نقطہ نظر

ریگولیٹری اتھارٹیز کے اختیارات کا مسئلہ

نیپرا میں اصلاحات کا آغاز کرنے والی نواز شریف حکومت آج خود اس کے اختیارات محدود کرنے کے درپے ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ حکومت ریگیولیٹری اتھارٹیز کو ’ختم‘ کر کے ان کے تمام انتظامات عملی طور پر اپنے ذمے اٹھانا چاہ رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ان اتھارٹیز سے متعلقہ تمام شعبوں کے لیے یقیناً یہ ایک تباہ کن صورتحال ہوگی۔

مگر فی الوقت ایسا کچھ واقع نہیں ہوا ہے۔ اس مسئلے پر زیادہ ہنگامہ کھڑا کرنے والوں میں سے زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ داؤ پر لگی ریگولیٹری اتھارٹیز میں سے سب سے اول توانائی کے شعبے کی ریگولیٹر نیپرا ہے، جو اس وقت سی پیک کے تحت اربوں ڈالرز کے منصوبوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہے۔

حکومت کی جانب سے جاری ہونے والا نوٹیفکیشن، جس میں 5 ریگولیٹری اتھارٹیز کو اپنی متعلقہ وزارتوں کے 'انتظامی کنٹرول‘ کے ماتحت کر دیا گیا ہے، حقیقت میں ایک معمولی اقدام سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ ریگولیٹری اتھارٹیز پر قبضہ کر لینے کے مترادف نہیں ہے، جیسا کہ حکومت پر الزام لگایا جا رہا ہے۔

اصل مسئلہ نیپرا ایکٹ (1997) میں مجوزہ ترامیم کا ہے جنہیں حکومت پہلے ہی ترتیب دے چکی ہے، اور اگر نیپرا کے آزادانہ حیثیت میں کام کرنے کے اختیارات کم کرنے والی ترامیم کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا تو پھر ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ اقدام ریگیولرٹی اتھارٹی کے اختیارات پر قبضہ کرنے کی جانب ایک اقدام ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایکٹ میں ترمیم صرف پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ اگرچہ صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ایسا ممکن ہے مگر وہ آرڈینینس بھی 90 دنوں تک ہی نافذ العمل رہ پائے گا، جس کے بعد اس کی تجدید یا پارلیمنٹ سے منظوری لازم ہے۔ ایک دوسرا راستہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ہے، جہاں حکومت اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترامیم منظور کر وا سکتی ہے۔

اس لیے ابھی تو ’اختیارات پر قبضے' سے ہم بہت دور ہیں، مگر پھر بھی اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ایسی خبریں آ چکی ہیں کہ نیپرا کے اختیارات محدود کرنے کے حوالے سے مجوزہ ترامیم تک رسائی اب تک صرف ایک محدود حلقے کو ہے۔ حالیہ دنوں میں ترامیم مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کی گئیں جہاں فوراً ہی اعتراضات اٹھنے شروع ہو گئے، اور ایجنڈے سے ترامیم کو خارج کر دیا گیا۔

مجھے اب تک ایسا کوئی شخص نہیں ملا ہے جس نے ان ترامیم کو دیکھا ہو مگر ان ترامیم پر نیپرا کی جانب سے دیے جانے والے تبصرے رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اہم نکات کے خلاصے پر مبنی خیبر پختونخواہ حکومت کی سمری بھی موصول ہوئی ہے۔ اگر تبصرے ایماندارانہ طریقے سے نقل کیے گئے ہیں تو نیپرا کی زبانی یہ ترامیم کافی پریشان کن ہیں۔ جب کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی سمری میں کچھ باریکیاں موجود ہیں۔

مثلاً نیپرا کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کے بعد اسے حکومتی اداروں کی ریگولیشن کی اجازت نہیں ہوگی۔ نیپرا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ ترامیم ’1992 میں کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے پروگرام کو ختم‘ کر دیں گی اور 25 سال کے طویل عرصے میں مشکلوں سے ’’توانائی کے شعبے میں لائی گئی اصلاحات واپس ہوجائیں گی۔"

یہ بات بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کہ ان اصلاحات کا آغاز بھی 1991 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ہوا تھا، اور ان اصلاحات کے تحت مطلوبہ قانون سازی (جس میں نیپرا کو تشکیل دینے والے قوانین بھی شامل ہیں) بھی 1997 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں کی گئی تھی۔

مزید یہ کہ ان ترامیم کے بعد نرخوں کا تعین سرکاری احکامات کے ماتحت ہوجائے گا، ’وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل لازمی ہوگا’ اور وفاقی حکومت کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا حق ہوگا کہ آیا اتھارٹی کا فیصلہ ’عوامی مفاد میں’ ہے یا نہیں ہے۔

علاوہ ازیں، تمام ارکان کی وفاقی حکومت کی جانب سے تعیناتی کی وجہ سے صوبوں کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔ "مکمل طور پر وفاقی حکومت کے زیرِ ملکیت اداروں کے خلاف تحقیقات اور ان پر جرمانے لگانے کے اتھارٹی کے اختیار کو وفاقی حکومت سے پیشگی اجازت لینے سے مشروط کر دیا گیا ہے۔" یہ فہرست اور بھی طویل ہے۔

مگر خیبر پختونخواہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کا مقصد صرف توانائی کی پیداوار کو لائسنس سے عاری کرنا ہے، اور لائسنس کی شرط کو صرف قومی گرڈ تک کنیکشن کی صورت تک محدود کرنا ہے۔ اس طرح آزادانہ یا کنٹرول شدہ توانائی کی پیداوار کے لیے بڑی سطح پر سرمایہ کاری ممکن ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ترامیم کا مقصد 'بجلی کی اوپن مارکیٹ تجارت' کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک فریم ورک تشکیل دینا ہے، جو کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے پروگرام کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے۔

سمری کے مطابق یہ ترامیم صرف بجلی کی مارکیٹ میں تجارت کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، جس کا خود بخود مطلب یہ بنتا ہے کہ نرخوں کے تعین میں نیپرا کے کردار کو دوبارہ سے ترتیب دینے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ زیادہ سے زیادہ نرخوں کا تعین، یا تو آزاد تجارت کے ذریعے سے یا پھر مسابقتی لحاظ سے مارکیٹ کے اصولوں پر ہونا چاہیے۔

پھر یہ مسئلہ ہے: "پالیسی معاملات میں واجب التعمیل ہدایات عوامی مفاد کے ابھرتے مسائل کو حل کرنے کے لیے مطلوب ہوں گی." عوامی مفاد کے معاملات میں "توانائی کے شعبے کی کمپنیوں کا قائم رہنا اور استحکام" شامل ہے. ان الفاظ سے صاف طور پر کمپنیوں کے منافعوں کے تحفظ کا اشارہ ملتا ہے، جو کہ مناسب نرخوں کی طرف اشارہ ہے۔

سمری کے مطابق، ’اضافی سرچارج نافذ کرنے کا اختیار بھی متعارف کروایا جا رہا ہے’، جو کہ ممکن ہے کہ قانونی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ہو رہا ہو جن میں ابھی کئی موجودہ سرچارج الجھے ہوئے ہیں، اور یوں حکومت کو وصولیوں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے بلوں میں جب چاہے درستگی کرنے کا زیادہ اختیار مل جائے گا۔ ایسا اقدام صارفین کے مفاد کے برعکس ہو گا۔

نرخوں کے تعین میں اصلاحات اور ان شعبوں میں مارکیٹ قوتوں کے کردار کو وسعت دینے کے لیے لائسنسنگ تک تو بات ٹھیک ہے۔ مگر مجوزہ ترامیم میں شامل دیگر اقدام حکومت کے ان ارادوں کے برعکس ہیں جس کا اظہار اس نے اپنی مدت کے آغاز میں کیا تھا۔

آئی ایم ایف سے قرضہ، جس کا آغاز دسمبر 2013 سے ہوا تھا، لینے کے لیے اپنے خط میں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ’توانائی کے شعبے کے انتظام و انصرام اور اس میں شفافیت یقینی بنانا ہماری سب سے بڑی ترجیحات میں شامل رہے گی۔" جبکہ ریگولیٹری اتھارٹی کے اختیارات میں وسعت بھی اس وعدے کا ایک حصہ ہے۔ اسحاق ڈار کے دستخط شدہ خط میں حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’وقت کے ساتھ نرخوں کے تعین اور نوٹیفیکیشن کا اختیار صرف اور صرف نیپرا کے سپرد ہوگا۔’’

اب اس وعدے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اور جب یہ وعدہ کیا گیا، تب سے تین برسوں میں کیا صورتحال اس قدر بدل چکی ہے کہ توانائی کے شعبے میں مجوزہ انتظامی اصلاحات کی سمت یکسر تبدیل کر دی جائے؟

اگر ریگولیٹری اتھارٹیز کے اختیارات کو ضبط کرنے کی حقیقی طور پر کوشش ہوئی تو اس کی لازمی طور پر مزاحمت کی جانی چاہیے۔ اگر جن قوانین کے تحت ریگولیٹری اتھارٹیز کا قیام کیا گیا تھا، ان میں ترمیم کی گئی تو مطلب قدم اسی جانب بڑھایا جا رہا ہے.

اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واضح ہوگا کہ شارٹ کٹ لینے کے چکر میں نواز شریف اپنی ہی روایات کو تباہ کر رہے ہیں جو ایک انتہائی تنگ نظر کام ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 دسمبر 2016 کو شائع ہوا.

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔