نقطہ نظر

10 سال بعد ریل گاڑی کا رومانوی سفر

جہاں ریلوے دنیا کا ترقی یافتہ شعبہ ہے، وہاں ہم ابھی بھی نصف صدی پرانا معیار برقرار رکھنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سفر کی واحد اچھی بات منزل تک پہنچنا ہے، تو پھر آپ سفر کے مزیدار پہلو سے ناآشنا ہیں۔

میں بچپن سے سفر کر رہا ہوں، اور اس دوران میں نے زمینی، بحری، فضائی، اور ٹرین، ہر طرح سے سفر کیا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے گزشتہ 10 سال سے ٹرین کا سفر نہیں کیا تھا، لہٰذا میں نے کراچی سے اسلام آباد کی ٹرین میں ٹکٹ بُک کروانے اور چند قیام کے بعد وہاں سے لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔

میں نے گرین لائن ایکسپریس ٹرین میں ایک سیٹ بُک کروائی جو کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے پارکنگ لاٹ کے سامنے ایک خصوصی پلیٹ فارم سے نکلتی ہے۔ کینٹ اسٹیشن کے باہر ٹریفک کا رش اور افراتفری ہو مگر پلیٹ فارم بلاشبہ ماضی کے برعکس زیادہ صاف تھا اور لوگوں کا رش بھی بہت کم تھا۔ پلیٹ فارم پر مختلف چھابڑی و خوانچہ فروشوں کی آوازوں، جو ہمارے ریلوے اسٹیشن کی ایک نمایاں خصوصیت ہے، کی نمایاں طور کمی محسوس ہوئی۔

گرین لائن ایکسپریس کے بزنس کلاس کا چھے برتھ والا کیبن ٹھنڈا، صاف ستھرا اور کافی آرامدہ تھا۔ سفید رنگ کے تکیے، بیڈ شیٹ اور سبز کمبل کافی صاف تھے. بوگی کے دونوں اطراف موجود واش رومز میں پانی تھا اور ساتھ ساتھ ٹوائلٹ رولز سے بھی آراستے تھے۔

ٹرین اپنے وقتِ روانگی کے مطابق ٹھیک رات 10 بجے روانہ ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مسافروں میں بہتر انداز میں پیک شدہ ٹوائلٹ کا سامان تقسیم کیا گیا. ٹی وی پہلے سے ریکارڈ شدہ تین چینلز دکھا رہا تھا: ان میں کارٹونز، ہندوستانی فلمیں اور ایک اور براڈکاسٹ شامل تھی جو میں بھول گیا کون سی تھی. سفر کی یہ ابتداء بری نہیں تھی.

قلی آپ کا سامان اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں — تصویر فہیم صدیقی/ وائٹ اسٹار

میرے ساتھی مسافروں میں چار افراد پر مشتمل ایک کراچی کی فیملی تھی، ان میں ٹین ایجر لڑکیاں اور لڑکے شامل تھے جو اپنی والدہ کے ساتھ تھے۔ ہر ایک کے پاس ایک موبائل فون تھا جس نے پورا سفر انہیں مشغول کیے رکھا، یہ کرم فرمائی وائے فائے اور ٹرین کمپارٹمنٹ کے اندر موجود چارجنگ سہولت کی تھی جس کے باعث انہیں بیٹریوں کے ختم ہونے کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اندھیرے کے باعث باہر کا نظارہ کر پانا دشوار ہو رہا تھا۔ اسی لیے میں دن کے وقت سفر کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔

چلتی ٹرین میں ہلتے ڈلتے نیند کرنی پڑتی ہے اور ہلتے رہنے کا یہ احساس سفر کے ختم ہونے کے بعد بھی کئی دن تک رہتا ہے۔ ٹرین میں دن کا آغاز کافی جلدی ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈے آملیٹ، ٹوسٹ اور چائے پر مشتمل ناشتہ باقاعدہ طریقے سے پیش کیا گیا اور پھر تمام دن ٹرین ملک کے ایک سے دوسرے کنارے تک پھیلے خوبصورت اور گونا گوں شہری و دیہی نظاروں میں سے کھڑاکھڑاتے ہوئے گزرتی رہی۔

اس بیچ چند اسٹیشنز پر تھوڑی دیر کے لیے رکتی بھی گئی۔ سرسبز و شاداب کھیت، مویشیوں کے جھنڈ، ندیاں، پل اور کہیں کہیں برستی بارش، یہ تمام نظارے مل کر بوریت دور رکھے ہوئے تھے۔ (اس دوران میں کتاب وار اینڈ پیس کے 1200 میں سے چند صفحات پڑھنے میں کامیاب رہا، جو میں نے ایک سال سے بھی پہلے پڑھنی شروع کی تھی اور ابھی تک نصف ہی پڑھ سکا ہوں!)

سفر کی خاص بات عمدہ انداز میں تیار گیا دوپہر کا کھانا تھا، جس میں گرما گرم اور لذیذ چکن بریانی تھی جس کی قیمت کرائے میں ہی وصول کر لی گئی تھی۔

کینٹ اسٹیشن کے خصوصی پلیٹ فارم پر گرین لائن ٹرین کھڑی ہے — امتیاز پراچہ

ٹرین ٹھیک اپنے وقت پر 8 بجے اسلام آباد کے مارگلہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، جسے 2015 میں دوبارہ بحال کیا گیا تھا۔

ایک ہفتہ آزاد کشمیر، راولپنڈی اور مری میں گھومنے پھرنے کے بعد میں نے اپنی واپسی کا سفر بھی اسی ٹرین پر کرنا چاہا۔ سفر کا ایک سب سے مزیدار پہلو یہ ہے کہ کچھ بھی طے شدہ نہیں ہوتا۔ سفر پر گامزن ہو جانے کے بعد آپ کو یہ ذرا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کے ساتھ آگے کیا ہوگا، کس سے آپ کی ملاقات ہوگی یا کون سی نئی حیرانیاں آپ کی منتظر ہیں۔

ٹرین اپنے وقت کے مطابق سہہ پہر 3 بجے اسلام آباد سے نکلی۔ واپسی کے اس سفر میں میرے ساتھ کورنگی، کراچی کا ایک گھرانہ ہم سفر بنا. ان میں قمیض شلوار میں ملبوس ادھیڑ عمر والدین اور ان کی باحجاب 3 بیٹیاں تھیں (ان کے پاس بھی موبائیل فونز تھے!)۔

وہ ایک خاص لہجے میں صاف اردو بول رہے تھے مگر میں نے ان کے منہ سے ایک دو لفظ ایسے بھی سنے جو کبھی نہیں سنے تھے۔ چوں کہ وہ نہایت دوستانہ اور شائستہ لوگ تھے، لہٰذا ہم نے جلد ہی آپس میں باتیں کرنی شروع کر دیں۔

پتہ چلا کہ وہ دونوں میاں بیوی برما میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر کے آئے۔ میں ان کی داستانِ زندگی بڑی ہی دلچسپی کے ساتھ سن رہا تھا، اس دوران مجھے برما کے خطہ آراکن (یا راکھائن ریاست) کے بارے میں پتہ چلا جو شمال میں چٹاگانگ، بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحقہ علاقہ ہے۔

وہاں کی ایک تہائی آبادی (10 لاکھ سے زائد) استحصال کی شکار عیسائی اور روہنگیا مسلمان اقلیتوں پر مشتمل ہے جنہیں برمی حکومت اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے. یہ اقلیتیں بدھسٹ اکثریت کے مظالم کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ انہیں دنیا کا سب سے زیادہ استحصال کا شکار گروہ تصور کرتا ہے۔

20 برس پہلے تک ملک کے اندر مسافروں کی نقل و حرکت میں پاکستان ریلوے اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نمایاں اجارہ داری ہوتی تھی، مگر جب سے زمینی ٹرانسپورٹ نے زور پکڑا اور نجی ایئرلائنز نے کام کرنا شروع کیا، تب سے حالات بڑی حد تک بدل گئے۔

ترقی یافتہ ممالک میں موجود ریلوے، جہاں آپ اپنی گھڑی کا وقت ٹرینوں کی آمد اور روانگی سے سیٹ کر سکتے ہیں، کا موازنہ اگر پاکستان سے کریں تو پاکستان ریلوے کا ادارہ نااہلیوں، ٹرینوں کی تاخیر اور مالی اسکینڈلز میں پھنسا نظر آتا ہے۔

جہاں بلٹ ٹرینوں اور ماحول دوست ریلوے کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورکس کے ساتھ ریلوے دنیا کا ترقی یافتہ شعبہ ہے، وہاں ہم ابھی بھی نصف صدی پرانا معیار برقرار رکھنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ ریلوے میں موجودہ تبدیلی کا سلسلہ جاری رہے۔

راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کسی مصروف ریلوے اسٹیشن سے زیادہ ایک نمائشی ماڈل لگا۔ وہ اسٹیشن اسٹاف اور قلیوں سے بھی کم مسافروں کے ساتھ کافی صاف ستھرا اور منظم نظر آیا۔

کراچی سے کوٹری تک 105 میل لمبی ریلوے لائن 1861 میں عوام کی آمد و رفت کے لیے کھولی گئی تھی، جسے بعد کے برسوں میں پشاور تک پھیلایا گیا تھا۔ پاکستان میں اکثر بنیادی انفرا اسٹرکچر منصوبوں (بشمول کراچی بندرگاہ) کی طرح ریلوے کا سہرا بھی برٹش راج کو جاتا ہے۔

میری واپسی کی ٹرین اپنے وقت پر کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی۔ میں نے اپنے برمی ہم سفروں کو خدا حافظ کہا۔ مصروف اور زندگی سے بھرپور سفر کے اختتام پر میں نے ایک پختون ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ کرائے پر بحث کے بعد خوشی خوشی اپنے گھر کی راہ پکڑی۔

یہ مضمون 8 جنوری 2017 کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں

امتیاز پراچہ

امتیاز پراچہ فری لانس لکھاری اور مترجم ہیں۔ سفر کے علاوہ وہ مختلف اشاعتوں کے لیے سماجی معاشیات، انٹرپرنرشپ اور کلاسیکی موسیقی کے موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔