نقطہ نظر

حمود الرحمان کمیشن کی اصل رپورٹ کہاں گئی؟

زرینہ بی بی ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ان ”مقدس“ بکسوں کو دیکھا جن میں حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کی دستاویزات تھیں.

حمود الرحمان کمیشن سے اسامہ بن لادن کمیشن تک اس دھرتی کے سینے میں اتنی صلیبیں گڑی ہیں کہ اگر ہماری مقتدر منتخب قیادتیں اور سول ملٹری بیوروکریسی ایک صفحہ پر آکر بند کمروں ہی میں ان پر نگاہ ڈال لیں تو خونِ ناحق رِسنا کم ہوسکتا ہے، اور یہ خون ناحق کسی اور کا نہیں بلکہ پاکستانیوں ہی کا ہے، چاہے وہ مشرقی پاکستان کے باسی تھے یا مغربی پاکستان کے مکین۔

کہنے کو تو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ منظرِعام پر آچکی ہے، کیوں کہ ہندوستان سے دو جلدوں میں یہ داستان چھپ گئی تھی، مگر جب آپ زرینہ بی بی کی کہانی سنیں گے تو آپ بھی اس دھوکے کو تج دیں گے۔

زرینہ بی بی ان چند گواہوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ان ”مقدس“ بکسوں کو دیکھا جن میں حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کی دستاویزات مقید تھیں۔ یہ مل ملا کر کل 39 بکسے تھے۔

لاہور کی ککّے ذئی برادری سے تعلق رکھنے والی باہمت زرینہ بیگم نے یہ کہانی ریکارڈ کروائی، بلکہ بائیں بازو کے ایک رسالے میں ان کی زندگی ہی میں چھپی بھی جس کا میں ان دنوں ایڈیٹر تھا۔

وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو 1971 کے واقعات کے حوالے سے ایک کتاب لکھوانا چاہتے تھے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ انہوں نے یہ کتاب لکھنے کی ذمہ داری اک ایسے شخص کو دی جن کا تحقیقی کام عالمی سطح پر مستند مانا جاتا ہے۔ ان کا نام تھا خورشید کمال عزیز جنہیں سب ”کے کے عزیز“ کے نام سے جانتے ہیں اور علم و تحقیق کے سمندر میں وہ عالمی سطح پر پاکستان کی ایک روشن پہچان ہیں۔ زرینہ بی بی ان کی بیگم تھیں۔

ان کے بقول 1971 کے متعلق کتاب پر کام کرنے کے دوران ایک دن ”کے کے“ نے وزیرِ اعظم سے کہا کہ اس کتاب پر کام کرنے کے لیے انہیں حمودالرحمان کمیشن رپورٹ پڑھنی ہوگی۔

بھٹو صاحب نے حکم جاری کر دیا اور پھر جنرل امتیاز نے ان صندوقوں کو ہمارے گھر پہنچانے کا انتظام کیا۔ تقرییاً 9 مہینوں تک یہ صندوق برابر ہمارے گھر آرمی کی ایک گاڑی میں لائے جاتے تھے۔ ”کے کے“ نے ان سب کو پڑھا اور نوٹس بنائے۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ بھٹو کو اس سب کی سزا بھی دی گئی۔ تاہم پہلے آپ یہ پڑھیں کہ زرینہ بی بی نے اور کیا بتایا۔

پڑھیے: آخر بنگالی چاہتے کیا تھے؟

”کے کے“ نے تو کتاب مکمل کرنے کے بعد وزیراعظم کو 1975 میں دے دی تھی، مگر وزیرِ اعظم نے بتایا کہ وزارتِ داخلہ اس مسودے پر اپنی رائے دے گی۔

اس وقت وزیرِ داخلہ خان عبدالقیوم خان تھے اور ان کی موجودگی میں کیسے وزرات داخلہ نے اسے لٹکائے رکھا اور کون کون اس کتاب کے چھپنے کے خلاف تھا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس دور میں سیکریٹری داخلہ کون تھے اس بارے میں محقق پتہ کروا لیں۔

”کے کے“ کے پاس اس کتاب کی کاربن کاپی تھی جسے ضیاء الحق کے دور میں قدرت اللہ شہاب بڑی چالاکی سے لے اڑے۔ یہ داستان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ”مقدس“ بکسے تو حکومتِ پاکستان کی تحویل ہی میں ہیں۔ جو کتاب بھارت سے چھپی وہ کون سی ہے، اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں، کیوں کہ وہ ''کے کے'' والی اصلی کتاب نہیں ہے۔

آج اس سانحہ کو گزرے 45 برس ہونے کو ہیں۔ اس معاملے پر ہنری کسنجر کے گمراہ کن تازہ بیان کو بھی آپ پڑھ چکے ہوں گے جس پر میں نے مضمون لکھا تھا۔ ان گذرے 45 برسوں میں، خصوصاً 5 جولائی 1977 سے لے کر 2016 تک جو کچھ بھی ہوا، اس سب سے ہم واقف ہیں۔

پہلے ریاست کو طالبان بنانے پر لگایا گیا اور اس کارخیر میں سیکولر مغرب و امریکہ پیش پیش رہے، پھر 9/11 کے بعد طالبان کو گرانے پر لگایا گیا۔ کیسے پراجیکٹ بدلا، اس سے کم از کم پاکستانی تو واقف ہی ہیں۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جب بھٹو صاحب نے حمودالرحمان کمیشن بنایا تھا تو اس کا تعلق محض 1971 کے واقعات سے نہیں تھا، بلکہ اس میں 1947 سے 1971 کے تمام حالات کا جائزہ لیا گیا تھا، کیوں کہ کوئی بھی مسئلہ نہ تو ایک دن میں کھڑا ہوتا ہے نہ اسے ایک حکم سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

اب آج کل جو پانامہ ڈرامہ رچایا جا رہا ہے، یہ سب پاجامہ ادھیڑ کر سینے کے سوا کچھ نہیں۔ رشوت ستانیوں اور ریاستی طاقت سے منفعت سمیٹنے کا کام کوئی نیا تو نہیں، یہ تو ہندوﺅں، سکھوں کی جائیدادوں پر قبضوں سے شروع ہوا تھا۔ محض وزیرِ اعظم کو ہٹانے یا پکڑوانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

پڑھیے: ہم کہ ٹھہرے اجنبی ...

بھٹو صاحب بھی جانتے تھے کہ بنگالیوں کے ساتھ جو ظلم ہوئے ان کا کُھرا فیڈریشن کے اصولوں کو نہ ماننے کی پالیسی تک جاتا ہے جس کا آغاز قائدِ اعظم کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد جیسی مبہم دستاویز منظور کرنے سے دو ماہ قبل ہوگیا تھا۔

گہری سوچ بچار کے بعد لیاقت علی خان، چوہدری محمد علی اور پہلی آئین ساز اسمبلی کے بنگالی اسپیکر مولوی تمیزالدین خان نے مشرق و مغرب میں مقبول ترین مسلم لیگی رہنما اور تحریکِ پاکستان کے روشن ستارے حسین شہید سہروردی کی اسمبلی رکنیت قرارداد مقاصد منظور کروانے سے قبل نہ صرف منسوخ کروا ڈالی تھی، بلکہ انہیں بھارتی ایجنٹ بھی قرار دیا گیا تھا۔

یہی نہیں، بلکہ قرارداد کی منظوری سے قبل پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ افتخار حسین خان ممدوٹ کی حکومت کو ”بدعنوانیوں“ کی آڑ میں ختم کر کے گورنر راج لگا دیا گیا تھا۔ یہ گورنر راج پاکستان کے پہلے صوبائی انتخابات تک جاری رہا تھا جو پنجاب میں مارچ 1951 میں ہوئے تھے، اور اگلے دن اخبارات میں ”جھرلو“ کی سرخیاں لگی تھیں۔

سہروردی کی ”چھٹی“ اور پنجاب میں گورنر راج بظاہر قراردادِ مقاصد لانے کی تیاریاں تھیں مگر درحقیقت اشرافیہ کی رال ہندوﺅں اور سکھوں کی چھوڑی جائیدادوں پر تھی۔ میاں افتخارالدین نے کہا بھی کہ ان جائیدادوں کو ”قومی تحویل“ میں لے لیں مگر جن کی ”مالِ غنیمت“ پر نظر تھی انہوں نے میاں صاحب کو مسلم لیگ ہی سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

1950 کی دہائی میں محض بنگالیوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے ون یونٹ بنانا بھی ایسی خودکش مہموں ہی کا شاخسانہ تھا۔

بنگالی کہتے رہے کہ ہمیں دارالحکومت کراچی کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے مگر حکمران بدمست رہے۔ رہی سہی کسر پہلے دو مارشل لاﺅں نے نکال دی کہ اب پالیسیاں وہ بناتے رہے جن کا پالیسی سازی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

پڑھیے: 71ء کی کہانی: کوا سفید ہے، بنگال پاکستان ہے

مرکز کراچی سے اسلام آباد تو چلا گیا مگر بنگالیوں کے بارے میں پالیسیاں وہی رہیں۔ اگر 1970 کی دہائی میں ہم حمودالرحمان کمیشن رپورٹ سے استفادہ کر لیتے تو پھر ان بدبخت پالیسیوں سے بچا جاسکتا تھا جو 1980 کی دہائی سے ہمارا مقدر ٹھہریں۔

ایک حمودالرحمان رپورٹ ہی کیا، ہم نے تو اس کے بعد اوجڑی کیمپ اور اسامہ بن لادن کی موت بارے بھی جو کمیشن بنائے ان کی سفارشات کو بھی صیغہ راز رکھا۔ البتہ کچھ ہرکاروں کو محض ماڈل ٹاﺅن کمیشن کی رپورٹ ہی کا مطالبہ کرنا ہوتا ہے۔

قالین کے نیچے گند چھپانے سے بلا آخر تعفن پیدا ہوتا ہے اور اس کے اثرات بعض اوقات ناقابل یقین حد تک تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایک صوبائی خودمختاری کے مسئلے سے ڈر کر ہم نے بنگالیوں کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا۔ 6 برس قبل سیاستدانوں نے بذریعہ اٹھارہویں ترمیم اس دیرینہ مسئلے کو 2010 میں حل کر ڈالا تو پچھلے 6 برسوں میں کون سا طوفان آگیا؟ پر اگر یہی کام 6 دہائیوں قبل کر لیا گیا ہوتا تو شاید آج بہت کچھ مختلف ہوتا۔

اگر باہمی مشاورت کی جائے تو دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جو حل نہ ہوسکے، مگر اس کے لیے تمام کھلاڑیوں کا ایک جگہ بیٹھنا لازم ہے۔

اگر 45 برس بعد سول ملٹری قیادتیں ایک جگہ بیٹھ کر دیرینہ مسئلوں کو حل نہ کر پائیں اور پارلیمانی کمیٹیوں میں ان کے بارے میں بحث نہ ہوسکے تو پھر کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

یہ وقت ہے کہ نیلسن منڈیلا کی تقلید میں ”سچ اور مفاہمت“ پر مبنی کمیشن بنایا جائے اور سب ان کیمرہ اس کے روبرو پیش ہوں۔ صیغہ راز میں موجود تمام دستاویزات بشمول حمود الرحمان کمیشن رپورٹ یہاں جمع کروائی جائیں۔ اپنے دریچے میں گڑی صلیبوں کو زمین سے نکال کر کاندھے پر اٹھانے سے ہی ہم اس جنجال سے نکل پائیں گے۔

عامر ریاض

عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔