نقطہ نظر

ہندوستان اور اسرائیل گٹھ جوڑ: مگر کس کے خلاف؟

ہندوستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ چین اور اسرائیل کے مشترکہ دفاعی پیداوار کے منصوبوں پر ہل کر رہ گئی ہے۔

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی رواں سال جولائی میں اسرائیل کا دورہ کریں گے، مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیراعظم ہوں گے اور یہ اس دورے کی اہمیت کی واحد وجہ نہیں بلکہ اس دورے کی سب سے اہم بات فلسطین کو یکسر نظر انداز کیا جانا ہے۔

اس سے پہلے روایت رہی ہے کہ کوئی بھی ہندوستانی وفد تل ابیب کا دورہ کرتا تو وہ جاتے ہوئے یا واپسی پر فلسطینی حکام سے ضرور ملاقات کرتا تھا۔ مودی یہ دورہ ہندوستان اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کے پچیس سال مکمل ہونے پر کر رہے ہیں۔

مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں تب سے وہ اور ان کے وزراء اس بات کا دعویٰ کرتے رہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھیں گے لیکن ان کے اس دعوے کی قلعی اس وقت کھل گئی تھی جب ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد پر ووٹ دینے کے بجائے غیر حاضری مناسب جانی۔ یہ قرارداد غزہ میں فلسطینیوں کے قتلِ عام پر پیش کی گئی تھی۔ ہندوستان نے رائے شماری سے غیر حاضری کا جواز یہ پیش کیا کہ اس قرارداد میں عالمی عدالت انصاف کا ذکر تھا جسے وہ تسلیم کرتا ہے نہ اس کا رکن ہے۔

اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات اچنبھے کی بات نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسرائیل ہندوستان تعلقات کو مودی کے پیشرو وزرائے اعظم عوام کی نظروں کے سامنے لائے بغیر پروان چڑھاتے رہے۔ اسرائیل ہندوستان تعلقات میں مضبوطی کے لیے پس پردہ ہونے والے کام میں پہلی بار تیزی بی جے پی کی حکومت ہی لائی تھی اور یہ 1998 سے 2004 تک کا دور تھا۔

ہندوستان پہلی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو عوامی سطح پر بی جے پی حکومت کے دوران ہی نمایاں طور پر سامنے لایا اور 2000 میں دونوں طرف سے اعلیٰ سطح کے وفود کا تبادلہ ہوا اور پہلی بار ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے تل ابیب کا دورہ کیا، اس دورے کے موقعے پر جسونت سنگھ نے کہا تھا کہ ہندوستان اسرائیل تعلقات میں پیشرفت شعوری تبدیلی ہے۔

بی جے پی کے پہلے دورِ حکومت میں ہندوستان اسرائیل تجارت کا حجم 67 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے تین گنا بڑھ کر دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ منموہن سنگھ کی سربراہی میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت کے دوران تجارتی تعلقات اگرچہ برقرار رہے تاہم ہندوستان کا کوئی اعلیٰ سطحی وفد تل ابیب کے دورے پر نہیں گیا۔ منموہن حکومت نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی قراردادوں کی حمایت بھی جاری رکھی۔

دونوں ملکوں کے اعلٰی عہدیداروں کے دورے نہ ہونے کے باوجود دو طرفہ تجارتی، سفارتی اور سیکیورٹی تعلقات فروغ پاتے رہے، مودی کا دورہ تل ابیب صرف فوٹو سیشن نہیں ہوگا بلکہ یہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں گہری اور نمایاں تبدیلی کا پیش خیمہ ہے، دونوں ملکوں کے حکام امید لگائے ہوئے ہیں کہ اس دورے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا نیا باب شروع ہوگا۔

یہ امیدیں کس حد تک پوری ہوتی ہیں اس کا انحصار دونوں ملکوں کی خواہشات کے بجائے مفادات اور عالمی سیاست میں روز بروز ہونے والی تبدیلیوں پر ہے۔

ہندوستان نے 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات کی ابتدائی نوعیت بہت مختلف تھی، ہندوستان نے پچھلی صدی میں اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ تعلقات میں توازن کی ظاہری کوشش کی، ہندوستان کی اس پالیسی کو عرب نواز پالیسی بھی کہا جاتا رہا۔

عرب نواز پالیسی دکھاوے کی تھی، جس کا ثبوت 1962 میں چین اور 1965 میں پاکستان کے ساتھ جنگ میں ہندوستان کو ملنے والی اسرائیلی امداد بھی ہے۔ دونوں جنگوں میں اسرائیلی مدد کے باوجود ہندوستانی حکومتوں نے بظاہر اسرائیل مخالف رویہ برقرار رکھا کیونکہ 1966 کے انتخابات کے بعد اندرا گاندھی کی حکومت بنی جو چھوٹی جماعتوں کی حمایت بالخصوص کمیونسٹ گروپوں کی مرہون منت تھی۔

یہ چھوٹے گروپ اور کمیونسٹ جماعتیں اسرائیل کی مخالف تھیں۔ اسی وجہ سے ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں 1970 میں بگاڑ آیا۔ 1974 میں جب عرب لیگ نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینیوں کی واحد قانونی نمائندہ قرار دیا تو ہندوستان نے اس کی حمایت کی اور پی ایل او کو نئی دہلی میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی، یہی دفتر 1980 میں سفارت خانہ قرار پایا۔

ہندوستان اسرائیل دفاعی تعاون 1960 کی دہائی میں ہونے والی جنگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پابندیاں عائد ہوئیں تب بھی اسرائیل ہندوستان کو دفاعی سامان مہیہ کرتا رہا۔ کارگل جنگ میں بھی اسرائیل نے پاک فوج کی پوزیشنز کی سیٹلائٹ تصاویر ہندوستان کو مہیہ کیں، گزشتہ سال ہندوستان نے اسرائیل سے ایسے حساس رڈار حاصل کیے جو گھنے جنگل میں بھی انسانوں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت کا پتہ چلا سکتے ہیں، یہ رڈار لائن آف کنٹرول پر نصب کیے گئے۔

اس کے علاوہ ہندوستان اسرائیل سے میزائل دفائی نظام، اواکس طیارے خرید چکا ہے، دونوں ملکوں نے کئی مشترکہ دفاعی منصوبے شروع کر رکھے ہیں اور ہندوستانی میزائل پروگرام میں اسرائیل کی ایرواسپیس انڈسٹریز تعاون کر رہی ہے۔

1992 میں وزیراعظم نرسمہا راؤ کے دور میں ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار کیے جو ہندوستان کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں بڑی تبدیلی تھی۔

آج ہندوستان اسرائیل تعلقات اس قدر گہرے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم پچھلے پانچ سال سے چار ارب ساٹھ کروڑ ڈالر ہے۔ 2007 سے دونوں ملک آزاد تجارت معاہدے پر مذاکرات کر رہے ہیں اور اسرائیلی وزیرِ تجارت نے 2013 میں کہا تھا کہ اگر معاہدہ طے پا گیا تو دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارتی حجم دس ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ معاہدہ طے نہ پانے کی وجہ ہندوستان کے تحفظات ہیں کہ اس سے مقامی صنعت متاثر ہو گی۔

تجارت سے ہٹ کر دونوں ملکوں کے تعلقات بنیادی طور پر دفاعی شعبے میں ہیں، سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ہندوستان نے محسوس کیا کہ اس کے پاس موجود روسی اسلحہ اب جدید جنگی تقاضوں کے مطابق نہیں، دوسری طرف اسرائیل کی دفاعی صنعت بھی جدید لڑاکا طیاروں، ٹینکوں اور بحری جہازوں کی تیاری میں قدم بڑھا رہی تھی۔ یہی موقعہ تھا جب دونوں ملکوں نے پس پردہ وسیع فوجی تعاون کو فروغ دیا۔

2012 میں ہندوستان اسرائیل دفاعی تعاون کا تخمینہ 9 ارب ڈالر لگایا گیا۔ اسرائیل سالانہ ایک ارب ڈالر کا فوجی سامان ہندوستان کو فروخت کر رہا تھا۔ گزشتہ سال فروری میں ٹائمز آف انڈیا نے ایک خبر شائع کی تھی کہ ہندوستان کی کابینہ کمیٹی برائے دفاع نے اسرائیل سے تین ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کی منظوری دی ہے، یہ معاہدہ میزائل ٹیکنالوجی سے متعلق تھا۔ اس ڈیل کے بعد اسرائیل ہندوستان کو اسلحہ فراہم کرنے والے تین بڑے ممالک میں شامل ہو گیا۔

ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ گہرے دفاعی تعلقات کو قومی سلامتی کی آڑ میں چھپائے رکھا تاکہ اندرونی طور پر اپوزیشن کے دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ہندوستان کے انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز سے منسلک دفاعی ماہر سیموئیل راجیو کے مطابق ہندوستان مسلم آبادی کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک ہے، مسلمانوں کی اکثریت فلسطین کے لیے جذباتی ہے، اسی لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو پس پردہ پروان چڑھایا گیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں حزبِ اختلاف جماعتوں کے سیاست دانوں کی بڑی تعداد کمیونسٹ گروپوں یا اقلیتیوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے سیاسی دباؤ بھی لازم تھا۔

2004 میں جب بی جے پی اقتدار سے محروم ہوئی تو خیال تھا کہ کانگریس کی سربراہی میں بننے والی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کو روک دے گی لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا۔

کانگریس حکومت نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے اگرچہ اقوام متحدہ کے فورم پر اسرائیل فلسطین تنازعے کے حوالے سے ہندوستان فلسطین کاز کو بظاہر سپورٹ کرتا رہا۔ اس پر اسرائیلی حکومت کو تحفظات بھی رہے، اسی لیے جب 2014 کے انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہوئی تو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پرجوش خیر مقدم کیا۔

مودی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے فوری بعد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر نیتن یاہو سے ملاقات کی، 2015 میں ہندوستان نے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ سے غیر حاضری کا فیصلہ کیا جس نے فلسطین کو بہت مایوس کیا اور اس کا اظہار نئی دہلی میں فلسطینی سفیر نے بھی کیا اور کہا کہ ہندوستان اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کی وجہ سے اپنا مؤقف بدل رہا ہے۔ اس کے تین ماہ بعد ہندوستانی صدر پرناب مکھرجی نے اسرائیل کا دورہ کیا جو اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی صدر تھے۔

مودی کے دورہ اسرائیل پر مشرقِ وسطیٰ سے کوئی ردِ عمل فوری طور پر سامنے نہیں آیا کیونکہ ہندوستانی پالیسی پر بڑا رد عمل مصر، شام اور عراق سے متوقع تھا جو اپنے اندرونی مسائل اور دہشتگردی سے لڑنے میں مصروف ہیں۔

مودی کے دورہ اسرائیل کو بہت زیادہ اہمیت کیوں دی جا رہی ہے؟ اس کا جواب خطے میں ہونے والی نئی صف بندی میں پوشیدہ ہے۔

ہندوستان، جس کا طویل عرصے تک روسی ہتھیاروں کے حوالے سے جنوبی ایشیا میں اجارہ تھا وہ اسے ختم ہوتا نظر آرہا ہے، کیونکہ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گرم جوشی آ رہی ہے اور پاکستان روس دفاعی تعاون کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔ ہندوستانی فوج، جس کا بڑا انحصار روسی ساختہ اسلحہ پر تھا، پاک روس دفاعی تعاون سے پریشان ہو چکی ہے۔

ہندوستان کے لیے ہتھیاروں کی بڑی مارکیٹ امریکا ہو سکتی ہے لیکن پاکستان بھی امریکی اسلحے کا خریدار ہے، نئی دہلی نے اس صورت حال میں تل ابیب کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

مودی نے نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران دورہ تل ابیب کا وعدہ کیا لیکن ایفا کرنے میں دو سال لگا دیے، گزشتہ سال خود جانے کے بجائے صدر مکھرجی کو بھجوایا اور رواں سال جنوری میں سُشما سوراج دورہ کرنے گئیں، اب بھی مودی کے دورے کی تاریخ طے نہیں، صرف اتنا کہا جا رہا ہے کہ جون میں دورہ ماسکو کے بعد مودی تل ابیب جائیں گے۔

دورہ ماسکو بھی خطے کی نئی صف بندی کو جانچنے کا حصہ ہے۔ اسرائیل جانے میں تاخیر کی بڑی وجہ چین اسرائیل تعلقات ہیں، مودی سوچ بچار اور رابطوں میں لگے رہ گئے اور اس عرصے میں بیجنگ نے اسرائیلی دفاعی صنعت کو پرکشش ترغیبات دیں اور اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کر دیے۔

ہندوستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، چین اسرائیل مشترکہ دفاعی پیداوار کے منصوبوں پر ہل کر رہ گئی ہے، کیونکہ ان کے خیال میں کوئی بھی ہتھیار چین تک پہنچنے کا صاف مطلب ہے کہ وہ پاک فوج کے ہاتھوں میں بھی پہنچ جائے گا۔ ہندوستانی سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اسرائیل اشتراک کے بعد تل ابیب اور نئی دہلی کا دفاعی تعاون مؤثر نہیں رہے گا۔

اسرائیل کی ایرواسپیس انڈسٹریز ( آئی اے آئی) کا دعویٰ ہے کہ چین میں اس کی صنعت خالصتاً سول مقاصد کے لیے ہے کیونکہ چین اپنی فضائی کمپنی کے جہازوں کی تعداد دوگنا کر کے ملک میں ہوائی اڈوں کی تعداد اگلے دو عشروں میں ساٹھ تک لے جانا چاہتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اسرائیل دفاعی تعاون نئی دہلی اور تل بیب فوجی تعاون بہت پرانا ہے۔ اسرائیل کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ چین کو فوجی سامان برآمد کرنے والا دوسرا بڑا، جبکہ روس پہلا بڑا ملک ہے۔

ہندوستان کو دفاعی سامان فراہم کرنے والی اسرائیلی کمپنیوں کا چین کی طرف جھکاؤ مودی کے دورِ حکومت میں ہندوستان کے لیے دوسرا بڑا دھچکا ہے، پہلا دھچکا نئی دہلی کو اس وقت لگا جب مودی کو اقتدار سنبھالے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ روس کے وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچے اور پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔

اس دورے کے نتیجے میں ہی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف گزشتہ سال روس گئے اور روسی فوج کی مشقوں کے معائنہ کے بعد فوجی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔

اس کے ساتھ ہی روس نے پاکستان سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی ضروریات کے لیے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر مہیہ کرے گا۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ابھی تک ایف 16 طیاروں پر انحصار کیے ہوئے ہے، لیکن ایف 16 طیاروں سے ہونے والی بمباری میں سویلین ہلاکتوں کا خدشہ موجود رہتا ہے جبکہ ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر نچلی پرواز سے ٹھیک ٹھیک نشانے کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ روایتی جنگ میں بھی ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر ٹینک شکن کا کام دینے کے ساتھ اپنی سرحد کے اندر رہتے ہوئے دشمن کے پیش قدمی کرتے ٹینکوں کو بھی ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔ روس نے ابتدائی طور پر چار ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے ساتھ مزید 20 ہیلی کاپٹر دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

روس کے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر ہندوستان کے علاوہ برازیل، وینزویلا اور آذر بائیجان کے زیرِ استعمال ہیں۔ ان تمام ملکوں سے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹروں کی پاکستان منتقلی کا کبھی امکان نہیں رہا۔

مودی نے اسرائیلی فوجی سامان کی خاطر ہندوستان کی ’’غیر جانبدار‘‘ پالیسی بدلی اور تل ابیب کی خوشنودی کے لیے نیتن یاہو کی خوشامد کے ساتھ نئی دہلی میں ہونے والی دفاعی نمائش میں اسرائیلی کمپنی آئی اے آئی کے اسٹال پر تصویر بنا کر جاری کی، اس تصویر کو مودی کے میڈیا مینجرز نے اسرائیل کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد اور گرم جوش دوستی کے عوامی اظہار کا عکاس قرار دیا۔

اب یہی اسرائیلی کمپنی چین میں فیکٹری لگا چکی ہے اور مودی کی ڈپلومیسی، سیاسی حکمت عملی ان کے لیے دردِ سر بن گئی ہے۔ مودی عالمی سفارتکاری میں بھی چکنی چپڑی باتوں سے کام چلانا چاہتے تھے، اب دیکھنا ہوگا کہ جون میں ماسکو کے بعد تل ابیب یاترا میں انہیں کیا کامیابی ملتی ہے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔