سرپرائز اصل میں عمران خان کے لیے ہے
محترمہ بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر جب پیپلز پارٹی کے تمام رہنما اپنی تقریروں میں پیپلز پارٹی کے مطالبات نا ماننے کی صورت میں حکومت کو لانگ مارچ کی دھمکی دے رہے تھے، تو ایسے میں 18 ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد واپس آنے والے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے اور بلاول کے الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے سب کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیا۔
پارٹی کے جیالوں سمیت دیگر لوگ جس سرپرائز کی توقع سابق صدر سے کررہے تھے، وہ یہ اعلان سن کر حیران رہ گئے اور جو لیڈران اپنی تقریروں میں جیالوں کو سرپرائز کی امید دلا رہے تھے، وہ خود بھی اس سرپرائز کو سن کر حیران رہ گئے۔
صدر زرداری نے چار مطالبات پورے کروانے کے لیے ملک بھر کے دوروں کا اعلان تو کیا، مگر کوئی حتمی لائحہءِ عمل نہیں دیا، جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کی حکومت کو ساری دھمکیاں سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔
بلاول بھٹو کے بارے میں تو کچھ عرصہ پہلے تک خبریں آ رہی تھیں کہ وہ الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ کا حصّہ بن سکتے ہیں، مگر سابق صدر کا الیکشن لڑنے کا اعلان یقیناً حیران کن تھا۔
ویسے پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہونے جا رہا کہ کوئی سابق صدر، عہدے سے فارغ ہو کر الیکشن لڑنے کے بعد رکنِ قومی اسمبلی بنا ہو۔ اس سے پہلے مرحوم سابق صدر فاروق خان لغاری بھی 2002 کے الیکشن میں کامیاب ہو کر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔
اس انتخابی حقیقت میں یقیناً نواز لیگ کو بھی شک نہیں ہوگا کہ سابق صدر نواب شاہ سے اور بلاول بھٹو لاڑکانہ سے باآسانی الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جائیں گے۔ مگر اس سے ہوگا کیا؟
پڑھیے: آصف زرداری کا 'بڑا سرپرائز' حقیقت میں ہے کیا؟
نواز لیگ کی حکومت اپنا دور اقتدار مکمل کرنے والی ہے اور تحریک انصاف سے بھی ایسے کسی کرشمے کی توقع نہیں جس سے نواز حکومت وقت سے پہلے گھر چلی جائے۔
اگر دیکھا جائے تو سابق صدر کے اس اعلان کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلے کئی مہینوں تک عمران خان نہیں بلکہ زرداری اور پیپلز پارٹی میڈیا پر چھائے رہیں گے۔
جنوری کا پہلا ہفتہ شروع ہونے کو ہے، جس میں سپریم کورٹ میں پھر سے ایک بار پاناما لیکس کیس کی سماعت نئے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوگی، لہٰذا میڈیا سمیت عوام بھی اپنی توجہ تحریک انصاف پر لگا لیں گے۔ لیکن اگر ایسے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے نواب شاہ اور لاڑکانہ کے حلقوں سے سابق صدر اور بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم شروع کرتے ہیں تو یقیناً میڈیا پیپلز پارٹی کو بھی کوریج دینے پر مجبور ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ سابق صدر نے یہ فیصلہ نواز لیگ کی حکومت کو مدّت اقتدار مکمل کروانے کے لیے کیا ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ جمہوریت کا چلتا چلاتا سلسلہ جو کہ اگلے سال مکمل ہونے کو ہے، اسے غیر جمہوری طاقتیں دخل اندازی کرکے خراب کریں۔ جس کی وجہ سے 2018 میں ہونے والے انتخابات کھٹائی میں پڑ جائیں اور پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں۔
سابق صدر اور بلاول بھٹو زرداری کے منتخب ہونے کے بعد ممکنہ طور پر سابق صدر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنیں گے، جس کی وجہ سے حکومت پر یقنی دباؤ پڑے گا۔
لیکن دیکھا جائے تو یہ بھی حکومت کے حق میں جائے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن پارلیمانی طریقہءِ احتجاج کو اپناتے ہوئے حکومت پر تنقید پارلیمنٹ کے اندر کرے گی، جس سے نا تو تیسری قوت کے متحرک ہونے کا کوئی ڈر ہے اور نا ہی نظام زندگی مفلوج ہونے کا۔
پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کو یقینی طور پر عمران خان کی طرف سے بظاہر سراہا جائے گا، لیکن درحقیقت تحریک انصاف اپنی پہلے سے کم ہوتی مقبولیت میں مزید کمی کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی اس حکمت عملی سے ناخوش ہوگی۔
علاوہ ازیں پاناما لیکس سمیت دیگر ایشوز پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان طریقہءِ احتجاج پر تضاد رہا ہے۔
تحریکِ انصاف حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کی حامی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کی حامی ہے۔ بلاول بھٹو اور سابق صدر کے پارلیمنٹ پہنچنے پر یقیناً اپوزیشن مزید مستحکم ہوگی اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی طریقہءِ احتجاج کو اپنانے پر عوامی سطح پر بھی اسے سراہا جائے گا، جس کا نقصان پھر تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔
مزید پڑھیے: زرداری کی نئی چال کتنی فائدہ مند ثابت ہوگی؟
اس کے علاوہ سابق صدر کے بیرون ملک جانے کے بعد کراچی میں کی جانے والی رینجرز کی کارروائیوں اور ان کی آمد سے ٹھیک پہلے ایف آئی اے کی کراچی میں کارروائیوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، جن میں پہلے ڈاکٹر عاصم کو حراست میں لیا گیا اور پھر سابق صدر کی آمد سے قبل ان کے انتہائی قریبی ساتھی کے دفاتر پر چھاپے مار کر مبینہ طور پر ناجائز اسلحہ قبضے میں لیا گیا۔
سابق صدر کے اس اعلان کے تناظر میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 2013 میں نیب نے از خود نوٹس لیتے ہوئے سابق صدر کے خلاف کرپشن کے پانچ مقدمات کو دوبارہ کھول دیا تھا، جن میں سے دو مقدمات میں انہیں بری کردیا گیا تھا، تاہم ابھی بھی تین مقدمات نیب میں زیر التوا ہیں۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کی وجہ سے سابق صدر بیرون ملک گئے تھے اور چیف آف آرمی سٹاف کی تبدیلی کے بعد سابق صدر واپس آگئے ہیں۔
سابق صدر کی بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ الیکشن کے ذریعے پارلیمنٹ پہنچنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چوں کہ کسی بھی رکنِ قومی اسمبلی کو گرفتار کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کی اجازت درکار ہوتی ہے، اس لیے اسمبلی کی رکنیت ہونے پر آصف زرداری کسی بھی مقدمے میں ممکنہ گرفتاری سے بچ جائیں گے۔
بلاول بھٹو کو اپنے ساتھ پارلیمنٹ لے جانے کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھٹو خاندان کی اہمیت کو استعمال کر کے پیپلز پارٹی کو اقتدار دلوایا جاسکے۔
سابق صدر کے الیکشن لڑنے کے عزائم کچھ بھی ہوں، لیکن یہ تو طے ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے علاوہ سابق صدر اور بلاول بھٹو زرداری حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنائیں گے، لیکن اس تنقید کا حکومت کو نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہی ہوگا۔
نقصان صرف اور صرف عمران خان کو ہوگا جن کی تحریک چار حلقوں کی تحقیقات کے مطالبے سے شروع ہوئی، مگر چار سال میں بھی حکومت کو گھر نہیں بھیج سکی۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔