دادی لیلاوتی: سندھ میں تعلیم کا دیا روشن کرنے والی شخصیت
چند لوگ کسی شہر کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا ہی تعارف بن جاتے ہیں۔ چند روز قبل ایسی ہی ایک ہستی کی روح کا پرندہ پرواز کر گیا ہے جس کا نام تو لیلاوتی ہرچندانی تھا مگر اس کی سندھ میں پہچان ”دادی لیلاوتی“ کے نام سے قائم رہی۔
دادی لیلاوتی کا نام سنتے ہی سندھ میں عورتوں کی تعیلم کے حوالے سے کی جانے والے خدمات یاد آجاتی ہیں۔ انہوں نے سندھ میں عورتوں کی تعلیم کو فروغ دینے کا فیصلہ اسی دن کرلیا تھا جس دن انہوں نے ایک اسکول میں میوزک ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کی تھی۔ اپنے آخری ایام میں بھی ہارمونیم پر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام اور بھجن گانے والی دادی لیلاوتی نے اپنی تمام تر عمر اس جدوجہد میں گزاری کہ سندھ میں کوئی بھی عورت ان پڑھ نہ رہے۔
برِصغیر کی تقسیم بھی انہیں سندھ سے جدا نہ کرسکی حالانکہ اُن کے بھائی اور دیگر رشتے دار حیدرآباد میں ہیرآباد کے علاقے کو چھوڑ کر ہندوستان منتقل ہوگئے، مگر انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود سندھ سے جڑے رہنے کو ترجیح دی اور ہر حال میں بچیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں رہیں۔
تقسیمِ ہند سے قبل مسلمان گھرانوں میں تعلیم، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کا اتنا رواج نہیں تھا۔ اس زمانے میں بھی ہندو عامل تعلیمی میدان میں آگے تھے اور انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ تعلیم کا حصول ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے آنے والے وقتوں میں کئی راستے نکل سکتے ہیں جو کہ سماج کی خوشحالی اور بہتری کے لیے بہت اہم ثابت ہوں گے۔ ان کا جنم حیدرآباد میں ڈاکٹر ہوتچند وادھوانی کے گھر میں 20 دسمبر 1916 کو ہوا۔
سندھ میں اُس زمانے میں چند گنے چنے تعلیمی ادارے ہی ہوا کرتے تھے مگر اُن میں بھی عورتوں کا تعلیم کی طرف رجحان اتنا نہیں تھا۔ موسیقی سے اُن کی دلچسپی بچپن سے تھی، بہت ہی کم عمری میں انہوں نے بھجن گانا شروع کردیے تھے۔ آگے چل کر اِسی موسیقی کا ریاض ہی اُن کے لیے روزگار کا ذریعہ بنا۔
گورنمنٹ ٹریننگ کالیج فار وومین حیدرآباد کے ایک پروگرام میں اُس زمانے کے وزیرِ تعلیم جی ایم سید نے دادی لیلاوتی کا راگ سنا۔ جب انہوں نے اپنی موسیقی کے جوہر دکھائے تو وہاں جی ایم سید کے علاوہ سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر میران محمد شاہ اور علامہ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتا بھی موجود تھے۔
پروگرام کے اختتام پر جی ایم سید نے اُن کے فن سے متاثر ہو کر میوزک ٹیچر کے طور پر بھرتی کرنے کی پیشکش کی، اور انہیں 1942 میں 35 روپے ماہانہ پر میوزک ٹیچر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے 1952 میں کراچی کے این جے وی اسکول سے بیچلرز آف ٹیچنگ (بی ٹی) کی ڈگری حاصل کی، جبکہ تعلیم کے دوران وہ ریڈیو پاکستان پر گلوکاری بھی کرتی رہیں۔ آگے چل کر انہوں نے ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔
سندھ میں موسیقی کے حوالے سے دو بڑے نام جن میں جیجی زرینا بلوچ اور روبینا قریشی شامل ہیں، اُنہیں بھی دادی لیلاوتی نے ریڈیو پر متعارف کروایا۔ دادی لیلاوتی کی ملازمت کی ابتداء تو بطور میوزک ٹیچر ہوئی تھی، مگر قسمت کو دادی لیلاوتی سے کچھ اور ہی کام درکار تھا۔
آگے چل کر وہ تدریسی عمل سے جڑ گئیں، اِس طرح سندھ میں تعلیم کے حوالے سے وہ ایک مہم جو ثابت ہوئیں۔ میرپور خاص ہائی اسکول میں تبادلہ ہونے کے بعد انہوں نے اِس بات کو محسوس کیا کہ یہاں پر بچیوں کی تعداد کم ہے، اِس لیے انہوں نے اپنے کام کو جاری رکھتے ہوئے تھرپارکر اور میرپورخاص کے دور دراز علاقوں میں سفر کیا اور لوگوں کے گھروں میں جاکر اِس پیغام کو عام کیا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجیں تاکہ اُن کی اچھی تعلیم و تربیت ہوسکے۔ اُنہیں کہیں کہیں کامیابی ملتی، اور کہیں کہیں انہیں ناکام بھی لوٹنا پڑتا تھا، پھر بھی انہوں نے اِس سلسلے کو کسی بھی حال میں ختم نہیں کیا۔