نقطہ نظر

چین اور پاکستان کی گہری دوستی کی وجہ

آپ کو ڈھونڈنے سے بھی ایسی ریاستیں نہیں ملیں گی جن کے بیچ اتنا فرق ہو جتنا کہ امریکا، چین اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔
irfan.husain@gmail.com

پاکستان کے تین بنیادی اتحادیوں کے درمیان نظریاتی فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے میلوں سے تو نہیں ناپا جا سکتا، ہاں خیلج ضرور کہا جا سکتا ہے۔

آپ کو ڈھونڈنے سے بھی ایسی ریاستیں نہیں ملیں گی جن کے بیچ اتنا فرق ہو جتنا کہ امریکا، چین اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ ان تینوں کی پالیسیوں کے درمیان مشترکہ چیز کسی طرح پاکستان کو چلائے رکھنے کی مشترکہ خواہش ہے، پھر بھلے ہی ہم نے خود کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی ہو۔

اسلام آباد کے نقطہءِ نظر سے دیکھیں تو ان تینوں ممالک کے ساتھ ہمارے ناطے کاروباری ہیں، کیوں کہ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی ثقافتی، تاریخی یا لسانی بندھن موجود نہیں ہیں۔ ہاں سعودی عرب اور پاکستان ایک ہی دین کے پیروکار ہیں، لیکن اس کے علاوہ ہمارے بھائی چارے کی بنیاد میں کوئی مشترکہ چیز نہیں ہے۔

اتحاد ہمیشہ قومی مفادات کے لیے قائم کیے جاتے ہیں لیکن وہ تب تک مستقل نہیں ہوتے جب تک کہ اتحادیوں کے درمیان کوئی چیز مشترکہ نہ ہو۔ اس لیے سیکیورٹی حلقوں میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو 'پانچ آنکھیں' قرار دیا جاتا ہے۔ حساس انٹیلیجنس جس کا دوسرے اتحادیوں کے ساتھ تبادلہ نہیں کیا جاتا، اس کا تبادلہ یہ ممالک آپس میں کرتے ہیں کیوں کہ ان کے درمیان مخاصمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یوں تو امریکا نے چین اور سعودی عرب کی پاکستان کو دی گئی مجموعی امداد سے بھی زیادہ پیسہ اور اربوں ڈالر کے ہتھیار دیے ہیں مگر فی الوقت امریکا کا اسلام آباد پر اثر و رسوخ باقی دونوں اتحادیوں سے بہت کم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بھلے ہی ہماری فوج جدید اسلحے کے لیے واشنگٹن پر منحصر ہو، مگر وہ کئی وجوہات کی بناء پر واشنگٹن کو مشتبہ نظر سے دیکھتی ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ واشنگٹن ہمیشہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہم پر وقتاً فوقتاً پابندیاں بھی عائد کی جاتی رہی ہیں۔ اس کے بعد اس نے ہمارے پاس بار بار لگنے والے مارشل لاء پر بھی اعتراض کیا ہے اور ہمارے ہاں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور آخر میں یہ کہ امریکا کا ہم پر ملک میں موجود جنگجوؤں کو ختم کرنے کا مسلسل شور ان لوگوں کے کانوں میں کھٹکتا ہے جنہوں نے ان جنگجوؤں کو کھلی چھوٹ دی تھی۔

دوسری جانب چین اور سعودی عرب بھی جمہوریت کی کوئی درخشاں مثالیں نہیں ہیں، اور وہ بھی اپنے شہریوں کے ساتھ چشم کشا سلوک کرتی ہیں۔ لہٰذا انہیں ہمارے ہاں جمہوری روایات کی پامالی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان کے لیے ان کی امداد امریکا کی طرح عوام کے سامنے موجود ڈوریوں سے وابستہ نہیں ہیں۔

پاکستان بار بار یہ بات دہراتا ہے کہ چین کے ساتھ اس کی دوستی فولاد سے زیادہ مضبوط، ہمالیہ سے اونچی ہے۔ چین ایک لادین ریاست ہے جو اپنے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی ہے۔ مغربی چین کے اوئیغور مسلمانوں کو مذہب کے اظہار کی آزادی نہیں ہے۔

جو چیز چین اور پاکستان کا بندھن مضبوط کرتی ہے وہ 'دشمن کا دشمن دوست' کی پرانی کہاوت ہے۔ عسکری طور پر مضبوط پاکستان چین کے مفاد میں ہے کیوں کہ اس سے ہندوستان کو دو محاذوں پر مصروف رہنا پڑتا ہے، جبکہ پاکستان کے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے چین بذریعہ گوادر، جس کی تعمیر میں زیادہ سرمایہ کاری اسی کی ہے، آسانی سے بحرِ ہند تک پہنچ سکتا ہے۔

سعودی عرب پاکستان پر اپنی دفاعی ضروریات کے لیے انحصار کرتا ہے۔ جدید ترین ہتھیاروں پر سینکڑوں ارب ڈالر خراچ کرنے کے باوجود اس کی افواج میں باقاعدہ جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنے سپاہیوں کی تربیت کے لیے پاکستان کی جانب دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ہماری فوج کو اس وقت کے لیے اپنی آخری دفاعی فورس تصور کرتا ہے، کہ جب امریکا اس پر سے اپنا ہاتھ ہٹا لے گا۔ اس کے علاوہ سعودیوں کے نزدیک ہمارا ایٹمی اسلحہ بھی ایک بہت فائدہ مند چیز ہے۔

ہمارا جغرافیائی محلِ وقوع اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ واشنگٹن نے گذشتہ کئی سالوں میں اقتصادی اور معاشی امداد کی صورت میں ہمیں اربوں ڈالر فراہم کیے ہیں۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ ہمارے رہنماؤں نے ہمارے محلِ وقوع کی اہمیت سے خوب مالی فوائد حاصل کیے ہیں۔

کئی حلقے پاکستان کی ابتدائی قیادت کو پاکستان کو امریکا کے کمیونسٹ مخالف اتحاد میں گھسیٹنے کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہندوستانی فوج اس وقت تعداد اور اسلحے کے اعتبار سے ہم سے کہیں زیادہ بڑی قوت تھی۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے روس کی جانب ہاتھ کیوں نہیں بڑھایا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنگِ عظیم دوئم کے نتیجے میں روس اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ اس پر ہتھیاروں کی قابلِ ذکر فراہمی کے لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

کوریائی جنگ کے اختتام پر ہم نے امریکا سے کئی اضافی ہتھیار حاصل کیے، اور اس کے فوراً بعد ہم نے معاہدہءِ بغداد (جو بعد میں سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن، سینٹو کہلائی) اور جنوب مشرقی ایشیائی اتحاد (سیٹو) میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1965 تک امریکا ہمیں کمیونسٹ جارحیت سے نمٹنے کے لیے ہتھیار فراہم کرتا رہا مگر پاک و ہند جنگ میں ہم نے انہیں ہندوستان کے خلاف استعمال کیا۔

تب سے لے کر اب تک ہمارا امریکا کے ساتھ رشتہ بد سے بدتر ہوتا رہا۔ لیکن پھر افغانستان پر سوویت حملے کے بعد امریکا نے ہماری روکی ہوئی امداد دوبارہ جاری کردی، جو سرخ افواج کے واپس جانے پر دوبارہ بند کر دی گئی کیوں کہ ہم اپنا ایٹمی پروگرام بند کرنے پر تیار نہیں تھے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پاک امریکا تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔

اب ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ نازک سا اتحاد کس طرح پنپتا ہے، اس بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مگر ہندوستان سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے کے بیانات اور چین کے خلاف سخت مؤقف اپنانے سے یہ واضح ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں اتھل پتھل ہو سکتی ہے۔

سی پیک کے ذریعے پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی مفادات اس کی خطے میں دلچسپی بڑھاتے ہیں۔ امید ہے کہ بیجنگ اپنے اثر و رسوخ کا ہمارے جنرلوں کو ان انتہاپسندوں کے خلاف اقدامات اٹھانے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کرے گا جن کی انہوں نے برسوں تک حمایت کی ہے۔

اگر ایسا ہوجائے، تو یہ واشنگٹن سے کہیں زیادہ کامیاب ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

irfan.husain@gmail.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 فروری 2017 کو شائع ہوا۔

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔