تمر کے جنگلات اور کراچی کے ساحل کی ماحولیاتی موت
تمر کے جنگلات اور کراچی کے ساحل کی ماحولیاتی موت
کراچی شہر کے جنوب مغرب میں سمندر کنارے نکل جائیں تو وہاں اکثر سارے موسم آتے ہیں۔ کراچی شہر میں سردیوں کا موسم یقیناً آتا ہے مگر کڑاکے کی ٹھنڈ نہیں پڑتی لیکن جب گرمیاں آتی ہیں اور اپنی شدت کا خوب احساس دلاتی ہیں لیکن ان کناروں پر صرف نام کی گرمیاں آتی ہیں۔ میں جب سمندر کنارے کی بستی ’ریڑھی میان‘ پہنچا اس وقت بھی گرمیوں کا موسم تھا۔ مگر ماہی گیروں کی پسماندہ بستی کی گلیوں میں سمندر کی تیز، نم اور قدرے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
یہ ماہی گیروں کی وہ واحد بستی ہے جہاں چائے کے گھریلو ہوٹل عورتیں چلاتی ہیں۔ ماہی گیروں کی اکثر بستیوں جیسے بابا بھٹ، مبارک ولیج، ابراہیم حیدری یا ریڑھی میاں کی گلیوں میں چلتے ہوئے میرے احساسات ہمیشہ عجیب ہی رہے۔ ان بستیوں کی خستہ حال گلیوں اور جھونپڑیوں میں انسانیت کے رنگوں میں مہکتی ایک مثبت سوچ پلتی ہے۔
ساری دنیا، خصوصاً ایشیاء میں اس موضوع پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں کہ، مرد اور عورت مساوی ہیں اور دونوں کے حقوق اور حقِ رائے دہی برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے لیکن کراچی کے ان سمندر کناروں کی بستیوں میں کوئی آ کر تو دیکھے کہ یہاں کا معاشرہ ہی مادرانہ ملے گا۔ چائے کے ہوٹلوں پر مزدوری سے تھکے ہارے ماہی گیر آتے، چائے پیتے اور پھر منہ میں گُٹکا چباتے یا سگریٹ سُلگاتے گھر کی طرف نکل پڑتے۔ پھر کچھ اور عورتوں کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جہاں چنے، کچوریاں اور پکوڑے بک رہے تھے۔
کراچی کا سمندری کنارہ 129 کلومیٹر پر پھیلا ہے جو ماحولیاتی طور پر کافی مختلف ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے جزیرے، تمر کے جنگلات کی بہتات، اور پھر ان جنگلوں اور جزیروں پر جنگلی حیات کا پھلنا پھولنا فطرت کی عنایت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔