نقطہ نظر

نیوز چینلز میں عوام کی کم ہوتی دلچسپی کی وجوہات

ایڈیٹنگ سے عاری انفارمیشن قوم تک پہنچا پہنچا کر قوم کو ذہنی مریض بنا دیا گیا ہے۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانی ٹی وی ناظرین کے 63 فیصد اب نیوز چینل چھوڑ کر انٹرٹینمنٹ چینلز، اسپورٹس اور ترکش سوپ دیکھ رہے ہیں، جبکہ صرف 37 فیصد ناظرین کی دلچسپی نیوز چینلز میں برقرار ہے۔ ان 37 فیصد میں سے بھی 16 فیصد لوگ جیو نیوز دیکھتے ہیں جبکہ بقیہ 21 فیصد باقی سارے چینلز کا طواف کرتے ہیں۔

پاکستانی ناظرین کی نیوز چینلز مین دن بدن کم ہوتی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ خراب ہوتی نیوز اسکرین ہے جو دیکھنے والوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ نیوز رپورٹ کرنے کے بجائے نیوز تخلیق کرنے کے فروغ پاتے نئے رجحان نے صحافت اور صحافیوں کے لیے نت نئے چیلنجز کو جنم دیا ہے۔

بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو روکنے اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے دریاؤں پر بند بنائے جاتے ہیں۔ بیراج اور ڈیم تعمیر کر کے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیوں کہ اگر سیلابی پانی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ بستیوں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔

اسی طرح اس وقت ملک میں انفارمیشن یا معلومات کا ایک سیلاب ہے جو پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر لمحہ تیز سے تیز تر ہو تا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ایک منٹ میں ہمیں فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر، اور اپنے ٹی وی پر اتنی انفارمیشن موصول ہو رہی ہوتی ہے کہ ہم اسے دیکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔

انفارمیشن کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے نیوز رومز میں ڈیسک، کوالٹی کنٹرول پروڈیوسرز، وڈیو ایڈیٹنگ ڈیسک دراصل وہ بیراج اور ڈیم اور بند ہیں جن کے ذریعے سے انفارمیشن کے اس سیلاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے، خبر کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اور ایڈیٹنگ اور فیکٹ چیکنگ کے مراحل سے گذارا جاتا ہے۔

لیکن میڈیا ہاؤسز میں کمزور اور دن بدن معدوم ہوتا ادارتی انسٹیٹیوشن اس سیلاب کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے، جس کے نتیجے میں ایڈیٹنگ سے عاری انفارمیشن قوم تک پہنچا پہنچا کر قوم کو ذہنی مریض بنا دیا گیا ہے۔

اسیے حالات میں جب ایک اور کھلونا ہر رپورٹر کو تھمایا جا رہا ہے، کہ اپنے موبائل فون سے شوٹ بھی خود کرو، اسکرپٹ خود لکھ کر اسی موبائل فون سے وائس اوور بھی خود کرو اور اسی اسمارٹ فون سے وڈیو ایڈیٹنگ کرکے خبری پیکج سیدھا نیوز روم کو بھیج دو، اس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں ٹی وی اسکرین مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ شاید ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کی تعداد 37 فیصد سے بھی مزید کم ہو جائے گی۔

ایسے حالات میں پاکستان میں پیشہ صحافت اور صحافیوں کو 10 بڑے چیلنج درپیش ہیں جن کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

1: غیر جانبداری کم ہے، یا سرے سے موجود نہیں

اس وقت پاکستانی میڈیا دو حصوں میں منقسم ہے، جس میں سے ایک خود ساختہ 'مین اسٹریم میڈیا' یا قومی میڈیا کہلاتا ہے، جبکہ دوسرے کو ریجنل میڈیا یا لوکل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے۔ غیر جانبدار قومی بیانیے کی بحث جو کہ مین اسٹریم میڈیا کا اہم کام ہے، مین اسٹریم میڈیا اپنا وہ فرض نبھاتا ہوا نظر نہیں آتا۔

کشمیر مین اسٹریم میڈیا میں صرف تب نظر آتا ہے جب زلزلہ آتا ہے یا بھارت کی جانب سے فائرنگ کی جاتی ہے، خیبر ایجنسی مین اسٹریم میڈیا میں تب نظر آتی ہے جب وہاں کوئی خود کش بمبار پھٹتا ہے، بلوچستان مین اسٹریم میڈیا میں تب نظر آتا ہے جب وہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، جبکہ دوسری جانب یہی مین اسٹریم میڈیا کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا آگے بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے، جس کا اظہار اس کی نیوز فارمیٹنگ اور پروگرامنگ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

2: صرف بڑے شہروں پر توجہ دی جاتی ہے

یہی مین اسٹریم میڈیا لوکل میڈیا یا ریجنل میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے ان عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے جو واقعی عوامی مسائل اور عوامی اشوز ہیں۔ بعض اوقات مین اسٹریم میڈیا کی تمام کی تمام ہیڈلائنز صرف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے بیانات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔

مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے نے عوام الناس کو نیوز چینلز سے بتدریج بد ظن کرکے انٹرٹینمنٹ چینل دیکھنے پر مجبور کیا ہے، جس کی واضح مثال اس دن کی ہے جب کراچی میں ملیر کے ایس پی راؤ انوار کو معطل کیا گیا۔ دوسری جانب اسی دن خیبر ایجنسی کی مسجد میں بم دھماکے میں درجنوں لوگ جاں بحق ہو گئے، لیکن مین اسٹریم میڈیا کے لیے راؤ انوار کی معطلی کی خبر اہم تھی، کئی گھنٹوں تک اہم قومی چینلز کی ہیڈ لائن اسٹوری تھی۔ جبکہ خیبر ایجنسی میں انسانی جانوں کا ضیاع اس نام نہاد قومی میڈیا میں جگہ نہیں بنا پایا۔

یعنی عوام جسے خبر سمجھتے ہیں، مین اسٹریم میڈیا اسے خبر ہی نہیں گردانتا، اور نہ مین اسٹریم میڈیا میں اس اشو کے لیے کوئی جگہ ہوتی ہے۔ محسن بھوپالی نے ایسے ہی میڈیا کے لیے کہا تھا۔

جو دل کو ہے خبر، نہیں ملتی کہیں خبر

ہر روز اک عذاب ہے اخبار دیکھنا

3: صحافیوں کی مراعات ناہموار ہیں

دنیا بھر میں ہارڈ پوسٹنگ کی ایک اصطلاح رائج ہے کہ جس علاقے میں خطرات زیادہ ہوں، جنگ زدہ علاقہ ہو، وہاں پر تعینات صحافی کو ملنے والی سہولیات اور مراعات عام صحافی کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔

مثلاً نیویارک میں کام کرنے والے سی این این کے ایک رپورٹر کی تنخواہ اور اس کی مراعات اس رپورٹر سے کم ہوں گی جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ کابل میں خدمات دینے والے صحافی کا معاوضہ اور اس کی مراعات عام صحافیوں سے ہر حال میں زیادہ ہوں گی۔

لیکن بد قسمتی سے پاکستانی میڈیا میں اس کے بالکل برعکس ہے۔ بلوچستان اور فاٹا کے پرخطر علاقے ہوں، یا سندھ کے ریگستانی علاقے، وہاں کام کرنے والے صحافیوں کی اجرت اور ان کی مراعات بالکل معمولی ہوتی ہیں۔

کچھ اداروں کا تو بس نہیں چلتا کہ وہ ان علاقوں کے صحافی کا نام شائع کرنے کو ہی اس کی اجرت قرار دے دیں تاکہ دو چار ہزار روپے مزید بچائے جا سکیں۔

اس کے مقابلے میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئر کنڈیشنڈ نیوز روم میں کام کرنے والے صحافی کی مراعات اس ہارڈ پوسٹنگ والے صحافی سے زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں اس تصور کو بدلنا ہوگا۔ یہی اس وقت کا تیسرا بڑا چیلنج ہے۔

4: صرف کیمرا کو طاقت سمجھا جاتا ہے

پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کیمرہ ڈومنیٹڈ میڈیا ہو گیا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس کے پاس کیمرہ نہیں۔ شاید وہ صحافی نہیں یا اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں، جبکہ ایک پروفیشنل رپورٹر یا ایک پریزینٹر کی حیثیت سے اگر کیمرہ آپ پر ہے، تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ آپ جتنا جلدی ممکن ہو، کیمرہ سے جان چھڑائیں، کیوں کہ جتنی دیر آپ کیمرہ پر رہیں گے، آپ کی شخصیت ایکسپوز ہونا شروع ہو جاتی ہے، آپ کی کمزوریاں اور کوتاہیاں لوگوں پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

پاکستانی ٹی وی میں کیمرہ پر آنے والے رپورٹرز کے ہاتھ میں کبھی نوٹس نہیں ہوتے، حالاں کہ نوٹس ایک رپورٹر کی خبر کو رپورٹ کرنے میں بہترین مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بغیر نوٹس کے بولے چلے جانے کی روش نے بھی عام ناظر کو نیوز چینل سے دور کیا ہے۔

5: اینکرپرسن، پریزینٹر اور صحافی میں فرق نہیں کیا جاتا

پاکستانی صحافت کو ایک بہت بڑا چیلنج یہ بھی درپیش ہے کہ اسے اب فوری طور پر اینکر پرسن، پریزینٹر اور صحافی کی کیٹیگری کو الگ کرنا ہوگا۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک صاحب جن کا صحافت سے دور دراز سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جس نے کبھی زندگی میں بنیادی رپورٹنگ نہیں کی ہوتی، ٹی وی اسکرین پر دو چار پروگرام پریزنٹ کرکے خود کو صحافی سمجھنے لگتا ہے، اور قوم بھی اسے صحافی گردان رہی ہوتی ہے۔

یہی وہ نام نہاد صحافی ہوتا ہے جو مرنے والے کے لواحقین سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں، اور اس سے جو بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں وہ سب اہلِ صحافت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے صحافیوں کو اب بہت جلد یہ کیٹیگریز بنانا ہوں گی کہ آیا کوئی شخص صحافی ہے، یا اینکر، یا پریزنٹر۔

6: افواہوں کو خبر کا درجہ دینا عام ہے

یہ اب ایک عام معمول بن گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک افواہ کچھ ہی دیر میں نیوز چینل کی اسکرین پر خبر کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لوگ جب کسی صحافی کو سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں تو وہ آپ سے کسی نیوز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں، افواہ کی نہیں۔ اور اگر اس کے بدلے انہیں ایک افواہ ملے تو وہ بدظن ہو جاتے ہیں۔ لہذا افواہ کو نیوز چینل کی خبر میں بدلنے کے رجحان کو ختم کرنا ہو گا۔

7: رپورٹرز کے فرائض اور ضابطے متعین کرنے ہوں گے

لائیو نیوز کے کلچر کے بعد نیوز رومز کے اندر اب لازما یہ کیٹیگریز بننی چاہیئں کہ کون سا رپورٹر لائیو نیوز کور کرے گا اور کون نہیں، کون سا رپورٹر لائیو بیپر دے گا اور کون نہیں، کون سا رپورٹر حساس رپورٹنگ اور اشوز کو کور کرے گا اور کون سا نہیں. اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہر صحافی کو بذات خود صحافتی ضابطوں اور اقدار کی پیروی کرنی ہوگی۔

8: خبر بنانے کی دوڑ ختم ہونی چاہیے

ریٹنگ کے دور میں اب پاکستانی میڈیا اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ وہ خبر کو رپورٹ کرنے کے بجائے خبر کو تخلیق کرنے پر تل گیا ہے، جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس خطرناک رجحان نے صحافت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔

نیوز روم سے ایک رپورٹر سے یہ فرمائش کی جاتی ہے کوئی خبر لاؤ، نہیں ہے تو خبر خود بناؤ، کسی پرانی خبر میں مصالحہ لگاؤ، وغیرہ. خبر کو تخلیق کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں اور میڈہیا مینیجرز کو اپنی اس روش کو اب بدلنا ہوگا۔

9: کرنٹ افیئرز میں صرف سیاست نہیں

ہمیں تو بیس سالوں تک استادوں نے نیوز رومز میں یہی سکھایا کہ سارا جرنلزم کرنٹ افیئر کا کھیل ہے، لیکن ہمارے ہاں نئے رجحان یہ ہیں کہ کرنٹ افیئرز صرف سیاست ہے، جو کسی طور درست نہیں۔ کرنٹ افیئرز کے سارے پروگرام صرف سیاسی بیان بازی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمیں ایسے میڈیا مینیجرز کے لیے ایک نئی کھڑکی بنا کر انہیں دکھانا اور سمجھانا ہوگا کہ جو کچھ ہماری روز مرہ کی زندگیوں کو افیکٹ کر رہا ہے، وہی کرنٹ افیئر ہے۔ اس رجحان کو نئے سرے سے دیکھنے اور بدلنے کی ضرورت ہے۔

10: 'ذرائع' یا میڈیا ہاؤس کی خواہشات؟

ایک اور بڑا اور خطرناک رجحان جو پروان چڑھ رہا ہے، اور جسے چیلنج سمجھ کر بدلنا چاہیے، وہ ہے خواہشات کو ذرائع بنانا۔ رپورٹر ٹی وی اسکرین پر یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ "ذرائع کا یہ کہنا ہے"، یا "مبصرین کا خیال ہے۔"

حقیقت میں یہ کوئی ذرائع اور مبصرین نہیں ہوتے بلکہ یہ رپورٹر کی اور اس کے ادارے کی خواہشات ہوتی ہیں، جنہیں وہ خبر بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ ذرائع اور 'سورس' بہت مقدس ہیں، لیکن خواہشات کو ذرائع کہنا یا مبصر کا لبادہ اوڑھانا کسی طور قابل قبول نہیں۔

یہ وہ چیدہ چیدہ چیلینجز ہیں جن سے نبرد آزما ہو کر ہم صحافت کو اور ٹی وی اسکرین کو کسی حد تک عوام کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں۔

اگر ان مسائل کی درستی کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آزاد اور بے باک ہونے کی شہرت رکھنے والا پاکستانی میڈیا اپنا معیار، سنجیدگی اور ساکھ مکمل طور پر کھو دے گا، جس سے قومی بیانیے کی تشکیل کا واحد ذریعہ صرف سوشل میڈیا ہی رہ جائے گا۔

غلام مصطفیٰ

غلام مصطفیٰ سینیئر صحافی اور ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری ساز ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں تحقیقاتی صحافت کا 18 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔