اداریہ: مشرف کو واپس آ کر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے
پاکستان کے واحد حیات سابق فوجی آمر کے طور پر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ملک کے اس چھوٹے مگر اہم حصے کے ترجمان بن کر سامنے آئے ہیں۔
اپنے حریف میاں محمد نواز شریف کے سیاسی زوال کے بعد سابق آمر نے سویلین سیاستدانوں کے خلاف ایک کے بعد ایک تبصرے کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو ایک ایسے فرد کی بیان بازی کے طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے جو آج کے دور میں اپنی محدود سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے میں ناکام ہے۔
مگر اپنے مخصوص انداز میں سابق آمر اپنی حدیں پار کر چکے ہیں۔ خودساختہ جلاوطنی کے دوران بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک حیران کن انٹرویو میں مشرف نے نا صرف اپنے دور کا دفاع کیا، بلکہ ایوب اور ضیاء ادوار کا بھی۔
شکر ہے کہ مشرف کے لیے بھی یحییٰ خان کے دور کا دفاع کرنا ایک انتہائی قدم ہوا اور وہ اس سے باز رہے۔ مگر پھر بھی ملکی تاریخ کی دو انتہائی تباہ کن فوجی آمریتوں کا شرمناک دفاع اور تمام سویلین سیاستدانوں کو کھلے عام برا بھلا کہنا ایک غیر معمولی بات ہے۔ مشرف بھلے ہی معذرت خواہ نہ ہوں، مگر وہ انتہائی غلط ضرور ہیں۔
فوجی حکومتیں ملک کے لیے کتنی تباہ کن رہی ہیں، اس کا اندازہ اس آسان معیار سے لگایا جا سکتا ہے جو مشرف کی بھی سمجھ میں آئے گا: زیادہ تر نے دفتر رسوائی کے بعد چھوڑا، اور ہر آمریت کے بعد ملک میں اتفاقِ رائے پیدا ہوا کہ سویلین حکومت کی جانب لوٹنا ضروری ہے (جنرل ایوب کے معاملے میں غیر معمولی سیاسی صورتحال نے اس ناگزیر مرحلے کو کچھ حد تک ٹال دیا)۔
خود مشرف سنگین قانونی مسئلے سے خود کو بچانے کے لیے بیماری کا بہانہ کرنے اور اپنے ادارے کو استعمال کر کے ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اب جبکہ ان کے حریف سیاسی دوڑ سے باہر نکل گئے ہیں، تو مشرف کو اپنے اس نظریے، کہ پاکستانی عوام سویلین حکمرانوں سے زیادہ فوجی حکمرانوں کو ترجیح دیتے ہیں، کو اس طرح آزمانا چاہیے کہ وہ واپس آئیں اور عدالتوں کا سامنا کریں۔
یقیناً مشرف کے نزدیک جن عدالتوں نے نواز شریف کے معاملے میں انصاف کیا ہے، وہ 'عوام کے پسندیدہ حکمران' کے ساتھ بھی انصاف ہی کریں گی، مشرف کی اپنی دلیل کے مطابق۔
جلاوطن سابق آمر کے بزدلانہ الفاظ اور پاکستان کی مایہ ناز جمہوریت پسند وکیل عاصمہ جہانگیر کے الفاظ کے درمیان تضاد اس سے زیادہ واضح اور اہم نہیں ہو سکتا۔ جہانگیر، جن کا جمہوری اقدار اور اصولوں پر واشگاف اور بااصول مؤقف انہیں ایک قومی اثاثہ بناتا ہے، نے ایک بار پھر عوامی سطح پر وہ سوالات اٹھائے ہیں جو پوچھنے کی ہمت چند لوگ ہی کر پاتے ہیں۔ ان کا بنیادی سوال — کہ پاکستان میں احتساب صرف سویلین سیاستدانوں کا ہی کیوں ہوتا ہے؟ — کا جواب مشرف کی ہٹ دھرم اور شدید بے وقوفانہ گفتگو میں چھپا ہے۔
یقیناً آج مشرف کو آزادی آئینی نظام کے مسخ کیے جانے کی وجہ سے حاصل ہے جس کی بنیادی وجہ آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی منتخب اور اپنے مفاد کے لیے تشریح ہے۔
موجودہ عسکری قیادت کو عوامی طور پر مشرف کے بیانات سے اظہارِ لاتعلقی کرنا چاہیے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 5 اگست 2017 کو شائع ہوا۔