کی حمایت کی اور ابتدائی ووٹنگ میں محسوس ہوا کہ شاید بلا ٹل گئی۔
غیر ملکی میڈیا کی خبروں کے مطابق حتمی ووٹنگ کے موقعے پر پاکستان کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب آئرن برادر چین نے امریکا کی پیش کردہ اس قرارداد پر جمع کرایا گیا اعتراض واپس لے لیا، جبکہ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل نے بھی پاکستان کے خلاف ووٹ دے دیا اور اکیلا ترکی پاکستان کے حق میں کھڑا رہا۔
پاکستان کے خلاف قرارداد پر بھارتی شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہیں، حالانکہ اس قرارداد کا محرک امریکا اور برطانیہ تھے جنہیں فرانس اور جرمنی کی حمایت حاصل تھی، بھارت کا اسے اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرنا مودی کی اُسی جعلی مردانگی جیسا ہے جب وہ منموہن حکومت کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران 56 انچ کے سینے کے طعنے دیا کرتے تھے۔
پڑھیے: امریکا پاکستان کو دہشتگردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرانے کےلیے متحرک
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں امریکی قرارداد پاکستانی حکمرانوں اور دفتر خارجہ کے لیے اچانک افتاد نہیں کہ جس سے نمٹنے کے لیے وقت کی کمی یا لاعلمی کا بہانہ گھڑا جاسکے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ سے پاکستان نے آخری بار 2015ء میں چُھٹکارا پایا تھا لیکن 2015ء کے ایف اے ٹی ایف کے اعلامیے میں ہی واضح کردیا گیا تھا کہ پاکستان کو آئندہ اس واچ لسٹ سے بچنے کے لیے منی لانڈرنگ قوانین میں بہتری اور دہشتگرد گروہوں کے فنڈز روکنے کے لیے سخت مالیاتی نظام بنانا ہوگا۔
اس سب سے بھی اہم بات یہ کہ پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 پر نہ صرف عمل کرنا ہوگا بلکہ اس عمل درآمد کے حوالے سے ٹاسک فورس کو مطمئن بھی کرنا ہوگا۔ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد حقانی نیٹ ورک اور طالبان سمیت دیگر دہشتگرد گروہوں سے متعلق ہے۔
2015ء میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور امریکی صدر اوباما کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ بھی غیر معمولی تھا جس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے اقدامات کا ذکر کیا گیا تھا۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اس عرصے میں خود اندرونِ ملک ایک ان دیکھی لڑائی میں مصروف تھے اور انہیں خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہونے والی کسی پیشرفت پر توجہ کا وقت نہ ملا، بلکہ حقیقت تو شاید یہ ہے کہ خارجہ محاذ نواز شریف کی ترجیحات میں پیچھے رہ گیا تھا۔
2015ء کی یہ 2 وارننگز نظر انداز ہوئیں یا کی گئیں، یہ الگ بحث ہے، لیکن اس سال کے آغاز پر امریکی صدر کی ٹوئیٹ میں پاکستان کے بارے میں دھمکی آمیز پیغام کے بعد ہی واضح تھا کہ محض فوجی امداد کی بندش پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا۔ لیکن معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے بجائے ہمارے فیصلہ ساز اس موقعے پر بھی جذباتی ردِعمل دینے کے ساتھ قربانیوں کا ذکر کرتے رہے۔ اگر قربانیوں سے بلا ٹلنی ہوتی تو یہ نوبت ہی کیوں آتی؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی عمل درآمد کمیٹی کے دورہ اسلام آباد اور سخت وارننگ کے بعد چند کالعدم جماعتوں کے خلاف عُجلت میں اقدامات کیے گئے۔ جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے زیرِ انتظام خیراتی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا لیکن عمل درآمد کے لیے ناکافی وقت کی وجہ سے ادھورے اقدامات نے الٹا شکوک پیدا کیے اور کہا گیا کہ یہ دکھاوے کے اقدامات ہیں۔
پڑھیے: پانچ ہزار کے نوٹ اور دہشت گردی
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی حتمی ووٹنگ میں سعودی عرب، چین اور خلیج تعاون کونسل کے پکے ووٹ بھی مخالفت میں جانے کی وجہ یہی ادھورے اقدامات بنے۔ پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالے جانے سے روکنے کے لیے صرف 3 ووٹوں کی ضرورت تھی کیونکہ واچ لسٹ میں رکھے جانے کا فیصلہ اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
پاکستان نے سعودی عرب کا ووٹ پکا کرنے کے لیے فوجی دستے عجلت میں سعودی عرب روانہ کیے، جس پر پارلیمان میں بہت شور بھی مچا، مگر وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع وضاحت پیش کرنے سے کتراتے رہے۔ لیکن افسوس یہ کہ سعودی عرب میں فوجی دستے بڑھانا بھی کام نہ آیا، اور سعودی عرب کی اپنی مجبوری آڑے آئی، کیونکہ سعودی عرب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی رکنیت چاہتا ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے یہ 2010ء ناکافی اقدامات کی وجہ سے ناکام ہوچکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چند ماہ پہلے سعودی شہزادوں پر ہونے والا کریک ڈاون بھی اسی مقصد کے حصول کی ایک کوشش تھی اور پاکستان کی خاطر سعودی عرب اس رکنیت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا۔ خلیج تعاون کونسل بھی سعودی عرب کے کہنے پر چلتی ہے ، جو ایف اے ٹی ایف کی رکن ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ پر ہر 3 سال بعد ہی نظرثانی ہوتی ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ (ایف اے ٹی ایف) کی واچ لسٹ میں نام ڈالے جانے کی وجہ سے پاکستان پر بظاہر کوئی تبدیلیاں عائد نہیں ہوں گی لیکن اس کے اثرات پاکستان کے لیے معاشی اور سفارتی دونوں محاذوں پر یکساں ہوں گے۔
پاکستان کو کن کن محاذوں پر نقصان کا خطرہ ہے آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بین الاقوامی لین دین
اس لسٹ میں شامل ہونے کے بعد سب سے پہلے اثرات بین الاقوامی لین دین اور بینکنگ کے شعبہءِ جات پر پڑتے ہیں۔ پاکستان سے لین دین کے تمام چینلز کڑی نگرانی کی زد میں آجائیں گے، جس سے پاکستان میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہوگی کیونکہ سرمایہ کار ایسی نگرانی سے دور بھاگتے ہیں۔
بینکنگ سیکٹر
بینکنگ سیکٹر بھی شدید متاثر ہوگا، اس سے پہلے پاکستان کے ایک بینک کو منی لانڈرنگ کے الزامات پر نیویارک میں نہ صرف بھاری جرمانہ دینا پڑا بلکہ وہاں سے کاروبار بھی سمیٹنا پڑا۔ پاکستان کے بینکاری شعبے کو ایک اور دھچکا غیر ملکی بینکوں کی طرف سے بھی لگ سکتا ہے۔ پاکستان میں 3 بڑے غیر ملکی بینک کام کر رہے ہیں، کڑی نگرانی سے کاروبار میں کمی اور مشکلات میں اضافے کا خدشہ ہے، ایسی صورت میں یہ بینک آپریشنز محدود یا ختم کرسکتے ہیں۔
پڑھیے: اب پاکستان کو ٹرمپ کے امریکا سے ’خلع‘ لے لینی چاہیے
قرض کی ادائیگی کے لیے قرض نہ ملنے کا مسئلہ
پاکستان کو 300 ارب ڈالر لیے گئے قرض پر چڑھنے والا سود اس سال جون میں ادا کرنا ہے، لیکن پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت کم ترین سطح پر ہیں، ایسی صورت میں سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض درکار ہوگا اور یہی موقع ہوگا جب امریکا پاکستان پر ایک اور وار کرے۔
واچ لسٹ میں ڈالے جانے سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کو پہلے ہی ایک پیغام جا چکا ہے۔ لہٰذا جب پاکستان عالمی مالیاتی مارکیٹ میں فنڈز اور قرضوں کی تلاش میں نکلے گا تو امریکی مہربان رکاوٹیں کھڑی کریں گے اور قرض کے لیے شرائط مزید سخت ہوں گی۔
اگر قرضوں اور سود کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو کریڈٹ ریٹنگ گر جائے گی، ایس اینڈ پی، موڈیز اور فیچ کی طرف سے ریٹنگ گرنے پر نئے قرضوں کا مارک اپ رسک کی بنیاد پر مزید بڑھے گا۔
سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر مالیاتی منتظمین نے 2016ء میں آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے پر دوبارہ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کے دعوے کیے لیکن حقیقی معاشی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو شاید نئے انتخابات کے فوری بعد ہی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے.
ایسی صورت میں امریکا آئی ایم ایف پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک میں بھی امریکا کا اثر بھرپور ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کی اہمیت ہوگی کہ آیا امریکا کُھل کر اثر انداز ہوتا ہے یا تکنیکی بنیادوں پر پاکستان کو دباؤ میں لایا جاتا ہے۔
اگر عالمی مالیاتی مارکیٹ سے پاکستان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تو اسے روپے کی قدر میں نمایاں کمی لانی پڑے گی، بجلی، تیل سمیت کئی شعبوں میں سبسڈی ختم کرنی پڑے گی، جس سے عام آدمی شدید متاثر ہوگا اور حکومت کے لیے یہ اقدامات تباہ کن سیاسی نتائج سے بھرپور ہوں گے۔
سفارتی سطح پر نقصانات کا خدشہ
عالمی مالیاتی منڈی میں تنہائی کے اثرات سفارتی معاملات پر بھی پڑیں گے۔ اس سال جولائی میں نیپال میں ایشیاء پیسفک گروپ کا اجلاس ہونے والا ہے جس میں پاکستان کی شمولیت کو بھی زیرِ غور لانا تھا، لیکن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اقدام کے بعد اس پر بھی شکوک کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔
پڑھیے: پاکستان پر دباؤ بڑھانےکیلئے ٹرمپ کو دہری حکمت عملی کی تجویز
امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال دسمبر میں ازبک صدر شوکت مرزایوف اور اس سال جنوری میں قازق صدر نور سلطان نذر بایوف کی وائٹ ہاؤس میں میزبانی بھی کی، یہ ملاقاتیں امریکا کی طرف سے افغانستان کے لیے متبادل سپلائی روٹس کی تلاش کا واضح اشارہ ہیں۔ متبادل روٹ ملنے پر پاکستان کو حاصل نان نیٹو اتحادی کا درجہ بھی ختم ہوسکتا ہے، اگرچہ کہا جاتا ہے کہ نان نیٹو اتحادی کا درجہ سوائے ایک میڈل کے کچھ نہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ سفارتی رعایتیں ضرور وابستہ ہیں، جو پاکستان کھو سکتا ہے۔
پاکستان کو امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے، صرف قربانیوں کا تذکرہ اور بغیر فیس امریکی اور نیٹو سپلائی روٹ کا ’احسان‘ جتانا کافی نہیں ہوگا، غلطیاں سدھارنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کا اعتماد بحال کرنے اور ساکھ بہتر بنانے کے لیے سفارتی میدان میں سرگرمی بھی دکھانی ہوگی۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔