نقطہ نظر

نوری مسجد کی تباہی ثقافتوں کی بربادی کی ایک مثال ہے

ہمیں اپنی زندگیوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا مگر کسی تہذیب کی یادگار کی تباہی البتہ ایک بالکل ہی الگ بات ہے۔

گزشتہ برسوں کے دوران میں نے نہ جانے کتنے فنون اور پرانے وقتوں کے بیش قیمتی خزانے اپنی آنکھوں سے دیکھے — جو بعد پھر ٹکڑوں کا ڈھیر بھی بن گئے۔ 14 برس قبل میں اس عمارت کو دیکھنے موصل گیا تھا جہاں امریکی فوج نے صدام حسین کے بیٹوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

میری نظر بارہویں صدی میں تعمیر ہونے والی نوری مسجد کے ’جھکے ہوئے’ مینار پر پڑی جو شہر میں آب و تاب سے کھڑا تھا، اسے نور الدین محمود زنگی نے تعمیر کیا تھا۔ وہ ایک عرب ہیرو تھے جنہوں نے صلیبی جنگجوؤں کے خلاف عربوں کو متحد کیا تھا۔ خواتین و حضرات، بمشکل ایک ہفتے قبل ہی اس کا وجود ہی مٹ گیا۔ ہم نے اس کا ذمہ دار جنگجو گروہ دولتِ اسلامیہ کو ٹھہرایا اور دولتِ اسلامیہ نے امریکی ہوائی حملے کو۔

2012 میں، حلب شہر کی سڑکوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی تب ایک قدیم قلعے کی خم دار سڑک پر بھاگتے ہوئے میں نے بارہویں صدی میں تعمیر ہونے والی ایک اموی دور کی مسجد کے ایک مینار کو دیکھا۔ ایک سال کے اندر اندر وہ مینار مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ ہم نے اس کا الزام شامی حکومت پر عائد کیا۔ شامیوں نے اس کا الزام النصرہ/ القاعدہ کے ’دہشتگردوں’ پر لگایا۔ جب وہ مینار گرا تھا تب پورے حلب شہر کی زمین لرز اٹھی تھی۔

1980 کی دہائی میں کئی بار میرا گزر پلمیرا کے رومی کھنڈرات سے ہوا، ٹیمپل آف بیل جانا ہوا، فاتحانہ محراب کو غور غور سے دیکھا اور تھیٹر اسٹیج پر چہل قدمی کی۔ 2016 میں شامی فوج کی جانب سے اس قدیم شہر سے دولتِ اسلامیہ کو باہر دھکیل دینے کے بعد شہر میں دوبارہ آنا ہوا تو دیکھا کہ محراب دھماکوں کی وجہ سے تباہ ہو چکی تھی اور مندر کی جگہ اب چند پتھروں کے ٹکڑے باقی بچے تھے، جن میں زیادہ تر کی لمبائی دو سے تین انچ تھی۔ تھیٹر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ ایک رومی ستون سے پھانسی کا پھندا لٹک رہا تھا۔ یہی دولتِ اسلامیہ کی وہ جگہ تھی جہاں لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ پھر وہ دوبارہ لوٹ آئی اور دوبارہ پلمیرہ پر قبضہ جما لیا اور اس بار انہوں نے تھیٹر کے مرکز کو بم سے اڑا دیا۔

بوسنیا میں جنگ چھڑ جانے کے بعد، میرا گزر موستار میں واقع سنان کے 16 ویں عثمانیہ پل کے چمکتے پتھروں پر سے ہوا۔ مہینوں کے اندر جو پل 427 سالوں سے اپنی جگہ پر کھڑا تھا وہ کروشین توپوں کی زد میں تباہ ہو کر نیریتوا ندی میں گر پڑا۔ یہ واقعہ 9 نومبر 1993 کو ٹھیک 3 بج کر 27 منٹ پر پیش آیا تھا۔ مجھے اس کا ٹھیک ٹھیک وقت اس لیے یاد ہے کیونکہ آج بھی میرے پاس اس تباہی کی ویڈیو موجود ہے۔

میں اکثر ویڈیو کو بیچ میں روک دیتا تھا اور ریوائنڈ بٹن دباتا اور پل کو دوبارہ تعمیر کر دیتا، ندی میں گرتے ترک پتھر پراسرار طریقے سے اوپر اٹھتے اور آپس میں جڑ کر ندی کے اوپر ایک پل کی صورت اختیار کر لیتے تھے۔ پل کی تباہی پر بوسنیا کے مسلمانوں نے سوگ منایا تھا— جن کی قدیم مساجد سرب گولہ بارود کی زد میں آکر ریزہ ریزہ ہو رہی تھیں— جیسے آج موصل کا مینارہ گرنے پر عراقی رنجیدہ ہیں۔

یوگو سلاوی ناول نگار ایوو اینڈرک نے اپنے ناول دی برج آن دی درینا— جو کہ بلاشبہ یورپ کے سب سے بہترین ناولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے— میں سمجھاتے ہیں کہ کس طرح انسانوں نے خدا کے فرشتوں سے پل بنانا سیکھا، اور اسی لیے، فواروں کے بعد پل تعمیر کرنا بڑی ہی رحمت کا باعث ہے اور اس میں مداخلت کرنا ایک عظیم گناہ کے برابر ۔ ۔ ۔" مگر ہم ’عظیم گناہوں' کے عادی سے ہو گئے ہیں۔ ’کلچر سائیڈ’ (مذہبی، سیاسی، نسلی بنیادوں پر کسی ایک ثقافت کی تباہ کرنا)— کتب خانوں، قبرستانوں، گرجا گھروں، مسجدوں کی تباہی— جنگ بوسنیا کا ایک خاص حصہ بن گیا تھا۔ 1999 میں کوسوو کے اندر سرب عیسائیوں نے قدیم مساجد کو شہید کیا۔ پھر کوسووی مسلمانوں نے صوبوں میں موجود زیادہ تر سرب گرجا گھروں کو نشانہ بنایا۔ میں نے ان میں سے کئی گرجا گھروں کو تباہ ہونے سے پہلے اور بعد میں دیکھا۔

موصل، عراق کی النوری مسجد کی تباہی کے بعد کے مناظر۔

عظیم گناہ کی ایسی تو سیکڑوں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ کسے یاد ہوگا کہ 2001 میں طالبان نے اپنی پسپائی سے قبل بامیان میں موجود پانچویں صدی کے گوتم بدھ کے مجسموں کو 25 دنوں میں دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا تھا۔ رسول اللہ اور ان کے خاندان سے منسوب مقامات کو جس طرح سعودی عرب تباہ کر رہا ہے اس کا کسی کو خیال بھی ہے؟

اور پھر دوسری جنگ عظیم کے دوران قدیم مرکز روٹرڈم، کووینٹری کیتھڈرل، لندن میں واقع رین گھرجا گھروں کی تباہی، نشاۃِ ثانیہ اٹلی کی تباہ حالی، وارسا کی بربادی کے بارے میں کیا خیال ہے، جو نازی پائلٹوں، نازی فوج اور نازی نیم عسکری دستوں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

انگلینڈ کی رائل ایئر فورس کی جانب سے 1945 کی ڈریسڈن میں تباہی اور جرمنی کے شہروں میں واقع قرون وسطیٰ کے گھرجا گھروں پر کی جانے والی بمباری بھی تو ہے۔ اور نازی پارٹی کی 'ثقافتی’ اشرافیہ کی جانب سے پورے یورپ کے عجائب گھروں سے نشاۃِ ثانیہ کے فنون کی بڑی سطح پر چوری ہوئی۔ اور پھر ہمارے پاس وہ جرمن بھی ہیں جنہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران پندرہویں صدی کی لووین یونیورسٹی اور لائبریری کو جلا دیا تھا اور یپریس میں واقع قرونِ وسطیٰ کا کلاتھ ہال مکمل تباہ کر دیا تھا۔

جی ہاں یہ ایک نا ختم ہونے والی فہرست ہے، ہم آج بھی ان گرجا گھروں اور خانقاہوں کے کھنڈرات دیکھ سکتے ہیں جو ہینری چہارم کے طیش کا شکار ہوئے تھے اور موضوع سے ہٹ کر سوال کرتے ہیں کہ قرون وسطیٰ کے رومیوں نے کولوزیئم سے پتھر کیوں نکالنے شروع کیے، ٹھیک اسی طرح جیسے بیسویں صدی کے اوائل میں عثمانیہ حکام نے بیروت کے صلیبی جنگجوؤں کے قلعے سے اپنی بندرگاہ کی توسیع کے لیے پتھر نکالے۔

اور پھر آئے جرمن گوتھ، اوسٹرو گوتھ، اور وزی گوتھ، یہاں وہ اوائلی مسلمان حملہ آور بھی قابل ذکر ہیں جنہوں نے خود پتھر کے بدھ کو توڑنے کی کوشش کی تھی؛ میں نے دوشنبے میں واقع میوزیم میں اس کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بحال کیے گئے مجمسے کو دیکھا ہے۔ اور جب میں قبل از تاریخ اور سمیری کا سوچتا ہوں تو مجھے بس جنوبی عراق کے شہروں میں چہل قدمی یاد آتی ہے، جہاں 2003 کے برطانوی و امریکی حملے کے بعد مقبرہ چوروں نے جگہ جگہ کھدائیاں کی ہوئی تھیں۔

وہ مجسمے بھی یاد آتے ہیں جن کے ٹوٹے پھوٹے ہاتھوں پیروں کے ٹکڑے اندھیرے میں ڈوبے اس لٹے ہوئے بغداد میوزیم کے اندر میرے قدموں کے نیچے آ کر ریزہ ریزہ ہو رہے تھے۔

بعض اوقات ایسے مقامات کی دوبارہ تعمیر سے انہیں اپنی حالت میں بحال بھی کیا جاسکتا ہے۔ یپریس کلاتھ ہال کو ٹھیک اس کی اصل حالت میں کیا گیا۔ پرانے نقشوں اور تصاویر کی مدد سے وارسا کے پرانے شہر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے موستار کے پل کی تعمیر نو میں مدد کی۔ سعودیوں نے بوسنیا کی مساجد کی تعمیر نو کے لیے رقوم ادا کیں۔ بیسل اسپینس نے نیا کووینٹری گرجا گھر کا نقشہ بنایا۔

وارسا تو بالکل ہی اپنی اصل حالت جیسا محسوس ہوتا جبکہ موستار کے اصل میں موجود صدیوں پر محیط موسموں کی مار سے پیدا ہونے والی بوسیدگی کی کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے جس کے بارے میں سولہویں صدی کے ایک سیاح نے لکھا تھا، ’یہ پل بھی قوس قزح کی ہی طرح آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتا محسوس ہوتا ہے۔’ یپریس کا کلاتھ ہال شاندار دکھائی دیتا ہے۔ ویسے ہی وارسا میں واقع بعد از جنگ کا ’قرونِ وسطی’ شہر بھی کچھ کم نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ بیسل اسپینس کا نیا کووینٹری گرجا گھر آج مذہبی یا آرٹ کے اعتبار سے فعال ہے یا نہیں۔

لیکن اب ایک مسئلہ ہے۔ اگر ایک انسانی جان بھی تمام سیاروں سے قیمتی ہے تو ہم بدھا کے مجسموں، رومی شہروں اور گرجا گھروں اور مساجد کی تباہی پر رنجیدہ کیوں ہیں؟ بلاشبہ دیگر چیزوں کی 'بربادیوں’ کے مقابلے میں کلچر کی بربادی (کلچر سائیڈ) کو ہماری ترجیحات میں سب سے نیچے ہونا چاہیے۔ مگر یہ تو ہماری اہم ترین ترجیحات میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ ہمارے بچوں کے ورثے کو بچانے کا اعادہ بار بار کرتی نظر آتی ہے۔

لیکن اسے سلیونکا ڈریکولک نامی ایک کروشیئن خاتون کی زبانی ہی سب سے بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے، جنہوں نے اسی سوال کے بارے میں اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ستاری موسٹ پل کی تباہی کے ایک ماہ بعد لکھا تھا۔ انہیں یاد آتا ہے وہ لمحہ جب وہ ایک ادھیڑ عمر کی بوسنیائی خاتون کی تصویر دیکھ رہی تھیں 'جو ایک بڑے خنجر سے اپنا گلا کاٹ رہی تھی’ تب انہوں نے خود سے پوچھا کہ اسے خاتون کی تصویر سے زیادہ تکلیف تباہ حال پل کی تصویر کو دیکھ کر کیوں ہوئی۔

اور اس خاتون نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مر جائیں گے۔ ہمیں اپنی زندگیوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا مگر کسی تہذیب کی یادگار کی تباہی البتہ ایک بالکل ہی الگ بات ہے۔ وہ پل اپنی خوبصورتیوں کے ساتھ ہمیں زمانوں تک زندہ رکھنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا یا یوں کہیں کہ یہ لازوالیت کے حصول کی ایک کوشش تھی۔ کیونکہ یہ پل انفرادی تخلیق اور اجتماعی تجربات کا ثمر تھا، جس نے ہماری انفرادی تقدیر کو بلند کیا۔ آپ سوچیں گے کہ عقوبت خانوں اور عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں، نسلوں کے خاتمے کے بعد اب ظلم و ستم کی کوئی صورت باقی نہیں بچی۔ ان حالات میں کسی تخیل کی گنجائش کہاں بچے گی۔’

اور مسلمانوں کے لیے، مقدر اور دوام کلام پاک قرآن کے موضوعات ہیں، جو 27 رمضان المبارک یعنی لیلۃ القدر میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا تھا۔ اس رات کو اسلامی کیلنڈر میں سب سے زیادہ مقدس مانا جاتا ہے۔ اور اس سال اسی رات کو بارہویں صدی کے موصل کے جھکے ہوئے مینارے کو بم دھماکوں سے زمین بوس کر دیا گیا۔

—بشکریہ دی انڈیپینڈنٹ

یہ مضمون یکم جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

رابرٹ فسک

رابرٹ فسک برطانوی اخبار دی انڈیپینڈینٹ سے وابستہ صحافی اور مصنف ہیں، اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔