نقطہ نظر

قتل کے مقدمات میں ریاست کو خود مدعی بننا چاہیے

قتل کے مجرم کو اگر دباؤ کے تحت معاف کر دیا جائے تو حملہ آور دوبارہ قتل کرنے کے لیے آزاد ہوجاتے ہیں۔

پدرسری سوچ ہمارے انتہائی قدامت پرست معاشرے پر حاکم ایک ایسا نظام ہے جو مردوں کو اجازت دیتا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی یا صنفی عدم توازن کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کو خاموش کر دیں۔

مردانہ حاکمیت کو جب بھی چیلنج کیا جائے یا اس میں دراڑیں پڑنے لگیں تو اسے طاقت، تشدد، یہاں تک کہ خواتین کے قتل کے ذریعے بھی واپس حاصل کیا جاتا ہے۔ چند دن قبل مردان سے تعلق رکھنے والی ایک 25 سالہ گلوکارہ سنبل خان کو تین افراد نے ان کے اپنے گھر میں اس وقت قتل کر دیا، جب انہوں نے ایک نجی محفل میں فن کا مظاہرہ کرنے سے انکار کیا۔

ملزمان میں ایک سابق پولیس افسر بھی شامل ہیں جنہیں اب گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جہاں ریاست کو ان کے قاتلوں کے لیے سخت سزا کو یقینی بنانا چاہیے، وہاں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ قتل جیسے گھناؤنے جرم کو تنگ دست گھرانے پیسوں کے عوض 'معاف' نہ کر دیں۔ اس طرح کے معاملات میں ریاست کو خود مدعی بننا چاہیے تاکہ قاتل کو معافی کے بجائے سزا مل سکے۔

جب قتل کے مقدمات میں اس طرح کے پریشان کن تصفیے ہونے لگیں، تو حملہ آور دوبارہ قتل کرنے کے لیے آزاد ہوجاتے ہیں۔ سنبل کا قتل بھی ایک توجہ طلب نکتہ ہے۔ ملزمان میں سے ایک کو 2012 میں اس کی اہلیہ کے قتل کا مجرم پایا گیا تھا۔ جہانگیر خان نامی یہ ملزم پشتو گلوکارہ غزالہ جاوید کا شوہر تھا، اور اس نے اپنی اہلیہ کو چھے گولیاں صرف اس لیے ماریں، کیوں کہ غزالہ نے جہانگیر کی دوسری شادی کا معلوم ہونے پر طلاق کے لیے درخواست دائر کر دی تھی۔

اپنے شوہر کی کثیر الازدواجی کے فیصلے کو مسترد کرنا ان کا حق تھا، مگر پھر بھی غزالہ کے اس اقدام کو اس قدامت پرست معاشرے میں بغاوت کے طور پر دیکھا گیا جہاں خاتون کا اپنے شوہر کو طلاق دینے کا مطلب شوہر کی بدنامی ہے۔

غزالہ اور ان کے والد کے قتل کا جرم عدالت میں ثابت ہونے کے باوجود خاندان نے اسے معاف کر دیا۔ جب قدامت پرست ذہنیت کی وجہ سے شوہروں کی جانب سے بیویوں کے قتل کی شرح میں کمی نہیں آ رہی، تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی تحفظ کو اتنا مضبوط کرے کہ کوئی بھی عورت قتل جیسے غیر انسانی سلوک کا شکار نہ ہو۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 6 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ