یک نا شُد تین شُد مگر ختم شُد؟
2013ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں آئے روز دھرنوں کا انعقاد معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں اتنے دھرنے دیے گئے کہ دھرنے دینے والے اپنی اہمیت ہی کھو چکے ہیں۔ اپوزیشن کے حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستانیوں کے لیے ایک اور دھرنے کی خبر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان مخالف بیان کی خبر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب مطالبات تسلیم کروائے بغیر دھرنا ختم ہی کرنا ہوتا ہے تو اپوزیشن ہر ناکام دھرنے کے بعد ایک اور ناکام دھرنا دیتی ہی کیوں ہے؟
سربراہ پاکستان عوامی تحریک علامہ طاہر القادری کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ وہ ماضی میں اپنے ہر دھرنے میں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ ’استعفی‘ لیے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے، مگر ہر بار وہ خالی ہاتھ ہی واپس لوٹ جاتے ہیں، اور گزشتہ روز مال روڈ پر دیے جانے والے دھرنے سے پہلے بھی اُن کا دعویٰ یہی تھا کہ وہ استعفٰی مانگے نہیں بلکہ لیں گے، اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ کل دھرنے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے پھر یہ بیان داغ دیا کہ دنیا کی کوئی طاقت اِس حکومت کو جانے سے نہیں روک سکتی۔
لیکن ہوا کیا؟
استعفی لینے آنے والے شیخ رشید نے خود قومی اسمبلی سے استعفی دے دیا اور عمران خان نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے استعفوں کا عندیہ دیا۔
یعنی کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔
لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے تازہ دھرنے کے شہنشاہِ دھرنا ڈاکٹر طاہر القادری تھے، جن کی دھرنا دینے کے لیے خدمات انتہائی آسان شرائط پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔
تاہم علامہ صاحب کا ساتھ دو ایسی جماعتیں دے رہی تھیں جو نواز لیگ حکومت کی مشترکہ دشمن ہونے کے باوجود بھی اکٹھا بیٹھنے کے روّادار نہیں ہیں، لیکن چونکہ معاملہ حکومت مخالف احتجاج کا تھا، لہٰذا آصف زرداری اور عمران خان ناچاہتے ہوئے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے قائم کردہ اسٹیج پر اکٹھا تو ہوئے لیکن ایک دوسرے کو نا محرم سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے دو بدو تک نا ہوئے۔
وڈیو دیکھے: 'میں جب چاہوں جاتی امرا والوں کو نکال سکتا ہوں' زرداری
دراصل پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف، نواز حکومت کو ڈھیر کرنے کے لیے انواع اقسام کے الزامات آزما کر تھک چکی ہیں، مگر اب تک کامیابی اِن کے ہاتھ نہیں لگی، تو لہٰذا اِن خالی ہاتھ سیاسی رہنماؤں کے پاس حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے اور کوئی بہانہ بچا ہی نہیں۔
ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر قادری صاحب کے لیے ماڈل ٹاون میں مارے جانے والے معصوم افراد کا بدلہ لینا اتنا ہی ضروری ہوتا تو وہ 2014ء میں دیے جانے والے آزادی مارچ سے نہ اُٹھتے، جبکہ وہ واضح طور پر اعلان کرچکے تھے کہ انہوں نے کفن تیار کرلیا ہے، اب یا تو وہ یہ خود پہنیں گے یا پھر نواز شریف کا اقتدار پہنے گا، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور معاملہ ختم ہوگیا۔
اِس دوران سیر سپاٹے کی غرض سے کئی مرتبہ اُن کا باہر آنا جانا بھی لگا رہا۔ اِس لیے میں یہی سمجھتا ہوں کہ اب کی بار طاہر القادری کی امامت میں دیے جانے والے دھرنے کا مقصد سانحہ ماڈل ٹاون کا انصاف لینے سے زیادہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن روکنا ہے، کیونکہ اگر یہ الیکشن اِسی حکومت میں ہوگئے تو (ن) لیگ کو سینیٹ میں بھی اکثریت مل جائے گی، جو مخالفین کے لیے شاید کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
چلیے اِن باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے مظاہرے اور دھرنے سے متعلق ایک ضروری سوال کی طرف آتے ہیں کہ کتنے آدمی تھے؟
کسی بھی دھرنے یا سیاسی جلسے کی کامیابی کا اندازہ اُس میں شامل لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے، لیکن ماضی کے برعکس کل کے دھرنے میں تو اپوزیشن اِس محاذ پر بھی کمزور دکھائی دی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مسلسل اِس حوالے سے تنقید دیکھنے اور سننے کو ملی کہ ’اسٹیج تو بھرگیا مگر خالی کرسیاں اب بھی لوگوں کی منتظر ہیں۔‘
وڈیو دیکھیے: قومی اسمبلی سے استعفے سے متعلق عمران خان کا فیصلہ
کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قادری صاحب اور اُن کی اتحادی جماعتیں کل اُٹھنے کے لیے نہیں آئی تھیں، مگر شاید عوام کی جانب سے بھرپور پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے کے لیے مجبور ہوئی ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ بھی ہو، مگر میں طاہر القادری اینڈ کمپنی کا حمایتی نہ ہونے کے باوجود یہ بات کہنا چاہوں گا کہ اگر یہ یونہی عوام کو جھوٹے وعدوں اور دعووں کے نام پر بار بار بلاتے رہیں گے تو مستقبل میں شاید یہ اکیلے ہی دھرنا دے رہے ہوں۔
اِس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اِس دھرنے کی وجہ سے مال روڈ کے اطراف کی سڑکیں، تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز اور دیگر اہم مقامات گزشتہ دو دن سے مستقل بند رہے۔ لوگوں کو یوں پہنچنے والی پریشانی سے حکومت کو نقصان کے بجائے شاید فائدہ ہی ہورہا ہے، اور دھرنا دینے والے گروہ کو عوام کی جانب سے ہمدردی کے بجائے سلاوات ہی مل رہی ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت سیاسی جماعتیں یا گروہ تمام تر صورتحال کا جائزہ لیا کرتی ہیں، مگر شاید اِس حوالے سے بھی اِس بار کچھ نہیں سوچا گیا۔
پھر میاں صاحب نے بھی خود کو معصوم ترین ثابت کرنے کے لیے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا ورد جاری رکھا ہوا ہے، لیکن اِس ورد میں ایک اور معصومانہ سوال کا اضافہ یوں ہوا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ جب حکومت کی مدت پوری ہونے میں محض 3 سے 4 ماہ باقی رہ گئے ہیں تو ایسے موقع پر مخالفین کی تحریکوں کا مقصد سمجھ نہیں آتا۔
اب اپنی بات کو اختتامی نکات کی جانب لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت مخالف احتجاج کو لوگوں کی موت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، میں ذاتی طور پر اِس عمل کو بہت بُرا سمجھتا ہوں۔ ہاں اگر آپ کو ایسا لگتا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے پیچھے پنجاب حکومت تھی تو پھر اب تک آپ کو اپنے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کن کارروائی کرلینی چاہیے تھی، یا مقصد کے حصول کی خاطر آزادی مارچ کو جاری رکھنا چاہیے تھا کیونکہ آپ ایک بڑے مقصد کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن اُس واقعہ کو ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی آپ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلیں گے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ اِن دھرنوں اور احتجاج کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہیں۔
جن لوگوں کے لواحقین اُس سانحہ میں جان سے گئے ہیں اُنہوں نے آپ سے بہت اُمیدیں لگائی ہوں گی، لیکن وہ اُس وقت کیا سوچتے ہوں گے جب آپ آدھا سال دنیا گھومتے ہیں اور پھر کچھ عرصے کے لیے پاکستان آکر دھرنا دیتے ہیں، جھوٹے دلاسے دیتے ہیں، بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور یہ سارے کام کرکے واپس باہر چلے جاتے ہیں۔
وڈیو دیکھیے: 'جاتی امرا کے در و دیوار ہلا دو' طاہر القادری
اور کہنے والے شاید اِسی لیے کہتے ہیں کہ دھرنے سے پہلے استعفوں کے دعووں اور پھر اگلے لائحہ عمل دو دن بعد دینے کا اعلان یہ ثابت کرتا ہے کہ اِن تلوں میں تیل نہیں۔ مگر کہتے ہیں نا کچھ ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے سو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف طاہر القادری پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، لیکن کیا معلوم کہ قادری صاحب اپنے کسی ضروری کام کو سرانجام دینے کی خاطر اِن دونوں سیاسی جماعتوں کو عوام میں رسوا کرواکر ہمیشہ کی طرح کینیڈا واپس چلے جائیں اور عمران خان اور آصف زرداری ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جائیں۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔