کیا پی ٹی آئی 2018 میں مسلم لیگ ن کی جگہ لینے کے لیے تیار ہے؟
ہندوستانی سیاست کے مبصرین اتر پردیش میں بھارتی جنتا پارٹی کی شاندار فتح سے دو نتائج اخذ کرتے ہیں۔
پہلا تو یہ کہ فتح کے مارجن سے واضح ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اور بی جے پی کو 2019 میں دوبارہ منتخب ہونے کے لیے فیوریٹ ہیں۔ دوسرا یہ کہ غیر مؤثر راہول گاندھی کے تحت کانگریس کا زوال اب ایک واضح حقیقت ہے۔ اور اگر یہ زوال ایسے ہی جاری رہا، تو توقع ہے کہ بی جے پی وہ واحد جماعت رہ جائے گی جو خود کو قومی سطح کی جماعت کہلوا سکے گی۔
بی جے پی جنوبی ایشیاء میں کئی طرح سے ایک منفرد جماعت ہے۔ جیسا کہ طارق تھاچل نے اس کی خصوصیات بیان کی ہیں، یہ ایک قومی جماعت ہے جس کا تنظیمی ڈھانچہ 'بہت مضبوط' ہے۔
یہ مقامی اشرافیہ اور سرپرستانہ سیاست پر انحصار کرنے کے بجائے خود سے ملحقہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جیسی دائیں بازو کی سماجی اور مذہبی تنظیموں کے ایک بڑے نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرتی ہے۔
چنانچہ اس کے کئی نئے رہنما، مثلاً اتر پردیش کے نئے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ اس طرح کی ذیلی تنظیموں کی صفوں سے اٹھتے ہیں اور پھر بی جے پی کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے ہیں۔
پارٹی کا یہ ڈھانچہ نہ صرف ووٹرز اکھٹے کرنے میں مدد دیتا ہے، بلکہ قیادت کی جانشینی کے بنیادی مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ چنانچہ دوسری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ بی جے پی جنوبی ایشیاء کی ان گنی چنی جماعتوں (اور شاید واحد قومی جماعت) میں سے ہے جس میں قیادت موروثی بنیادوں پر منتقل نہیں ہوتی۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بی جے پی میں موروثی سیاستدان موجود نہیں ہیں: کنچن چندرا کے مطابق پارٹی کے 15 فیصد کے قریب ارکانِ پارلیمنٹ اپنے خونی رشتے داروں کی وجہ سے سیاست میں آئے ہیں۔ لیکن پھر بھی پارٹی کے دس سربراہان اور دو وزرائے اعظم کو بجائے موروثی بنیادوں پر عہدوں سے نوازنے کے تاریخی طور پر قومی اور ریاستی سطح کے سیاستدانوں کے گروہ میں سے منتخب کیا گیا۔
پارٹی کی سربراہی کون کرے گا، اس سوال کا منظم (اور کسی حد تک میرٹ پر مبنی) حل پیش کر کے بی جے پی نے حتمی طور پر قابلِ ذکر فوائد حاصل کیے ہیں۔ جیسے ہی اس کا سامنا ایک نااہل قیادت کے بوجھ تلے دبی ہوئی کانگریس سے ہوا تو اس کے لیے کانگریس کو اقتدار سے نکال باہر پھینکنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ کانگریس کے لیے، اندرا کے لیے، راجیو کے لیے، اور یہاں تک کہ کچھ حد تک سونیا گاندھی کے لیے بھی ماضی میں موروثی سیاست کافی فائدہ مند رہی مگر اب یہ خاطر خواہ فائدہ پہنچانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
ہندوستان میں قیادت کی منتقلی کا ذکر کرنے کا مقصد پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت میں مستقبل کی رسہ کشی کا سیاق و سباق پیش کرنا ہے۔ 2018 کے انتخابات صرف ایک سال کے فاصلے پر ہیں، اور یہ جمہوریت کو پاکستان کے واحد سیاسی نظام کے طور پر راسخ کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ اس کھیل میں قومی سیاسی جماعتوں کا استحکام اور ان کا قائم رہنا بھی نہایت اہم ہے۔
رائے شماری کے سرویز اور 2015 کے بلدیاتی انتخابات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کم از کم پنجاب میں تو مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری ہے۔ یہ جماعت قیادت کی پہلی دفعہ منتقلی کے لیے غیر رسمی طور پر وزیرِ اعظم کی بیٹی کو مرکز میں جبکہ وزیرِ اعلیٰ کے بیٹے کو پنجاب میں سامنے لا رہی ہے۔ اب طویل مدت میں پارٹی کی انتخابی قسمت ان دو افراد کی اندرونی خاندانی جھگڑوں کو سلجھانے کی قابلیت اور پارٹی کے بڑوں کی اخلاقی حمایت پر منحصر ہے۔
لہٰذا ہم اپنے پچھلے نکتے پر واپس آتے ہیں: بی جے پی نے یہ طویل کھیل قیادت کی منظم انداز میں منتقلی کے ذریعے کھیلا، اور کانگریس کے اپنی قیادت کی وجہ سے زوال پذیر ہونے کا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کے معاملے میں کیا پی ٹی آئی — وہ واحد جماعت جو فی الوقت قومی اہمیت (خصوصاً پنجاب میں مقبولیت) رکھتی ہے، ن لیگ کے زوال پذیر ہونے پر فتح کے لیے تیار ہے؟
2018 کے انتخابات میں عمران خان 65 سال کے ہوجائیں گے۔ وہ اب بھی جسمانی طور پر تندرست ہیں، مگر ان کی جماعت نہیں ہے۔ زیرِ سطح کئی ابال ہیں جو اس جماعت میں اٹھ رہے ہیں۔ مختلف مواقع پر پارٹی میں آنے والے کئی قائدین ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ چند لوگ اپنی رنجشوں کا عوامی سطح پر اظہار کر چکے ہیں، جبکہ کچھ دیگر آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
اب بھی ایسا کوئی جانشین سامنے نہیں آیا ہے جو ووٹروں اور دیگر رہنماؤں کے درمیان اخلاقی طور پر اتنا ہی مقبول ہو جتنے کہ عمران خان ہیں۔ ایک ایسی جماعت جو خود مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ شروع ہوئی تھی تاکہ درمیانے درجے کے رہنماؤں کی تربیت کر کے انہیں تیار کیا جا سکے، اب قابلِ انتخاب اور بڑے نام رکھنے والے سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔
چنانچہ اگر موجودہ حکومت چلی بھی جاتی ہے، تب بھی پی ٹی آئی کے اس جماعت کے نعم البدل کے طور پر سامنے آنے کی صلاحیت پر اثرات پڑتے ہیں۔ تصور کریں کہ مسلم لیگ ن میں قیادت کی منتقلی آپسی جھگڑوں یا جانشینوں کی جانب سے ووٹروں اور پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتی۔
جنوبی ایشیاء میں تاریخی طور پر اس کی وجہ سے جماعتیں دھڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ اندرا گاندھی کے دور میں کانگریس کے ساتھ بھی یہی ہوا، جبکہ بینظیر کے حکومت میں آنے کے بعد پی پی پی میں بھی کچھ حد تک یہی ہوا، اور نواز شریف کی فتح کے بعد مسلم لیگ میں بھی یہی ہوا۔ اگر اگلے سال ن لیگ دوبارہ منتخب ہوتی ہے، تو 2018 اور 2023 کے بیچ میں ایسا کچھ ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کے لیے اس کا مطلب بحیثیت اپوزیشن ایک اور پارلیمانی دور گزارنا اور اس دوران اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنا ہے۔ مگر 70 کی عمر کو پہنچتے ہوئے رہنما کے ساتھ۔ کوئی بھی سیاستدان، چاہے وہ ایتھلیٹ ہی کیوں نہ رہ چکا ہو، 70 سال کی عمر تک اپنی پارٹی کو تنِ تنہا قائم رکھ کر لڑائی جاری نہیں رکھ سکتا۔ ان سے ایسی توقع رکھنا بے وقوفی ہوگی۔
چنانچہ پارٹی کے لیے ابھی سے خود کو منظم کرتے ہوئے قیادت کی منتقلی کی تیاری کرنا نہ صرف اس کے اپنے حامیوں کے لیے، بلکہ پاکستانی جمہوریت کی صحت کے لیے بھی ضروری ہے۔
جمہوریت سیاسی جماعتوں کے مضبوط اور مستقل مزاج مقابلوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو موروثی سیاست اخلاقی طور پر بری لگتی ہو، مگر یہ ملک میں موجود ایک طرح کی جماعتوں میں قیادت کی منتقلی کا ایک نسخہ ضرور ہے۔
اگر پی ٹی آئی کے قیام کا مقصد ان روایتی سیاسی جماعتوں کو انتخابی میدان میں شکست دینا ہے، تو اسے اپنے اندر قیادت کی منتقلی کا نسخہ تیار کرنا ہوگا، چاہے وہ موروثی ہو یا میرٹ کی بنیاد پر، تاکہ یہ دوسروں کی سیاسی ناکامیوں کا بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔
فی الوقت یہ ایسا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔