یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں مصوری کی نئی جہتیں (دوسرا حصہ)
یورپی نشاۃِ ثانیہ کے اولين مصور جاٹو ڈی بونڈون
یہ قرونِ وسطیٰ میں یورپی مصوری پر سلسلے کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیں۔
یورپ میں فنون لطیفہ کی تاریخ کا ذکر جارجیو وساری (Georgio Vasari) کی 16 ویں صدی میں چھپنے والی کتاب "چیمابوئے سے لے کر آج تک کے عظیم مصور، مجسمہ ساز اور ماہر فن تعمیر" کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔
وساری، مائیکل اینجلو کا ہم عصر، مصور اور ماہر فنِ تعمیر تھا مگر آج ان کی وجہِ شہرت یورپی اور بالخصوص اطالوی نشاۃِ ثانیہ دور کے فنکاروں پر لکھی گئی ان کی کتاب ہے۔
گو کہ بعض محققین کے مطابق اس کتاب میں کئی مقامات پر مبالغہ آرائی اور غیر مستند معلومات دی گئی ہیں مگر اس کے باوجود یہ کتاب قرونِ وسطی (Medieval Ages) اور ابتدائی نشاۃِ ثانیہ دور کے مصورین کی زندگی اور ان کے کام کے متعلق آگاہی حاصل کرنے کا شاید واحد ذریعہ ہے۔
اس مضمون میں جن مصورین کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے فن کے حوالے سے جو کتب تحریر کی گئیں، ان کا اولین ذریعہ معلومات، جارجیو وساری کی اوپر پیش کردہ کتاب ہے.
اس مضمون میں جس مصور کے کام کو زیرغور لایا گیا ہے، ان کے بارے میں محققین کی متفقہ رائے ہے کہ یورپ میں فنِ مصوری میں جدیدیت، تبدیلی اور احیاء کا آغاز اس مصور نے کیا۔ اس مصور کو یورپی نشاۃِ ثانیہ کا بانی مصور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس مصور کا نام جاٹو ڈی بونڈون (Giotto Di Bondone) ہے اور ان کا تعلق فلورنس کی درسگاہ مصوری سے تھا۔
جاٹو کی ابتدائی زندگی اور پیشہ وارانہ زندگی کے بارے میں ہماری معلومات انتہائی محدود ہے اور بیشتر معلومات کا ذریعہ جارجیو وساری کی کتاب ہے۔ موجودہ دور میں محققین نے مختلف عجائب گھروں، آرٹ گیلری اور کلیساؤں میں موجود جاٹو کی نقاشی کے نمونوں پر تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جیسے ادب میں دانتے اور مجسمہ سازی میں پیسانو نے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کچھ منفرد کیا ٹھیک اسی طرح جاٹو نے اپنے ہم عصر اور بعد میں آنے والوں کو فن مصوری میں حقیقت پسندی اور فطرت سے قریب تر مصوری کی اہمیت سے روشناس کروایا.
جارجیو وساری کے مطابق جاٹو ایک چرواہے کا بیٹا تھا، اور قرونِ وسطیٰ میں فن مصوری کے ایک بڑے نام چیمابوئے (Cimabue) نے جاٹو کو مٹی پر بھیڑوں کی تصویر بناتے دیکھا، وہ ان سے اس قدر متاثر ہوا کہ جاٹو کو اپنے ہنرخانے میں جگہ دی اور اپنے زیرِ سایہ تربیت دینے کا اہتمام کیا۔ جلد ہی جاٹو نے چیمابوئے کے ساتھ کلیساؤں میں دیوار گری کرنا شروع کر دی۔
ان کے منفرد انداز کو خوب پذیرائی ملی، یہاں تک کہ مشہور اطالوی شاعر اور "ڈیوائن کامیڈی" کے مصنف دانتے (Dante) جو کہ جاٹو کا ہم عصر بھی تھے، نے کہا کہ "چیمابوئے کی شہرت پر بادل چھا رہے ہیں، اور اب جاٹو ہے کہ جسے پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔"
تاریخ مصوری میں نشاۃ ثانیہ کے آغاز سے پہلے کے دور کو قرون وسطیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دور کی مصوری بازنطینی (Byzantine) انداز سے متاثر تھی۔ اس انداز کے مطابق نقاشی کا مقصد کسی مذہبی واقعے کا اظہار اور خدا کی خوشنودی اور تکریم تھا۔
نقاشی میں چہرے پر تاثرات اور ظاہری خدوخال کی حیثیت ثانوی تھی۔ بازنطینی مصوری اس گہرائی سے عاری تھی جو کہ کسی بھی نقش کو اصل زندگی سے قریب کرتی ہے۔ تکنیکی اصطلاح میں اسے پرسپیکٹو (perspective) کہتے ہیں، اس سے مراد وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت مصوری میں تین جہتی (تھری ڈی) اشیاء کو دو جہتی (ٹو ڈی) انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا کہ دیکھنے پر گہرائی اور وسعت کا احساس ہو۔
اس باریک مگر اہم فرق کو جاننے کے لیے آپ اس بلاگ میں پیش کردہ مصوری کے (13 ویں صدی میں تخلیق کردہ) نمونوں کا موازنہ اسی سلسلے کے پہلے بلاگ میں پیش کی گئی (16 ویں صدی میں تخلیق کردہ) پینٹنگز سے کریں، تو پائیں گے کہ پرسپیکٹو، رنگ و روشنی کے زبردست استعمال نے انہیں حقیقت سے قریب تر کر دیا ہے۔
جاٹو نے اپنی مصوری میں پرسپیکٹو کی تکنیک کا بخوبی استعمال کیا اور روایتی انداز سے ہٹ کر اپنی مصوری میں افراد اور آس پاس کے ماحول پر خاص توجہ دی اور ان کو مرکز نگاہ بنا کر پیش کیا۔ انسانی چہرے پر جذبات اور احساسات کو پیش کیا جس نے جاٹو کی مصوری کو حقیقی زندگی سے قریب تر کیا۔
جاٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یورپی مصوری کا ناطہ مشرق سے توڑا (یہاں مشرق سے مراد بازنطینی سلطنت ہے جس کو مشرقی رومی سلطنت بھی کہتے ہیں، اس سلطنت کا صدر مقام قسطنطنیہ موجودہ دور کا استنبول تھا) اور ایک ایسا اندازِ مصوری اپنایا جو مغرب کی پہچان بنا۔ دانتے نے جاٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'جاٹو نے مصوری کو زبان دی'۔
جاٹو کے انداز مصوری اور اس دور کے رائج اصولوں کے مطابق کی جانے والی مصوری کے فرق کو جاننے کے لیے ذیل میں جاٹو اور، اس کے استاد چیمابوئے اور سیینا (Siena) کی درسگاہ مصوری سے تعلق رکھنے والے بازنطینی انداز کے ماہر مصور، ڈوچیو (Duccio) کی ایک ہی موضوع پر کی گئی نقاشی کا تقابلی جائزہ کیا گیا ہے۔
اس نقاشی کا موضوع 'میڈونا اور بچہ' ہے، عیسائیت میں میڈونا، بی بی مریم علیہ السلام اور بچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایسا موضوع ہے کہ جسے تقریباً تمام اطالوی اور بہت سے یورپی مصورین نے اپنے فن کے اظہار کا موضوع بنایا چیمابوئے اور ڈوچیو کی نقاشی بازنطینی انداز کے عین مطابق ہے، جبکہ جاٹو کی نقاشی قدرے مختلف ہے۔