نقطہ نظر

تعلیمی معیار کی پسماندگی میں امتحانی نظام کا کردار

یہ سچ ہے کہ تعلیم حکومت کی بجٹ ترجیحات میں نہیں لیکن چند انتظامی اصلاحات کے ذریعے نظامِ تعلیم میں بہتری لائی جا سکتی ہے.

یونیورسٹیوں اور دیگر پروفیشنل اداروں میں زیرِ تعلیم لاکھوں طلبہ و طالبات سال میں کئی بار امتحانی مراحل سے گزرتے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی امتحانی نتیجے کے بعد طلبہ وطالبات امتحانی نظام کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

انتظامیہ کے نزدیک یہ مظاہرین طلبا کمزور یا نالائق امیدوار ہوتے ہیں جو فیل ہونے پر خوامخواہ واویلا کر رہے ہیں، جبکہ طلبہ وطالبات کا مؤقف ہوتا ہے کہ پرچوں کی مارکنگ درست نہیں ہوئی، پرچے کے سوالات کورس سے باہر کے تھے، امتحان کا وقت کم تھا، یا بدانتظامی کی وجہ سے ان کو فیل کردیا گیا ہے۔

احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات اکثر انصاف کے لیے عدالتوں کا رخ بھی کرتے ہیں۔ چوں کہ یونیورسٹیوں میں شکایت کے ازالے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان میں تعلیمی محتسب کا ادارہ قائم ہے، سو انصاف کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

ہمارا عدالتی نظام جو کہ پہلے سے ہی مقدموں کا بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اس میں ایک اور مقدمے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج ہم اس مسئلے کو سمجھنے اور اس کے ممکنہ حل پر غور کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں موجودہ امتحانی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ امتحانی نظام

بد قسمتی سے موجودہ جدید دور میں بھی پاکستان کے اکثر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں قدیم امتحانی نظام نافذ العمل ہے جو کہ تحریری طرز کا ہوتا ہے۔ امیدواروں کو تحریری صورت میں سوالات کے طویل جوابات دینے ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ اداروں میں معروضی طرز پر کثیر الانتخابی سوالات (ایم سی کیوز) کو بھی شامل کیا گیا جو کہ عموماً کُل امتحانی پرچے کا 15 سے 20 فیصد ہوتا ہے۔

اس پرانے نظام کے تحت یونیورسٹیاں 'بڑی محنت' سے امتحانی پرچے تیار کرتی ہیں۔ پرچوں کی تیاری، ترسیل اور امتحان کا انعقاد سخت نگرانی میں ہوتا ہے۔ اگر تو یہ پرچے یونیورسٹی کے کسی ذیلی کیمپس یا کالج میں ہو رہے ہیں تو ضلعی انتظامیہ بھی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 144 کا نفاذ کرتی ہے اور پولیس بھی امتحانی سینٹر کے باہر 'سخت نگرانی' کرتی ہے۔

امتحانی سینٹر میں امیدوار پرچہ حل کرتا ہے، جس کے بعد وہ پرچے دوبارہ 'سخت نگرانی' میں یونیورسٹی پہنچتے ہیں، جہاں اس شناخت کو تبدیل کر دیا جاتا ہے (یعنی رول نمبر والا صفحہ الگ کر کے نیا سیریل نمبر لگایا جاتا ہے)۔ جوابی کاپی کے خالی صفحات پر ’خالی ہے‘ کی مہر لگائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ممتحن کو مارکنگ کے لیے جوابی کاپیاں ارسال کر دی جاتی ہیں تاکہ بدعنوانی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

ممتحن حضرات کچھ طے شدہ اصولوں کے مطابق ان پرچوں کی مارکنگ کرتے ہیں۔ چوں کہ انہیں ادائیگی فی کاپی کے حساب سے کی جاتی ہے۔ اس لیے جو ممتحن زیادہ پرچے چیک کرتا ہے، اسے زیادہ معاوضہ ملتا ہے۔

امتحانی پرچے چیک ہو کر دوبارہ یونیورسٹی پہنچتے ہیں، جہاں یونیورسٹی کا عملہ ان پر جائزہ لے کر ایوارڈ لسٹ اور دیگر فہرستیں تیار کرتا ہے۔

فائنل رزلٹ کو ایک کتاب (گزٹ) کی صورت میں شائع کر دیا جاتا ہے۔ اکثر یونیورسٹیوں میں یہ کاغذ پر شائع ہوتا ہے۔ لیکن کچھ یونیورسٹیاں آن لائن ویب سائٹ پر بھی شائع کر دیتی ہیں۔

موجودہ امتحانی نظام میں خامیاں

اس نظام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں وقت بہت زیادہ لگتا ہے۔ خاص طور پر جب امیدواروں کی تعداد زیادہ ہو تو رزلٹ مکمل کرنے میں کئی ماہ درکار ہوتے ہیں۔ مثلاً بی اے، بی کام، ایل ایل بی اور ایم اے کے امتحانون کے نتائج عموماً چار سے چھے ماہ کے بعد تیار ہوتے ہیں۔ سخت نگرانی کے باوجود بھی یہ امتحانی نظام بدعنوانیوں سے غیر محفوظ ہے۔

غلطیوں کے امکانات موجود رہتے ہیں

چوں کہ اس امتحانی نظام میں تمام تر کام انسان کرتے ہیں اس لیے اس میں انسانی غلطی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے نظامِ امتحان پر اخراجات بھی کافی زیادہ ہوتے ہیں، جن میں سال در سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی یہ اخراجات امیداروں سے فیس کی صورت میں، اور حکومت سے گرانٹ کی صورت میں وصول کرتی ہے اور حکومت ٹیکس کے ذریعے عوام سے حاصل کرتی ہے یعنی عوام ہی اس ناقص امتحانی نظام کے مالی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

غیر منصفانہ نظام

سارا سال پڑھنے کے بجائے آخری چند ہفتوں میں چند اہم سوالات تیار کر کے اچھے نمبرز حاصل کرنا آسان ہے۔ اس نظام میں نا انصافی اور بد عنوانی کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ چوں کہ یہ ایک ناقص طریقہ کار ہے اس لیے اس میں قابل طُلبا فیل اور کم محنت کرنے والے اچھے نمبر لے سکتے ہیں۔

مثلاً ایم اے کی سطح پر اکثر یونیورسٹیوں میں سو نمبر کے پرچے میں چار سوال حل کرنے ہوتے ہیں۔ اب جن امیداروں نے دو سو موضوعات کی تیاری کی اور جنہوں نے گیس پییرز سے دس سوال تیار کیے، ناقص طریقہ کار کی وجہ سے دونوں کے نمبرز برابر یا گیس پییرز والے کے نمبر زیادہ آ جاتے ہیں، جس سے گیس پییرز، گائیڈ، حل شدہ سابقہ پرچہ جات کا بزنس دن بہ دن ترقی کر رہا ہے۔

ممتحن کے فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا

قدیمی طرزامتحانی نظام میں امیدواروں کے مستقبل کا کلی اختیار ممتحن حضرات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ ممتحن کی مرضی پر ہے کہ وہ کسی 25 نمبر والے سوال کے 17 نمبر دیں یا 7، کوئی اس کے فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتا۔

اس امتحانی نظام کو چلانے والوں کے بقول "ممتحن کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا" والا اصول صحیح ہے۔ دوسری صورت میں (ری مارکنگ/ری ایویلیوایشن کی اجازت سے) ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

پرچہ جات کی ری چیکنگ میں انصاف مل سکتا ہے؟

اگر قابل امیداروں کے ساتھ ناانصافی ہو جائے تو انہیں انصاف ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کیوں کہ اول ری چیکنگ ہوتی ہی نہیں، بلکہ ری کاؤنٹنگ ہوتی ہے، اور دوسرا یہ کہ یونیورسٹیوں نے فی پیپر ری کاؤنٹنگ کی فیس بہت زیادہ مقرر کر رکھی ہے، تاکہ رش کم ہو۔

اس میں صرف یہ چیک کیا جاتا ہے کہ کسی سوال کے نمبر شمار ہونے سے تو نہیں رہ گئے اور نمبروں کا ٹوٹل درست ہے۔ یعنی اگر ممتحن صاحب نے کسی 25 نمبر والے سوال کے 6 نمبر دیے ہیں تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے علاوہ امیداور کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

اس سارے مسئلے کا حل کیا ہے؟

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ امتحانی نظام کو باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور جو کام دنیا بھر کی یونیورسٹیاں آن لائن امتحانی نظام کی صورت میں ایک طویل عرصے سے کر رہی ہیں، وہی کام ہمیں بھی اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں رائج کرنا ہوگا۔ جس میں امیدوار کمپیوٹر پر پپیرز دیتا ہے اور کمپیوٹر آن لائن سرور سے منسلک ہوتا ہے جو تمام طلبا و طالبات کے سامنے مختلف سوالات پیش کرتا ہے۔

یہ جدید نظام انتہائی مؤثر ہے۔ اس میں سوالات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جس سے چار سوالوں/یعنی چار موضوعات کے بجائے 50 سے 60 سوالوں یا موضوعات کے ذریعے امیدواروں کی قابلیت کا اندازہ بہتر طریقے سے لگانا ممکن ہو جاتا ہے۔

مؤثر سوفٹ ویئر نظام ہونے کی وجہ سے اس میں غلطیوں کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں، غلطیوں کی فوری نشان دہی ہو جاتی ہے اور ان کا فوری ازالہ بھی ممکن ہوتا ہے۔

اس جدید نظام کے فوائد نیچے درج ہیں۔

کم اخراجات

اس نظام پر لاگت کم آتی ہے۔ اگرچہ شروع میں کچھ زیادہ اخراجات ہوتے ہیں لیکن ایک بار کی سرمایہ کاری ہے کیوں کہ ایک بار نظام کمپیوٹرائزڈ کرنے کے بعد آئندہ برسوں میں قدیم نظام کے مقابلے جدید نظام میں اخراجات انتہائی کم ہوتے ہیں۔

اس نظام کا انتظام کرنا کوئی مشکل کام نہیں، تیار شدہ اور اپنی مرضی کے آن لائن امتحانی سسٹمز اور اپنے خاص سوالات کا ڈیٹا بیس تیار کرنے والے ماہرین پاکستان میں باآسانی اور نہایت کم فیس پر دستیاب ہیں۔

ایک اوسط درجے کا سوفٹ ویئر پروگرامر بھی اس امتحانی نظام کو تیار کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بہت سے اہم جزو (آٹومیشن سسٹم ماڈیول) فری میں دستیاب ہیں۔

استعمال اور نگرانی میں سہولت

چوں کہ اس میں اکثر کام سوفٹ ویئر کو انجام دینا ہوتا ہے، اس لیے امتحانی سینٹر کی نگرانی، پرچہ جات کی تیاری، پرنٹنگ، ترسیل، ڈاک کے اخراجات، جوابی کاپیوں کی تیاری، مارکنگ وغیرہ میں بہت کم افرادی قوت استعمال ہوتی ہے۔

شفافیت

مروجہ امتحانی نظام میں امیداروں کو حل شدہ جوابی کاپیاں واپس نہیں کی جاتیں، اس وجہ سے فیل یا کم نمبرز حاصل کرنے والے طلبا کو اپنی اصل غلطیوں کا درست طور پر علم ہی نہیں ہو پاتا۔

وہ صرف فرض کرتا ہے کہ اس نے یہ غلطی کی ہوگی، جبکہ جدید آن لائن امتحانی نظام میں امیدوار کو حل شدہ جوابی کاپی فوری طور پر پرنٹ کر کے یا ای میل کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہے۔

اس طرح اعلیٰ تعلیم ادھوی چھوڑ جانے والوں کی تعداد میں اچھی خاصی کمی ہو سکتی ہے۔

غلطیوں اور بدعنوانی سے پاک

روایتی طریقہ کار میں امتحانی سینٹر میں نقل اور بدعنوانی کو روکنا ایک مشکل اور مہنگا عمل ہوتا ہے۔ جبکہ جدید نظام میں ہر امیدوار کو دوسرے کے مقابلے میں مختلف پرچہ ملتا ہے۔

سوفٹ ویئر کی مدد سے کسی کمپیوٹر گیم کی طرح آسان اور مشکل سوال پوچھ کر ان کی قابلیت کا بہتر طور پر اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ اس طرح ممتحن صاحب کی محنت نہ صرف کم ہو جاتی ہے بلکہ ان کے لامحدود اختیارات کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت یہ نظام کہاں زیر عمل ہے؟

پاکستان کے چند شعبہ جات میں یہ نظام گزشتہ کئی برسوں سے کامیابی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ جس کی نمایاں مثال ورچوئل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پاکستان، پاکستان آرمی کے مختلف بھرتی مراکز کے علاوہ پنجاب میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کے امتحانات بھی ایک عرصے سے اسی نظام کے تحت منعقد کیے جاتے ہیں، جس میں تقریباً 20 لاکھ طلبہ طالبات کا رزلٹ ایک ماہ میں تیار کر لیا جاتا ہے جبکہ امتحانی بورڈ کا عملہ 20 کے قریب افراد پر مشتمل ہے۔

جدید امتحانی نظام کے لیے اضافی تعلیمی بجٹ درکار نہیں

عموماً جب بھی کسی ٹی وی پروگرام میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز صاحبان سے پاکستان کی یونیورسٹیوں کے کم درجے پر ہونے کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ اس کا ذمہ دار حکومت اور خاص طور پر تعلیم پر مختص کم بجٹ کو قرار دیتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ تعلیمی بجٹ میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ لیکن امتحانی نظام کی بہتری سمیت دیگر انتظامی اصلاحات کر کے بغیر اضافی بجٹ کے نظامِ تعلیم بہتر کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیورسٹی حکام جلد از جلد امتحانی نظام کی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور جزوی یا کُلی طور پر آن لائن امتحانی نظام کو اختیار کریں۔

ابتدائی طور پر یونیورسٹیوں کو ان شعبہ جات، جہاں امیداروں کی تعداد کم ہے، میں اس جدید امتحانی نظام کا تجربہ کرنا چاہیے اور پھر مرحلہ وار پورے امتحانی نظام کو اس جدید آن لائن امتحانی نظام میں تبدیل کردینا چاہیے۔

حسن اکبر

حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔