کامریڈ جام ساقی : سکہ بند سیاست سے جمہوری سفر کی تاریخ
جام ساقی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (امام علی نازش، جمال نقوی گروپ) کے ایک اہم رہنما رہے ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد طلبہ فیڈریشن، سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اور کراچی کے کمیونسٹ گروپ سے ایوبی دور میں انقلابی سیاست کا آغاز کیا، ہاریوں اور مزدوروں میں کام کیا، ایوب یحییٰ، بھٹو، ضیاء کے ادوار میں جیل بھگتی اور پھر 1991 میں کمیونسٹ گروپ کو خیر باد کہا۔
ذوالفقار علی بھٹو سے ان کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ جب مئی 1966 میں بھٹو لاہور سے پیپلز کنونشن کرنے کے بعد 13 دسمبر کو حیدرآباد آئے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں شامل چند ناموں میں ایک جام ساقی بھی تھے۔
بھٹو کے بارے میں ہمیشہ سے ان کا نرم گوشہ رہا۔ 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں پاکستان بھر کے ترقی پسندوں کی ایک بڑی تعداد سکہ بند سیاست پر مبنی انقلابی گروہوں کے بجائے بھٹو کی عوامی سیاست کے باوجوہ اسیر ہوئے۔
اس کی ایک بڑی وجہ 1966 میں نیشنل عوامی پارٹی کا روس چین مخاصمت کی وجہ سے ٹوٹنا بھی تھا، جس کے بعد بائیاں بازو ہر آنے والے سال میں تقسیم در تقسیم کا شکار رہا۔ یہ وہ تجزیہ پے جس سے بائیاں بازو تاحال صرف نظر کرتا رہا ہے۔
1991 میں جب انہیں سکہ بند سیاست سے رہائی ملی تو وہ پہلے لال خاں گروپ کے نزدیک ہوئے اور پھر بے نظیر بھٹو سے قرابت کا زمانہ آیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں جب موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کے والد عبداللہ شاہ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ تھے تو جام ان کے مشیر بنے۔ اب وہ عوامی و جمہوری سوشلزم کے قائل تھے۔ ان کی سوانح ایک سیاسی کارکن کی جدوجہد کی کہانی بھی ہے اور سکہ بند سیاست سے جمہوری سفر کی تاریخ بھی۔
20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے اس سیاسی کارکن کی داستان نزہت عباس نے رقم کی ہے، جو برطانیہ سے پاکستان آکر ان کے طویل انٹرویوز کرتی رہیں۔ ان کو یہ خیال اس وقت آیا جب ایک اسلام آبادی این جی او نے جام پر کتاب لکھنے کے لیے اس انقلابی رہنما کو اسلام آباد بلایا اور پھر کتاب تیار نہ ہوئی۔
نزہت کو یہ بات کھلنے لگی اور اُس نے اِس 'فقیر' پر کتاب لکھنے کا قصد کیا۔ ان طویل انٹرویوز میں جام کے بیٹے سارنگ کا انہیں ساتھ رہا۔ جام کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حیدر آباد کس قدر سیاسی اور متحرک شہر تھا، مگر ضیا شاہی اور ایم کیو ایم کی سیاست اس شہرِ بے کراں کو کھا گئی۔
میں 1980 کے دہائی کے آخری سالوں سے 2006 تک کئی بار اس شہر گیا ہوں اور اس کے بتدریج تباہ ہونے کا زمانہ یہی ہے۔ جام کی کتاب محض ترقی پسندوں کی جدوجہد کی داستاں ہی نہیں بلکہ اس میں بہت سے اسباق بھی پوشیدہ ہیں۔
جام کا یہ استدلال جاندار ہے کہ سکہ بند کمیونسٹ گروپ پاکستان میں عوامی سیاست کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ماسکو نواز کمیونسٹوں کے حوالے سے یہ تجزیہ کافی حد تک درست ہے۔ دوسری طرف چین نواز تھے جو دوسری انتہا کو چھونے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن سے لے کر قومی اتحاد اور بھارت میں بی جے پی کی حمایت تک یہ داستان جنوبی ایشیا میں بکھری پڑی ہے۔