نقطہ نظر

کیا پیلٹ گنز سے متاثر کشمیریوں کی بینائی لوٹ سکے گی؟

اب تک کم از کم 2 ہزار 400 کشمیری زخمی ہو چکے ہیں جن میں 600 سے زائد پیلٹ چھروں کا شکار بنے،اور 210 کی آنکھیں زخمی ہوئیں۔
|

سری نگر میں واقع شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں آنکھوں کے وارڈ میں درجنوں نوجوان مرد اور کچھ بچے موجود تھے۔ کچھ نے کالے چشمے پہنے ہوئے تھے، جبکہ کچھ لوگوں کو ایک آنکھ، تو کچھ کی دونوں آنکھوں پر ایک موٹی پٹی بندھی ہوئی تھی۔

کئی لوگوں کو بستر پر درد سے تپڑتے اور کروٹ بدلتے دیکھا جبکہ دیگر مریض بستر پر ساکن پڑے تھے، اور ان کے پاس بیٹھے گھر والے پنکھا جھل رہے تھے۔

یہ مریض، بدنام زمانہ مہلک ہتھیار پیلٹ گنز کا شکار ہوئے ہیں جنہیں بھارتی سیکیورٹی فورسز 2010 سے استعمال کررہی ہے تاکہ احتجاج اور مظاہروں کو قابو کیا جاسکے۔

جب پیلٹ گن سے فائر کیا جاتا ہے تو متعدد آہنی چھروں کی ایک بوچھاڑ باہر نکلتی ہے جو راستے میں آنے والی ہر چیز کو نشانہ بناتی ہے۔ ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ کشمیر میں حالیہ مظاہروں کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گنز کے ایسے کارتوس استعمال کیے جا رہے ہیں جس میں ایک وقت میں 300 سے 600 چھرے بھرے جاسکتے ہیں۔

8 جولائی کو جب ایک جھڑپ کے دوران حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو قتل کیا گیا تو سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 50 افراد مارے گئے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اِن مظاہروں میں اب تک کم از کم 2 ہزار 400 لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ جن میں 600 سے زائد پیلٹ چھروں کا شکار بنے، اور 210 افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں۔ کم از کم تین افراد، اِن پیلٹ گنز کی وجہ سے مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے ہیں، جن میں 14 سالہ انشا ملک میں بھی شامل ہے، جبکہ 23 لوگ اپنی ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوئے۔

2014 میں 20 ایسے لوگوں پر تحقیق کی گئی جن کی آنکھیں کشمیر میں پیلٹ چھروں کی وجہ سے زخمی ہوئی تھیں، اس تحقیق کے مطابق ان افراد میں سے 33 فیصد دوبارہ اپنی آنکھوں کی بینائی حاصل نہیں کر پائے تھے۔

پیلٹ گن کے متاثرین

شری مہا راجہ ہر سنگھ ہسپتال کے آنکھوں کے وارڈ میں موجود پیلٹ گن کا شکار ہونے والوں میں صرف مظاہرین ہی شامل نہیں تھے، بلکہ اِن متاثرین میں ایسے بھی افراد تھے جو مظاہروں کا حصہ ہی نہیں تھے۔

فراز (نام تبدیل کیا گیا ہے) کو ایک ہفتہ قبل سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے پر پیلٹ گن سے نشانہ بنایا گیا۔ ایک چھرہ ان کی بائیں آنکھ کے کورنیا میں جا گھسا۔

چونکہ فراز میں کچھ بولنے کی ہمت باقی نہیں بچی تھی لہٰذا ان کے دوست بشیر (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے پورا قصہ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا 20 سالہ دوست بکتر بند گاڑی سے بمشکل 50 میٹر کی دوری پر تھا کہ جب وہاں سے ایک سیکیورٹی اہلکار نے انہیں پیلٹ گن کا نشانہ بنایا گیا۔ بشیر نے بتایا کہ، "وہ اپنے گھٹنوں پر گرا، اس کی بائیں آنکھ سے مسلسل خون رس رہا تھا، جس کے بعد وہ اٹھ کر ایک تنگ گلی کی طرف دوڑنے لگا۔"

ایک دوسرا مریض جو کہ ایک بچہ ہے، اس نے بتایا کہ جب وہ اپنی ٹیوشن کلاسز کے لیے جا رہا تھا کہ تب اسے پیلٹ گن کا ہدف بنایا گیا۔ موبائیل فون پر گانے سننے میں مصروف اس بچے سے جب مزید سوالات پوچھے گئے تو اس نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔

ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق 21 سالہ مشتاق (نام تبدیل کیا گیا ہے) اپنی بائیں آنکھ کی بینائی کھو چکے ہیں اور وہ 'دائیں آنکھ کی بینائی واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں،’ مشتاق نے بتایا کہ جب وہ راشن خریدنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے تب سیکیورٹی فورسز نے ان پر پیلٹ گن سے فائرنگ کر دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ، "فائر کی آواز سننے کے بعد وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے۔"

آنکھیں ٹھیک ہو سکتی ہیں؟

جن لوگوں کی آنکھیں پیلٹ چھروں کی وجہ سے زخمی ہوتی ہیں ان کا تین مرحلوں میں علاج کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ان کی آنکھوں سے چھرے نکال کر آنکھ کے گولے کو صاف کرنے اور بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں پیلٹ چھرے سے ہونے والے کسی بھی ممکنہ انفیکشن سے بچاؤ کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ اکثر پیلٹ چھرے زمین یا پھر کسی آلودہ سطح سے اچھل کر آنکھ میں گھس جاتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں بینائی واپس لانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس میں آنکھ کے زخم کی گہرائی کے لحاظ سے زائد آپریشنز بھی درکار ہوسکتے ہیں۔

مہاراجہ شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر، جو اپنی شناخت نہیں بتانا چاہتے، نے بتایا کہ اس وقت ہسپتال میں 200 کے قریب زخمی آنکھوں والے موجود ہیں، جن میں سے 76 مریضوں کی بینائی واپس لانے کے لیے ان کے دو آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔

آنکھوں کے وزنٹنگ سرجن، ڈاکٹر ایس نترجن، اس ہسپتال میں ایسے ہی 40 مریضوں کے آپریشنز کر چکے ہیں، لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان میں سے کتنے لوگوں کی بینائی دوبارہ لوٹ آئی گی۔

ممبئی میں آنکھوں کی ہسپتال چلانے والے نترجن نے بتایا کہ، "ہمیں آپریشنز کا نتیجہ جاننے کے لیے کم از کم 6 ہفتوں سے ایک سال تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔"

ہسپتال کے ایک دوسرے ڈاکٹر، وہ بھی اپنا ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کا بھی یہی کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا "قبل از وقت" ہوگا کہ آیا یہ پیلٹ گن کے شکار مریض دوبارہ بینائی حاصل کر پائیں گے بھی یا نہیں۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ، "مریضوں کی ایک بڑی تعداد کا اب بھی آپریشن ہونا باقی ہے اور ان کی بینائی واپس لوٹنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ علاج سے ان کی آنکھوں میں کتنی بہتری آ رہی ہے۔ کچھ مریضوں کی بینائی 3 ہفتوں میں واپس لوٹ آتی ہے اور چند کو 6 ہفتوں سے بھی زائد عرصہ لگ جاتا ہے۔ کوئی ایسی ڈیڈ لائن نہیں ہوتی کہ جس کے ختم ہوجانے کے بعد مریض ہمیشہ کے لیے نابینا ہو جائے گا۔"

2014 میں آفریقن جرنل آف ٹراما میں شائع ہونے والی سری نگر کے علاقے بیمینا میں واقع شیر کشمیر آف میڈیکل سائنسز کے ماہر امراض چشم کی تحقیق کے مطابق، پیلٹ گن کا شکار ہونے والوں میں سے ایک تہائی مریض دوبارہ بینائی حاصل نہیں کر پاتے۔

ڈاکٹرز نے جنوری 2010 اور ستمبر 2013 کے درمیان 20 پیلٹ گن کا شکار بننے والے مریضوں پر تحقیق کی جن کا علاج اور آپریشن بیمینا کی ہسپتال میں کیا گیا تھا۔ تحقیق کے مطابق آپریشن کے بعد جہاں 65 فیصد مریضوں کی بینائی میں بہتری آئی وہاں دیگر مریضوں کی حالت پہلے جیسی رہی۔

آنکھوں کے سرجنز نے بتایا کہ، اس قسم کے کیسز میں بہت ہی کم مریض نارمل بینائی حاصل کر پاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے نقص پیدا ہوتا ہے یا پھر بقول ڈاکٹرز کہ ان کی آنکھوں کی بینائی "نارمل بینائی کے قریب" ہوتی ہیں۔

آنکھوں کے ہسپتال درکار ہیں

ڈاکٹر نترجن ایک واٹس ایپ گروپ پر میسج پڑھنے کے بعد گزشتہ ہفتے سری نگر پہنچے تھے۔ اس واٹس ایپ میسج میں کشمیر میں پیلٹ گن کا شکار بننے والوں کی بینائی بچانے کے لیے ماہر امراضِ چشم سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے ملاقات کی اور امراض چشم کے لیے خصوصی ہسپتال بنانے پر زور دیا، جہاں تربیت یافتہ ڈاکٹرز آنکھوں کے زخموں کا علاج اور آپریشن کرسکیں۔

انہوں نے بتایا کہ، "ہمیں ان مریضوں کی بینائی لوٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ ان مریضوں میں نوجوان، ٹین ایجرز اور بچے شامل ہیں۔ ہمیں انہیں نابینا بننے سے روکنا ہوگا۔"

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں شامل ایک پولیس افسر کے بیان کے مطابق پیلٹ گنز ہجوم پر قابو پانے کا کافی مؤثر طریقہ ہے کیونکہ "اس طرح زخمی کو ٹھیک ہونے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے یوں علاج و معالجے کی مصروفیت اور معذوری انہیں دوبارہ پتھراؤ کرنے کا موقع نہیں دیتی—تصویر اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ان کے زخموں کے علاج اور آپریشن کے لیے کشمیر میں مزید آپریشن تھیٹرز اور ڈاکٹرز درکار ہوں گے۔

ہتھیاروں کا استعمال جاری رہے گا

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جموں کشمیر میں ہجوم پر قابو پانے کے لیے پیلٹ گن، یا پمپ ایکشن گن کے استعمال کو بڑی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حکومت نے ان ہتھیاروں کے متبادل تلاشنے کے لیے 7 رکنی ٹیم قائم کی۔

لیکن جموں کشمیری مظاہرین پر قابو پانے کے لیے معاون سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے اشارہ دیا ہے کہ کوئی بہتر متبادل نہ ہونے کے باعث وہ ان ہتھیاروں کا استعال جاری رکھے گی۔

سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ڈاریکٹر جنرل کے درگا پرساد نے دی ہندو اخبار کو بتایا کہ، "ہم نے اپنے جوانوں سے کہا ہے کہ فائر کرتے وقت وہ اپنی بندوقوں کا رخ نیچے کی طرف رکھیں تا کہ جسم کا صرف نچلا حصہ ہی متاثر ہو۔ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ پیلٹ چھروں کے زخموں کی وجہ سے کئی لوگ اپنی بینائی کھو چکے ہیں اور ہم ایسی رپورٹس کی چھان بین کر رہے ہیں۔"

سیکیورٹی فورسز ہجوم پر قابو پانے کے لیے پیلٹ گنز کا استعمال ترک کرنے میں ہچکچاہٹ کا تعلق دراصل اپنے شکار کو معذور بنانے کی صلاحیت سے ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں شامل ایک پولیس افسر کے بیان کے مطابق پیلٹ گنز کا استعمال ہجوم پر قابو پانے کا کافی مؤثر طریقہ ہے کیونکہ "اس طرح زخمی کو ٹھیک ہونے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے یوں علاج و معالجے کی مصروفیت اور معذوری انہیں دوبارہ پتھراؤ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتی۔

'ڈاکٹرز غیر جانبدار ہوتے ہیں'

نترجن جیسے سرجنز کے لیے آنکھوں کے آپریشن کوئی نئی بات نہیں، لیکن انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تعداد میں پیلٹ چھرو سے زخمی آنکھوں کے آپریشن نہیں کیے۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ کشمیر کی ہسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے پر انہیں ان کے کولیگز نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ، "میرے کولیگز یہ بھی چاہتے تھے کہ میں فوج کے لیے خدمات انجام دوں۔ میں نے فوج سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی خدمات کی پیش کش بھی کی۔"

انہوں نے مزید کہا ہے کہ، "ڈاکٹرز غیر جانبدار ہوتے ہیں۔"


یہ مضمون ابتدائی طور پر اسکرول ڈاٹ ان پر شائع ہوا اور بااجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ ڈان ڈاٹ کام پر یہ مضمون 6 اگست 2016 کو شائع ہوا۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

پرینکا وورا
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ریان نقاش
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔