نقطہ نظر

پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کیوں نہیں ہونا چاہیے؟

بکتربند حالات میں ایک میچ منعقد کروا کر پاکستان کرکٹ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔

بم دھماکوں کی حالیہ لہر کو دیکھتے ہوئے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا فائنل لاہور میں کروانے کا خیال کئی لوگوں کے نزدیک بے مقصد ہے۔ اور شاید ان کے پاس ایسا سوچنے کے لیے اچھی وجوہات بھی ہیں: ایک کرکٹ میچ پر تمام تر توانائیاں کیوں صرف کی جائیں جب کہ پورا ملک ہر کونے سے لہو لہو ہے۔

یہ درست ہے کہ ان احساسات کا کئی طرح سے دفاع کیا جا سکتا ہے، مگر فائنل لاہور میں کروانے کا سوال شہر کے جلتے ہوئے بانسری بجانے سے کہیں زیادہ اور وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف مناسب اور مؤثر ردِعمل آخر کیا ہے۔

صاحبانِ اقتدار کے نزدیک فائنل کا کامیاب انعقاد عسکریت پسندوں کو ایک کرارا جواب ہوگا۔ اس طرح کے واقعات کے ذریعے عسکریت پسند چاہتے ہیں کہ خوف و ہراس کی فضاء پھیلا کر قوم کو مفلوج کر دیا جائے۔ کئی لوگوں (صرف صاحبانِ اقتدار کے نزدیک نہیں)، کھیلوں کا مقابلہ منعقد نہ کروایا گیا تو عسکریت پسند اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسری جانب بحفاظت منعقد کیا گیا مقابلہ مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے برابر ہوگا۔

کرکٹ میچ کے ذریعے عزم کا اظہار کرنے کا خیال نیک نیتی پر مبنی ہے۔ کچھ لوگ شاید اس سے اتفاق نہ کریں، مگر میں یہ نہیں مانتا کہ میچ کے انعقاد اور اس کی حفاظت کے ذمہ داران کا بنیادی مقصد ذاتی فائدہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں دل سے یہ لگتا ہو کہ گذشتہ دو ماہ سے جاری کشت و خون پر مناسب ترین ردِعمل یہی ہوگا۔

مگر یہ دیکھنا بھی آسان ہے کہ یہ ردِعمل کیوں بے محل ہے۔ میں پی ایس ایل پر تنقید نہیں کر رہا، جو کہ ہمارے ملک کے ثقافتی منظرنامے میں ایک بہترین اضافہ ہے، اور نہ ہی مشکل حالات کا تفریح کے ذریعے مقابلے کے خیال پر تنقید کر رہا ہوں۔

بنیادی طور پر یہ اس کی وجوہات تین ہیں: میچ دیکھنے کے لیے آنے والوں کی حفاظت؛ وسائل کا رخ اس جانب موڑا جانا اور اس سے ملک کے غیر محفوظ حصوں تک جانے والا پیغام؛ اور کامیاب انعقاد کے بعد سکون کی فضا کا قائم ہونا۔

سب سے پہلے تو اس چیز کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ریاستی سیکیورٹی انتظامات فول پروف رہیں گے۔ میچ دیکھنے کے لیے 20,000 سے زائد لوگ آئیں گے اور زیادہ تر لوگ پیدل ہوں گے۔ اسٹیڈیم کی جانب آنے والے لوگ جب تک کہ سیکیورٹی حصار تک نہ پہنچ جائیں غیر محفوظ ہی رہیں گے۔ ریاست میچ دیکھنے کے لیے آنے والے ہر شخص کی حفاظت یقینی نہیں بنا سکتی۔ اور اگر ریاست کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے تو یہ جھوٹ ہے۔ میچ کی حفاظت کے ذمہ داران بھلے ہی پرخلوص ہوں مگر ان کا ریکارڈ ان کی اہلیت کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

کیوں کہ خطرہ موجود ہے، اس لیے میچ مکمل طور پر قلعہ بند صورتحال میں ہوگا۔ کئی بین الاقوامی کھلاڑی لاہور آنے سے انکار کر چکے ہیں اور انہیں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونے سے پاکستان میں کرکٹ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بین الاقوامی ٹیمیں ایک میچ کے کامیاب انعقاد پر فوراً پاکستان کا رخ نہیں کر لیں گی، جیسا انہوں نے تب بھی نہیں کیا تھا جب پی سی بی نے 2015 میں زمبابوے کی میزبانی کی تھی۔

درحقیقت، اگر خدانخواستہ ایک بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوگیا تو اس سے پاکستان میں کرکٹ کو اتنا نقصان ہوگا کہ جس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ کھیل کے نقطہءِ نظر سے دیکھیں تو یہ بہترین انتظام کے تحت چل رہے ایک ٹورنامنٹ پر خوامخواہ کی سیاسی رسہ کشی ہے۔

دوسری بات یہ کہ اتنے بڑے ایونٹ کی حفاظت کے لیے بے پناہ مالی اور افرادی وسائل لگانے ہوں گے۔ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں پولیس اہلکار (اور چند اطلاعات کے مطابق فوج کے سپاہی بھی) کم از کم دو دنوں کے لیے اپنی موجودہ ڈیوٹیاں چھوڑ کر یہاں ڈیوٹی دیں گے۔ کھلاڑیوں، انتظامیہ اور میچ کے لیے آنے والے وی آئی پیز کی نقل و حرکت اور سیکیورٹی پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے۔

اور یہ صرف اخراجات یا پولیس کی تعیناتی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سیاسی معاملہ بھی ہے۔ اس ملک میں ایسی کئی جگہیں ہیں جو تقریباً ایک دہائی سے تشدد کی لہر میں گرفتار ہیں۔ ایسی کئی برادریاں ہیں جہاں تقربیاً ہر گھرانے نے اپنے کسی فرد کو دہشتگردی کے ہاتھوں گنوایا ہے۔ پہلے سے ہی کم وسائل کو ایک کرکٹ میچ کی جانب موڑ کر ہم اپنے ملک کے ان لوگوں کو کیا پیغام دیں گے جو بنیادی تحفظ چاہتے ہیں؟ اسی ریاست کے شہریوں کے طور پر اس سے کہیں بہتر تحفظ ان کا حق ہے کہ جتنا انہیں دیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لاہور میں ایک بکتربند قلعے کی طرح میچ کا انعقاد شاید احساسِ محرومی اور غم و غصے کو جنم دے، جس سے فی الوقت بچا جا سکتا ہے۔

اور آخر میں یہ کہ حکومت کس حد تک اتنا خطرہ برداشت کر سکتی ہے؟ پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہم خوشی کے اس احساس کے واقعی متحمل ہو سکتے ہیں جو اس ایونٹ کے کامیاب انعقاد کے بعد ہمارے پاس آئے گی؟

یہ بات سبھی مانتے ہیں کہ معمول کے مطابق چلتے رہنا دہشتگردی کو ایک کرارا جواب ہے۔ مگر 'معمول' کیا ہے، اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ عوام، خاص طور پر وہ جو نہایت غیر محفوظ علاقوں میں رہتے ہیں، جو اسکول، ملازمت اور سودا سلف خریدنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں، ہراسگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ ابنارمل حالات میں اپنے معمول کے کام سر انجام دے کر نارمل زندگیاں گزارنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے روز مرہ کے معمول کو محفوظ بنانا دہشتگردی کے خلاف ریاست کی جنگ کا نقطہءِ ابتدا اور نقطہءِ انتہا ہونا چاہیے۔

تو جو سوال ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے وہ یہ کہ کیا صرف ایک شام لاہور کو محفوظ بنانے سے ہمارے لوگوں میں تحفظ کا احساس آ جائے گا؟ یا پھر یہ صرف تھوڑی دیر کے لیے ہماری توجہ ہٹائے گا، اور اس کے کامیاب انعقاد کے بعد ہمارے ذمہ داران خود کو شاباشی دے کر بے فکر ہوجائیں گے؟ یہ مشکل سوالات ہیں جن کا جواب غور و فکر کے بعد دینا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان جوابات کا فریم ورک ایک دن کے سیکیورٹی دکھاوے یا عزم و جرات کے مصنوعی اظہار سے کہیں آگے ہونا چاہیے۔

پی ایس ایل کی ابتدائی کامیابی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ (امید ہے) اگلے کئی سال تک جاری رہے گا۔ اسے اس وقت لاہور 'لانے' کے بجائے امن قائم ہونے پر خود یہاں 'آنے' دیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

عمیر جاوید

لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔