عورت کے 'ناقص العقل' ہونے کی بحث
بچپن سے سنتا آیا ہوں کہ عورت ناقص العقل ہے۔ نقصِ عقل کے اِسی تصور کے تابع اپنے اردگرد معاشرے میں عورت کو حقارت اور تذلیل کی تصویر بنے ہوئے بھی دیکھا۔
اِسی طرح بچپن سے آج تک عورت کو خاندانی تشدد کا شکار ہوتے ہوئے بھی دیکھتا آیا ہوں۔ عورت تعلیم حاصل کرے گی یا نہیں اور اُس کے پردہ کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ بھی مردوں کو ہی کرتے ہوئے پایا۔
پھر ایک دن پڑھا کہ اللہ نے انسان کو بااختیار اور باشعور بنایا ہے اور اِسی اختیار اور خود شعوری کی بنیاد پر ہی قیامت کے روز اُس کا محاسبہ ہو گا۔ اِس بات نے ذہن میں بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔
1: کیا عورت کا شمار بھی انسانوں میں ہوتا ہے؟ کیوں کہ میں نے تو عورت کو ہر معاملے میں بے اختیار ہی پایا ہے۔
2: اگر اختیار صرف مردوں کے لیے ہے تو کیا عورت کو قیامت کے روز کے محاسبے سے بے خوف ہو جانا چاہیے؟
3: اگر عورت کا شمار بھی انسانوں میں ہی ہوتا ہے اور اُسے بھی کسی قسم کا کوئی اختیار اور شعور عطا کیا گیا ہے تو اُسے یہ اختیار اور شعور عطا کرنے والا رب کسی اور انسان کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے کہ وہ عورت کے اِس اختیار کو غصب کر سکے؟
پڑھیے: مرد سے 'کمتر' عورت
اِن سوالوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی الجھن اور تجسس مجھے اُس ہستی کے پاس کھینچ لے گئی جنہیں میں اپنا روحانی استاد اور مربی مانتا ہوں۔ حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو کوزے میں سمندر کو سمیٹنے کا ہنر رکھتا ہو۔
میرے تمام سوالوں کو ایک ہی جملے میں سمیٹ کر انہوں نے روشنی اور بصارت کے نئے در کھول دیے۔ انہوں نے فرمایا کہ ''ہم مَردوں کے قبیلے کا المیہ یہ ہے کہ ہم میں مرد کم اور نَر زیادہ ہیں۔''
جب اِس عینک سے میں نے لوگوں کی ذاتی اور معاشرتی زندگی میں جھانکنا شروع کیا تو حقیقت یہ کھُلی کہ لوگوں کے اعمال اور اُن کے لیے دیے جانے والے دلائل اور حتٰی کہ دینی تشریحات پر بھی جنس اور اُس سے منسلک طاقت کا عنصر چھایا ہوا تھا۔
مثلاً قرآنِ مجید کے اکثر تراجم (جو کہ مردوں نے لکھے) میں لفظ زوج کا ترجمہ بیوی ہی لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ حالانکہ زوج سے مراد شوہر اور بیوی دونوں ہی ہوتے ہیں۔ نتیجتاً جو احکامات شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ہوتے ہیں اُن کا رخ صرف بیوی کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک صاحب کو کسی یونیورسٹی میں "اسلام میں عورت کا مقام" کے عنوان سے لیکچر دیتے ہوئے سُنا۔ اُن صاحب کا تعارف ایک مذہبی اسکالر کے طور پر کروایا گیا۔
اُس پر مزید ستم ظریفی یہ کہ اُنہیں اپنے بارے میں یہ خوش گمانی بھی لاحق تھی کہ اُنہیں علمِ نفسیات، اور خصوصاً عورتوں کی نفسیات، پر گہرا عبور حاصل ہے۔ اُن کے اُس لیکچر نے ہال میں موجود مردوں کی روحوں کو تو خوب گرمایا لیکن علمِ نفسیات اور اسلام کی روح کو بہت تڑپایا۔
صاحب بڑے متکبرانا انداز سے حدیثوں اور قرآنی آیات کے حوالے دے دے کر یہ ثابت کر رہے تھے کہ عورت ناقص العقل ہے اور مرد کو اللہ نے عورت پر حاکمِ مطلق بنایا ہے۔
دین کے اُس پیامبر کی حیا کا یہ عالم تھا کہ مجمع میں موجود خواتین کو پردے کی حکمت مَردوں کی نفسیات بتا کر سمجھا رہے تھے کہ عورت کے جسم کا کون سا حصہ مرد کے اندر کیسی کیسی حلاوتیں اور حرارتیں پیدا کرتا ہے۔
اُن باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ موصوف کو مردوں کی نفسیات سے آگاہی کی خوش فہمی بھی لاحق ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ صاحب دینِ اسلام کے پردے میں صرف اپنی نفسیاتی تسکین کا سامان کر رہے تھے جبکہ مجمع میں موجود مردوں اور خواتین کو شرمندہ اور ذلیل کر رہے تھے۔
اُن کی باتوں، دلیلوں اور تعبیرات کو سُن کر یہ احساس بہت شدت سے ابھرا کہ دانش کے بغیر علم بھی ایک فتنہ بن جاتا ہے۔
عورت کو ناقص العقل قرار دینے کے لیے حدیث کا حوالہ دینے والے مردوں سے کبھی کسی نے یہ سوال پوچھا کہ کیا اُس حدیث میں مرد کو کامل العقل ہونے کی سند بھی عطا کی گئی ہے؟
مزید پڑھیے: عورت کی توہین -- پاکستان کی نیشنل ہابی
اسی طرح گھر ایک ادارہ ہے اور کسی بھی ادارے کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کا ایک سربراہ ہو۔ قرآن نے اِس ادارے کی سربراہی مرد کو تفویض کی ہے۔ یہ سربراہی ایک ذمہ داری ہے، نا کہ استحقاق۔
اختیار اور فرائض کی انجام دہی کے لیے نبیِ اکرم ﷺ نے اِس سربراہ کی ایک سنہری قول سے رہنمائی فرمائی ہے کہ ''بُرا ہے وہ حاکم جسے اپنے حکم کا استعمال کرنا پڑے''۔ یعنی سربراہِ خاندان کا انداز تحکمانہ نہیں بلکہ اشتراکیت پر مبنی ہونا چاہیے۔
جسے سربراہ بنایا گیا ہے اُسے ہر لمحہ ہر گھڑی یہ احساس مستحضر رہنا چاہیے کہ قیامت کے روز یقیناً اُس سے اس کے اختیار اور اُس سے جڑی ذمہ داری کی بابت محاسبہ کیا جانا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ ''یقیناً تم سے تمہارے عیال کے بارے میں پوچھا جانا ہے''۔ اِسی طرح ایک اور حدیث میں آپﷺ نے مزید رہنمائی فرمائی کہ ''تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے ہیں''۔
بیوی پر تشدد کے لیے قرآن سے دلیل دینے والوں کو پہلے تو یہ بتانا چاہیے کہ کیا یہ حکم کی حیثیت رکھتا ہے؟ اگر یہ حکم کی حیثیت رکھتا ہوتا اور پسندیدہ فعل ہوتا تو امت کے لیے اسوہِ حسنہ قرار پانے والی ہستی نبیِ اکرم ﷺ کی زندگی میں اس کی کوئی مثال کیوں نہیں ملتی؟ نبیِ اکرم ﷺ کی طرف سے عائد کردہ شرائط کیا مارنے کی ترغیب دیتی ہیں یا غصے کو قابو کرنے کی تلقین کرتی ہیں؟
علمِ نفسیات اور اُس میں ہونے والی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ غصہ ہیجان کی ایک قسم ہے۔ اور غصے کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان کچھ دیر کے لیے خود کو اُس ماحول سے نکال لے جو اُس کے غصے کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہا ہو۔
بستر کے الگ کیے جانے کو بیوی کے لیے سزا سمجھنے والوں نے کیا کبھی قرآن کی اِس حکمت پر بھی غور کیا ہے کہ وہ مرد کو کچھ دیر کے لیے الگ ہونے کا مشورہ اِس لیے دے رہا ہے کہ ماحول بدلنے سے اُس کا غصہ بڑھنے کے بجائے کم ہو گا؟
اِسی طرح میاں بیوی کے باہم تنازع کو کو حل کرنے کے لیے مرد کو پہلا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو سمجھائے۔ کیا کبھی کسی نے اُس مرد کی دانشمندی پر بھی سوال اُٹھایا ہے جس میں بیوی کو سمجھانے او منانے کی اہلیت اور صلاحیت ہی نا ہو؟
پڑھیے: پاکستانی عورت کے لئے سات فیصلہ کن لمحات
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز کامل تخلیق نہیں کی۔ دوسری طرف یہ بات بھی مستحضر رہنی چاہیے کہ اللہ نے جو کچھ بھی تخلیق کیا ہے وہ بامقصد ہے۔ جس طرح عورت میں کچھ کمزوریاں رکھی گئی ہیں اسی طرح مرد بھی اپنی تخلیق میں بہت سی کمزوریاں لیے ہوئے ہے۔ اِن دونوں کی باہم اشتراکیت ہی ایک دوسرے کی کمزوریوں کا ازالہ کرتی ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ دونوں برتر و کمتر، ادنٰی و اعلٰی اور افضل و حقیر کے خنّاس کو دل و دماغ سے نکال کر یہ محسوس اور تسلیم کریں کہ وہ دونوں باہم مل کر ہی ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک دوسرے کی کمزوریوں پر نظر رکھنے کے بجائے اُن خوبیوں پر نظر رکھی جائے جو دونوں کی باہم تکمیل اور تسکین کا سبب بنتی ہیں۔ اُس مکھی کی مانند نا ہو جائیں جو پورے جسم کو چھوڑ کر زخم پر بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہے۔
عمران بخاری قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچرار ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔