فقیرو فقیرا: مٹی سے احساسات گوندھنے والا مجسمہ ساز
سندھ کے مائیکل اینجلو 'فقیرو فقیرا' سے ایک ملاقات
سقراط نے کہا تھا کہ "ہر پتھر میں ایک تصویر ہوتی ہے، پتھر کو تراش کر تصویر نکالنا مجسمہ ساز کا کام ہے۔" عظیم فلسفی کی اس بات کو دنیا بھر کے سنگ تراشوں اور مجسمہ سازوں نے گانٹھ کی طرح من کے پلو سے باندھ لیا۔
پتھروں کو کاٹتے، توڑتے، بناتے، بگاڑتے، چھیڑتے اور چھیدتے ایک بڑے اطالوی آرٹسٹ نے دو قدم آگے بڑھ کر یہ کہا کہ "فطرت کا ظلم یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ شاہکاروں کو پتھروں میں قید کر دیا ہے۔ مجسمہ ساز کا کام ہے کہ ان پتھروں کو تراش کر مقید شاہکاروں کو رہائی دلائے۔"
پھر دنیا نے دیکھا کہ اس مجسہ ساز نے پتھروں میں مقید ایسے شاہکاروں کی جان چھڑوائی کہ صدیاں گزر چکیں لیکن وہ تراشے ہوئے بے جان مجسمے آج تک زندہ و تابندہ ہیں۔ دنیا اس عظیم آرٹسٹ کو مائیکل اینجلو کے نام سے جانتی ہے۔
یہ مجمسہ سازوں کا کمال ہے کہ وہ ایسے حسین شاہکار بناتے ہیں کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ابھی ہم کلام ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مجسمہ بنانے کے بعد مائیکل اینجلو نے اسے دیکھا اور پھر غصے میں آکر اس کے گھٹنے پر ہتھوڑا دے مارا کہ "تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے۔"
اسی مائیکل اینجلو کا ایک روحانی شاگرد ٹنڈوالہیار میں بھی رہتا ہے۔ نام ہے فقیرو میگھواڑ المعروف فقیرو فقیرا۔ فقیرو کے دادا برصغیر کے بٹوارے سے قبل گجرات ریاست کے ضلع بناس کانٹھا کے ایک گاؤں سے آ کر عمر کوٹ کے قریب شادی پلی میں آباد ہوئے، جس کے بعد روزگار اس خاندان کو ٹنڈوالھیار کھینچ لایا۔