نقطہ نظر

افسانہ 'سیلن' (تیسری قسط)

ریو میں پھول وافر مل جاتے ہیں۔ کھلے پھول جن پر بارش کی بوندیں برسیں یا آنسو گرتے رہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ڈان نیوز کے قارئین کے لیے افسانوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جس میں سب سے پہلا افسانہ 'سیلن' ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کے دل کی کیفیت ہے جو یورپ میں اپنی محبت کو چھوڑ کر واپس برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں آ بسا ہے۔ اپنی آراء اور تجاویز سے ہمیں blog@dawn.com پر ضرور آگاہ کیجیے۔

گذشتہ اقساط یہاں ملاحظہ کیجیے۔


یہ صرف میلے کی بات نہیں ہے بلکہ میری ناپسندیدگی رقص کی گرمی سے بھی متعلق ہے۔

گرمی ایسی چیز ہے جو ہر چیز کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے، چاہے وہ تعلقات ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی ہے اور اس کشمکش میں نمی کا بھی کوئی حساب نہیں رہتا، کوئی سلوک بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہر چیز پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور کوئی شے قابو میں نہیں رہتی۔ یہ آپے میں نہیں رہتی۔

گرمی اور نمی مل جائیں تو ٹھوس اشیاء بھی بہہ نکلتی ہیں۔ سیال ہو جاتی ہیں۔ لاوا بن جاتی ہیں۔ ہنستے بستے گھر پگھل جاتے ہیں، کاغذ کے ٹکڑے جن پر وعدے وعید لکھے ہوتے ہیں، بجھ جاتے ہیں اور یادگار تصویروں کا بھی رنگ اڑ جاتا ہے۔

پھر تراب بھی ہوتا ہے۔ نامیاتی مٹی، جس میں نمی جیسے ٹھہر کر رہ جاتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ایسی مٹی زر خیز ہوتی ہے، زمین کو ہرا بھرا رکھتی ہے۔ ایسی مٹی میں ہر چیز گل سڑ کر مٹی ہو جاتی ہے جس سے نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ نباتات اگتے ہیں جن کا شوربہ ہم پیتے ہیں اور اپنے جسموں کو طاقت بخشتے ہیں۔ بس یہی چیز مجھے چوبھ لگاتی ہے۔

زمین مردار خور ہوتی ہے۔ یہ سینے پر چلنے، پلنے والے زندوں کو مار کر کھا جاتی ہے۔ جو حال ماضی بن جاتا ہے، اس پر پلتی ہے۔ نمی ایسی چیز ہے جو یاد کو بھی نگل جاتی ہے۔ اس کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ سیدھے رستے پر نہیں چلتی، ڈگر بدل دیتی ہے۔ یہ لمبا راستہ اختیار کرتی ہے، عرصے تک زندہ رہتی ہے اور چیزوں کو گھیر گھار لیتی ہے۔

بیسیوں سال تک زندوں کا پیچھا کرتی ہے اور پھر جب اچانک آن لیتی ہے تو پھر ایک لمحے کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے، اجسام رطوبت میں تبدیل ہو کر اڑ جاتے ہیں اور ان کی یاد بھی کچھ عرصے بعد پہلے مدھم ہوتی ہے اور پھر بھک سے یوں اڑ جاتی ہے جیسے بھاپ ہو۔

یہ تو فضا کی نمی ہے۔

دیکھو تو، ہمارے اندر بھی رطوبتیں ہیں، نمی ہے۔

انسان بہت عرصے تک یہ مانتا چلا آیا ہے کہ جسم کے اندر صرف چار قسم کی رطوبتیں ہوتیں ہیں۔ خون، بلغم، کرودھ اور سودا۔ اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ صحت مند شخص وہ ہے جو ان چار اقسام کی رطوبتوں میں توازن برقرار رکھے۔ بیمار آدمی کے ہاں یہی رطوبتیں انتشار کا شکار ہوتیں۔

کتنی سادہ سی بات تھی، صحت کا تعلق صرف ان چار جسمانی رطوبتوں سے جڑا ہوتا تھا۔ میں سوچتا ہوں، کیا ریو کے باسیوں کا خمیر ابھی تک اسی زمانے میں پڑا ہے جہاں سے ٓیہ اٹھا تھا؟

رطوبتوں سے، اندر اور باہر کی نمی سے؟ کیا نم دار جسم اور سیلی محبتیں ہی ان کا خاصا ہے؟

گھر کو سدھارنے میں ابھی کتنا کام پڑا ہے اور یہ سوچیں پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔ کتابوں کے بنڈل ابھی تک زمین پر بکھرے ہیں۔

میں صفائی کا کپڑا ہاتھ میں اٹھائے جوں کا توں کمرے کے وسط میں بت بنا کھڑا ہوں۔ غارت ہوں، یہ سوچیں ٹھہری ہوئی کہانی کو جاری نہیں رہنے دیتیں۔

کاش، اے کاش میری جان ان سوچوں سے چھوٹے تو میں وہ زندگی جو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہوں، اسے وہیں چھاڑ کر دوبارہ شروعات کر سکوں۔

ان بے تکان سوچوں کے ساتھ ساتھ ریو میں بھی کئی چیزیں مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔ مثلاً جب گرمی کا موسم اپنی جوبن پر ہوتا ہے تو شہر کی عمارتوں سے پانی رستا رہتا ہے۔ ایسے میں یہ شہر بہت بھدا ہو جاتا ہے۔

پھر میں یہاں عجیب و غریب خواب دیکھتا رہتا ہوں۔ خواب میں ویسے تو سمندر شانت ہوتا ہے۔ مگر پھر اچانک لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ لپٹیں کھاتی اس طرح بڑی ہوتی جاتی ہیں جیسے کوئی کھڈی کی لوم پر لپٹتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ لہروں سے خوف آنے لگتا ہے۔

اتنا ڈر لگتا ہے کہ چاہے جہاں بھی ہوں، ریت پر دراز، گشت کرتا ہوں یا سمندر کنارے تیر رہا ہوں، یہ اپنے ساتھ گہرے پانی میں کھینچ لیتی ہیں۔ لہروں کے اندر پہلے تو صرف سفید جھاگ نظر آتی ہے مگر پھر یکدم دنیا جیسے گھومتی ہوئی، رقصاں اور سحر میں جکڑتی جاتی ہے۔

ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ میں خود کو گھڑ مچھلیوں، سیپیوں اور مونگوں کے ساتھ تیرتا ہوا پاتا ہوں۔ جب یہ فسوں ٹوٹے تو یک دم تاریکی چھا جاتی ہے اور آنکھ کھل جاتی ہے۔ جسم پسینے میں شرابور، اچھا خاصا نم زدہ ہوتا ہے۔ کمبل الجھا ہوا اور تکیہ فرش پر رل رہا ہوتا ہے۔ اس حالت میں خود سے پوچھے بغیر رہ نہیں پاتا کہ، 'آخر تم یہاں ریو میں میرے ساتھ کیوں نہیں ہو؟'

میں ہر جمعے کو پھول خریدا کرتا تھا۔ پچھلے ہفتے کے سوکھے پھول نکال کر گلدان میں تازہ گلدستہ سجا لیتا۔ تب یہ پھول اس نمی کی ماری دنیا میں، سیلی فضاؤں میں میرے لیے تازگی کا سامان ہوا کرتے تھے۔

میرے اندر کی خشک دنیا میں ان پھولوں کی نمی زندگی کا سامان بن جایا کرتی تھی۔ اس شہر میں پھول وافر مل جاتے ہیں۔ کھلے لب دار، دو برگے پھول جن پر بارش کی بوندیں برسیں یا آنسو گرتے رہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ نمی کو جذب کر لیتے ہیں، ساری سیلن سمو لیتے ہیں۔ لیکن، اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دوبارہ کبھی پھول نہیں خریدوں گا۔

تم نے کہا کہ یہاں آنا چاہتی ہو۔

جہاز کا ٹکٹ اپنی جیب سے خرید لو گی۔

تم نے میرے ساتھ ریو آنے کا خود ہی فیصلہ کیا تو میں نے سرد لہجے میں انتہا کی خشکی پیدا کر کے یوں منع کیا جیسے یورپ کی ہوائیں پیش آتی ہیں۔

میں یورپ جیسا سرد تو نہیں، یہ اس لیے بہانہ بنایا کہ ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے۔

تم بھی کیا کرتیں، میرا ساتھ چاہتی تھیں مگر میں نے منع کر دیا۔ یہ نئے سال کی تقریبات کا موقع ہے، میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم اس وقت تو ضرور ہی آنا چاہو گی، تم چاہتی تھی کہ کم از کم آج رات میرے ساتھ بسر کرتیں۔

لیکن میں نہیں مانا۔

رات دس بجے، سفید جوڑا پہن کر تن تنہا ہی نکلا اور کوپا کابانا کی طرف نکل گیا۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ نئے سال کی رات تن تنہا ہوں۔ میرے ساتھ صرف اکلیاپا ہے۔

میں جھیل کے کنارے پیدل چلتا ہوا کان ٹاگلو اور پھر کوپا کابانا پہنچ گیا۔ اس مٹر گشت میں پورا ایک گھنٹہ نکل گیا۔ گیارہ بج گئے ہیں۔ ساحل پر خوب رونق ہے، چاروں طرف بھیڑ ہے۔ جہاں تک نظر جاتی ہے سنہری ریت پر چاندی چمک رہی ہے۔

میں چپل اتار کر ننگے پیر ہی ریت پر چلنے لگا۔ پیر نم ریت میں کھب گئے۔ آج شام ڈھلنے کے بعد بھی شدید گرمی ہے۔ حبس سے سانس بند ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی بادل گِھر آئیں گے اور شہر کو جل تھل کر دیں گے۔

میں لوگوں کے بیچ سے راستہ بناتا، اجنبی جسموں سے خود کو مسلتا ہوا آگے نکل گیا۔ اس دوران میری نظریں زمین پر ٹکی رہیں۔ ریت پر ہزاروں ننگے پیروں سے سامنا ہوا۔

موم بتیاں روشن ہیں، کشتیاں ہی کشتیاں اور پھول ہی پھول ہیں۔ میرے پاس بھی پھول ہیں۔ میں کہیں سے سفید رنگ کے چار گل یوہل اٹھا لایا ہوں۔

(جاری ہے)

عمر بنگش

لکھاری ایک بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم کے ساتھ بطور ریلیف ورکر وابستہ ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس obangash@gmail.com ہے۔

ان سے فیس بک پر یہاں رابطہ کریں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔