جھنگ کی زرخیزی کو وقت کے علاوہ بھی کوئی کلر چاٹ رہا ہے۔ جس مٹی سے صوفی سرشار ہوئے ، وہاں قبروں کے کتبے اکھاڑنے کی نوبت کیونکر آئی؟
یہ شہر جیسا تھا ویسا کیوں نہیں رہا اور جیسا ہے ویسا کیوں ہے، اس سوال کے جواب میں اور بھی بہت سے جواب پوشیدہ ہیں۔ جھنگ کی کہانی حقیقت میں وہ کہانی ہے جس میں مسافروں کے مارے جانے سے سیاحوں کی گردن کاٹنے تک کے سب اسباب مضمر ہیں۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا اس وقت شروع ہوا جب ظلمت کا راج اپنے آپ کو اسلام کی ضیاء ثابت کرنے پہ بضد تھا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ سب امریکہ کا کیا دھرا ہے۔
کچھ اسے یہودیوں کی سازش کہتے ہیں اور کچھ سارا حساب ہندوستان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ سچ کا سفر مشکل بھی ہے اور تکلیف دہ بھی۔
تعصب کی عینک اتار کہ دیکھا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی مذہب کے نام پہ دکان سجانے والوں کو کھلی چھٹی مل گئی۔ وہ لوگ جو اس ملک کے وجود کے خلاف تھے ، ملک بنتے ہی اس قدر طاقت ور ہو گئے کہ جب چاہتے قرارداد مقاصد کی بحث چھیڑ دیتے اور جسے چاہتے، اسمبلی میں بلا کر خارج از اسلام قرار دے دیتے۔
ہیر سیال اور سلطان باہو کی شناخت سے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے تعارف تک جھنگ پہ بھی ایک قیامت گزری ہے ۔
کچھ وقائع نگار ، یہاں آباد اہل تشیع کا سلسلہ اس وقت سے جوڑتے ہیں جب عمرو بن حفص جھنگ کے حکمران ہوئے اور کچھ روائیتیں اسے ملتان میں قائم ہونے والی اسماعیلی حکومت کا عمل دخل کہتی ہیں۔ مگر یہ بات مصدقا کہی جاتی ہے کہ جب محمود غزنوی نے یہاں کے مقامی حکمرانوں کو شکست دی تو شاہی مورخ نے اسے اسلام کی فتح قرار دیا۔
انگریز دور میں نہریں کھدیں اور آباد کاری کی غرض سے زمینیں بانٹی گئیں تو جھنگ میں مسلک کی ترتیب یہ ٹھہری کہ زمیندار زیادہ تر اہل تشیع تھے اور مزارعہ جات زیادہ تر اہل تسنن ۔ اب اسے بریلوی مکتبہء فکر کی وسعت قلبی کہئے یا معاشیات کے داؤ پیچ، شہر میں تعزیوں کے تمام اجازت نامے آج بھی انہی سنیوں کے پاس ہیں۔
پاکستان بنا تو ہندوستان سے لٹے پٹے مہاجرین، جھنگ بھی پہنچے۔ روہتک ، حصار، گڑگاؤں اور پانی پت سے آئے ان لوگوں کی بڑی تعداد دیو بند مکتبہ ء فکر کی تھی۔
نئی زندگی کے آسرے پہ آنے والے سامان تو چھوڑ آئے تھے مگر نئے ملک کے خواب اور پرانے عقیدے کی اصلاح ساتھ لانا نہیں بھولے تھے۔
الاٹمنٹوں اور کلیموں کا چکر چلتے ہی ملک کا آدرش تو کہیں دور بہہ گیا، عقیدے کا آنکڑا البتہ مضبوط تھا سو اس نے تارکین وطن کو باندھے رکھا۔ چونکہ ہر ہجرت کرنے والا اپنی غریب الوطنی کا تریاق اپنے عقیدے میں ڈھونڈھتا ہے، سو دیار غیر میں گھر آباد ہو نہ ہو ، عبادت گاہیں ضرور آباد ہو جاتی ہیں۔
ٍ دس بارہ برس گزرے تو تبدیلی رنگ دکھانے لگی۔ جھنگ میں آنے والے دیوبند ی پہلے سے آباد بریلویوں کی رواداری کو تشکیک کی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں گاہے بہ گاہے عقیدے کے راسخ ہونے کی تنبیہ کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ جھنگ میں سب سے پہلا مناظرہ دیو بندی اور بریلوی مسلک کے علما کے درمیان ہوا۔ پچاس کی دہائی کے اولین سالوں میں جھنگ میں پہلی بار ایک دیوبندی عالم نے بر سر منبر، زمینداروں کو جاگیردار اور شیعہ ہونے پہ برا بھلا کہا۔
ایک ترکش سے تیر چلا تو دوسری کب خاموش رہتی سو 1957 کے اکتوبر میں ایک نواحی گاؤں ، حسو بلیل میں مقامی زمیندار نے بھی جھنگ کی تاریخ میں پہلی بار ایک صحابی کی بے حرمتی کی۔
ان واقعات کے رد عمل کے طور پہ مجلس تحفظ ناموس صحابہ نامی ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ چند سال تو امن سے گزرے مگر پھر 1964 میں پہلی بار فرقہ کی قربان گاہ پہ انسان کا خون بہا۔
شور کوٹ کے اس مقتول کا تعلق سنی مسلک سے تھا مگر سنی ہونے سے پہلے وہ ایک انسان اور مسلمان تھا ۔ تین سال کے وقفے کے بعد دوبارہ روڈو سلطان میں ایک اور سنی مولوی کو قتل کر دیا گیا جو انسان بھی تھا اور مسلمان بھی۔
بظاہر یہ سب محرم کی آمد کے ساتھ شروع ہوتا اور محرم کے رخصت ہوتے ہی ختم ہو جاتا مگر کچھ تھا جو بدلتا جا رہا تھا۔ شہر کی مجلسی زندگی آہستہ آہستہ تلخیوں کی نذر ہوتی جا رہی تھی۔ ندی نالوں کی طغیانی بڑھی تو دریا میں سیلاب آ ہی گیا۔ جھنگ کے لوگ اسے باب عمر کے واقعہ سے یاد کرتے ہیں ۔
شہر میں داخل ہونے والا ایک دروازہ کھیوا گیٹ کہلاتا تھا جو صاحباں کے باپ سے منسوب تھا ۔ شہر کی روائت تھی کہ ہر سال محرم کی سات کو اس دروازے سے ماتمی جلوس گزرا کرتا۔
اول اول اس دروازے کا نام بدلا گیا اور پھر مصلحت کا تقاضا یہ ٹھہرا کہ جلوس راستے میں واقع مساجد کے سامنے پہنچ کر نوحہ خوانی سے گریز کرے گا ، بس روائت کے طور پہ خاموش ماتم کیا جائے گا۔
مارچ 1969 کا محرم آیا تو انتظامیہ نے فسادات کے پیش نظر اطراف سے ضمانت لی کہ کوئی مشتعل بیان نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی ایسی کوئی حرکت ہو گی۔ مگر چھ محرم کی شام کو جلوس کے راستے پہ واقع ایک مسجد پہ چند اشتعال انگیز کلمات آویزاں نظر آئے۔
انتظامیہ نے بیچ بچاؤ کروایا تو تصفیہ کی یہ صورت نکلی کہ متنازعہ تحریر پہ اس وقت تک کپڑا پڑا رہے گا جب تک جلوس گزر نہیں جائے گا۔ مگر جب جلوس اس راستے سے گزرا تو کسی نے وہ کپڑا ہٹا دیا اور عبارت واضح کر دی۔ جلوس کے شرکا ء میں سے ایک نے آلودہ کپڑا اٹھایا اور اس عبارت پہ پھینک دیا۔
کہتے ہیں کہ اگر اس دن یحییٰ خان کا مارشل لاء نہ لگتا تو مرنے والوں کی تعداد چھ سے کہیں زیادہ ہوتی۔
مگر اس وقت تک یہ سب کچھ صرف مذہبی فرقہ واریت نہیں تھی۔ عبارت واضح کرنے والا محمد ارشد اور آلائش پھینکنے والا اشرف بلوچ دونوں ہی ایک مقامی سیاسی رہنما کے ملازم تھے جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھا۔
برسوں بعد اس سیال رہنما کے پوتے نے بتایا کہ اس کے دادا سن 1969 کے الیکشن میں کرنل عابد حسین سے اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ برادری کی سیاست کے علاوہ اس میں مقامی سرمایہ دار بھی شامل رہے جو مذہب کی خدمت اپنے مسلک کو چندہ دے کر کرتے رہے۔
انتخابات ہوئے تو جھنگ کی روائتی سیاست کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ باب عمر کے فسادات میں مارے جانے والوں کی بیوائیں ، جب سیاہ لباس پہن کر جھنگ کی گلیوں میں آئیں تو جھنگ کے سبھی باسیوں نے سنیوں کے حق میں ووٹ ڈالا۔
ان تمام باتوں کے باوجود 1974 سے پہلے پہلے شیعہ سنی اختلاف پس منظر میں ہی رہا، کیونکہ اس وقت تک دونوں اطراف کے مسلمان ، احمدیوں کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔
مگر جونہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ، شعلہ بیان خطیبوں کی تمام توپوں کا رخ اہل تشیع کی طرف ہو گیا۔ مذہب کے ان محافظوں کے پاس جو فہرست تھی اس میں قادیانیوں کے بعد اسلام کو اگلا خطرہ شیعوں سے تھا۔
(جاری ہے)