نقطہ نظر

"لندن فون کردوں گی!"

ایم کیو ایم پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں، کہ مقامی ’ذمہ داروں‘ پر لندن کی آواز کس قدر گراں گزرتی تھی۔

صغریٰ آنٹی نے مہتاب بھائی کو تھپڑ رسید کر دیا!

گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں کے منہ سے یہ بات کان میں پڑی۔ گھر پہنچا تو خبر ہوئی کہ گلی کی ایک بیوہ خاتون نے کونسلر کے نامزد کردہ پانی کے امور کے ذمہ دار مہتاب پر ہاتھ اٹھایا ہے۔

یہ گزشتہ رمضان کا ذکر ہے، محلے میں پانی کا بحران شدید سے شدید تر ہو رہا تھا۔ روزے کے بعد اب یہی مصروفیت تھی کہ سب جمع ہو کر کونسلر کے دفتر چلو، آٹھ آٹھ منزلہ عمارتوں کو دس، دس منٹ پانی دینا آخر کیا طریقہ ہے؟

پانی کے مسائل کی ذمہ داری مہتاب نامی شخص پر تھی جو لوگوں کے مسائل کے جواب میں تیز طرار میں، میں، میں کرتا کہ "میں کیا کروں، پانی تو آگے سے ہی نہیں آ رہا، شکر کرو میری وجہ سے اتنا بھی مل رہا ہے!" لوگ بدظن تھے کہ اب انہیں ووٹ نہیں دینا۔

پڑھیے: ایم کیو ایم کی قیادت پریشان کیوں؟

"آخر آپ کونسلر ہیں، تو آپ کا کام مسئلہ حل کرنا ہے، اپنی ’مجبوریاں‘ بتانا نہیں۔" یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ مہتاب کے منہ کو پیسہ لگ گیا ہے تب ہی تنگ کر رہا ہے اور ہماری طرف کا وال زیادہ دیر نہیں کھولتا۔ مگر کچھ لوگ مصلحت اور کچھ خوف کی سی کیفیت میں بس اندر ہی اندر کڑھ کر رہ جاتے۔

پھر ایک دن یہ خبر ملی کہ صغریٰ باجی نے مہتاب کو تھپڑ مارے ہیں اور کہا ہے کہ ’سدھر جا، ورنہ میرے پاس لندن کا ڈائریکٹ نمبر ہے، میں بھائی کو فون کردوں گی!‘ اور وہ دن ہے اور آج کا دن، پانی وافر مقدار میں آنے لگا ہے۔

اب آتے ہیں 22 اگست 2016 کی طرف، جب کراچی پریس کلب پر ریاست مخالف نعروں کے بعد سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا، جب کسی سیاسی جماعت نے اپنے بانی اور قائد سے ہی لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے تمام تنظیمی اور سیاسی امور اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کر دیا۔

ابتداً یہ اعلان قدرے نرمی سے کیا گیا، دھیرے دھیرے اس میں درشتی آتی چلی گئی۔ متحدہ (لندن) اور متحدہ (پاکستان) نے ایک دوسرے کے خلاف بیانات بھی جاری کیے گئے۔ اس سے پہلے بھی بانی متحدہ کے بیانات کا دفاع کرتے ہوئے کراچی کے راہ نما مشکلات میں مبتلا محسوس ہوئے، لیکن وہ نہایت نظم وضبط سے لندن میں موجود اپنی قیادت پر جمع رہے۔

کئی بار ایسا ہوا کہ بانی متحدہ نے مرکزی سطح کے کئی رہنماؤں کو معطل کیا، کئی بار ان کی ذمہ داریاں تبدیل کیں، کئیوں کے عہدے واپس لیے۔ یہاں تک کہ کچھ کارکنوں نے جذبات میں آکر تنظیمی ذمہ داران کے خلاف کافی تلخی کا بھی مظاہرہ کیا۔

پڑھیے: ایم کیو ایم دفاتر کی 'ون وِنڈو سروس'

سابق ناظم شہر سید مصطفی کمال 2013 کے ایسے ہی ایک ناخوشگوار واقعے کے نتیجے میں ناراض ہو کر دبئی چلے گئے اور پھر انہوں نے اپنی الگ جماعت بنائی۔ عامر خان کے اُس وقت کے بیان کے مطابق ’انہیں جوتے اپنی حرکتوں کی وجہ سے پڑے تھے، اور انہیں اور دیگر رہنما کو تو کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا۔‘

بانی متحدہ کے نظریات اور ان کی سیاست سے اختلاف کا حق سب کو ہے، لیکن 25 سال تک مسلسل ملک سے باہر رہ کر سیاسی جماعت کی قیادت میں ان کی براہِ راست عوامی مقبولیت کا بھی بڑا حصہ ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ان کی شخصیت کا ہی سحر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

کسی سیاسی رہنما کی جمع تفریق کے باب میں لوگوں کی پذیرائی کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کارزارِ سیاست میں عوامی مقبولیت کی پہلی سیڑھی یہ ہوتی ہے کہ رہنما کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو، تب ہی تو لوگ اس کے ساتھ ہوں گے۔ یہ سلسلہ اسی اعتبار اور بھروسے کے سہارے پروان چڑھتا ہے کہ اُس کے پیروکاروں کو یہ لگے کہ وہ جس کے پیچھے کھڑے ہیں، وہی ان کو سنتا اور سمجھتا ہے اور ان کے مسائل حل کر سکتا ہے یا کرتا ہے۔

سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بالخصوص عوامی سیاست میں یہی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔ کچھ ناقدین اسے شخصیت پرستی اور ’ون مین شو‘ کہہ کر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہوتا ہے کہ شخصیت کے بجائے ادارے، تنظیم یا نظام اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی شخصیت کے بغیر بھی رواں دواں رہے۔

پڑھیے: مہاجر عوام کو پیپلز پارٹی کا انتظار

رہنما بھی فانی ہوتے ہیں۔ کل کو جب وہ دنیا سے چلے جائیں، تو ان کے بعد معاملات کیوں کر چلیں گے؟ رہنما کے بعد ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے جو انتشار اور شکست و ریخت کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مؤثر مشاورتی نظام کو ترجیح دی جاتی ہے، تاکہ ادارہ یا تنظیم پہلے کی طرح کام کر سکے اور کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ، اختلاف یا مسائل کا شکار نہ ہو۔

حالیہ ضمنی انتخابات بھی کراچی کے اس ووٹ کا تسلسل ثابت ہوئے جو ابھی تک کسی جماعت کے گرد ہی گھوما ہے۔ ملیر سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 258 اور منظور کالونی کے عرفان مروت کے صوبائی حلقے پی ایس 114 کے سوا کوئی حلقہ ایسا نہیں جو کسی مقامی شخصیت کے زیر اثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ اشخاص کے بجائے ان کی سیاسی وابستگی نے ہی نتائج میں اہم کردار ادا کیا۔

الطاف حسین دسمبر 1991 سے بیرون ملک ہیں۔ یہاں ان کے نامزَد ارکان تنظیمی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں اور عوامی نمائندگی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ کوئی بھی فرد تنہا کسی حیثیت کا حامل نہیں، اس لیے وہ تنظیمی نظم وضبط کے دائرے میں رہتا ہے۔

ملک میں موجود ایم کیو ایم کے ان نمائندوں پر زمینوں پر قبضے، بدتمیزی اور بدمعاشی سے لے کر قتل و غارت تک کے سنگین الزامات تک عائد ہوئے۔ زیادہ تر یہ سب ملک میں موجود لوگوں پر ہی عائد ہوئے۔ یہی لوگ تھے جن کے خلاف شکایات پر قائد ناراض ہو جاتا اور طاقتوَر ’ڈپٹی کنوینر‘ سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوتا، چاہے اندر ہی اندر کتنا بیچ وتاب کھاتا ہو۔ اختیار اور عہدہ ملنے پر کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی گردن میں سریا نہیں آتا۔

پڑھیے: متحدہ قومی موومنٹ ایک ناکارہ مشین؟

اچھا ظرف انسانوں میں کم ہی ملتا ہے۔ پھر ’پیدا گیری‘ کے مواقع نظر آنے پر سیدھے چلتے رہنا بھی کم ہی لوگوں کے حصے میں اتا ہے۔ گندے اور بدعنوان سیاسی نظام میں وہ کیوں کر اپنی قیمت نہ لگائیں؟ مگر برا ہو ایک عام سی شکایت کا جس کی شنوائی ہوتی۔ تنظیم کی یہی وہ طاقت ہے، جو بڑے سے بڑے عہدے پر جانے کے باوجود کم زور سے شہری کے در پر سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیتی۔

یہاں تو لوگ مفاد کے لیے اپنے سگے باپ تک کو نہیں بخشتے، یہ تو پھر ’سیاست‘ ہے۔ ایم کیو ایم پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں، کہ مقامی ’ذمہ داروں‘ پر لندن کی آواز کس قدر گراں گزرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ موقع تاک کر اب اپنے تئیں لندن سے لائن کاٹ دی گئی کہ اس آواز کی طاقت وہی ہے جو ایک بیوہ کو ایک ہٹے کٹے مرد کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا کر دیتی ہے۔

اسے سات سمندر پار بیٹھے اس شخص سے امید ہے جو تنظیم کے کسی بھی ذمہ دار کو پٹری سے اترنے نہیں دیتا، اور اس کی یہی امید اس ذمہ دار کو خبردار کرتی ہے کہ ’’لندن فون کردوں گی!‘‘

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔