لال مرچوں کی سرزمین پر گزرتی زندگی
"ایک بار کسی راجہ نے اپنے دو بیٹوں سے پوچھا کہ، ’’تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو؟‘‘ بڑے بیٹے نے جواب دیا، ’’اس دنیا میں سب چیزوں سے زیادہ‘‘۔ راجہ کو جواب بہت پسند آیا۔ جبکہ چھوٹے بیٹے نے جواب دیا کہ، ’’مجھے آپ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی مجھے مرچیں پسند ہے۔‘‘ راجہ اس جواب سے مایوس ہوا اور اپنے چھوٹے بیٹے کو محل سے نکال دیا۔ برسوں بعد محل بدر بیٹے ہو چکے بیٹے نے بھس بدل کر راجہ کو کھانے کی دعوت پر بلوایا۔ جب راجہ براجمان ہوئے تو ان کے سامنے تمام اقسام کے طعام رکھے تھے۔ انہوں نے باری باری ہر کھانے کو چھکا مگر کسی میں بھی ذائقہ نہ پایا۔ وہ غصے سے پھٹ پڑے کہ ’’ان میں مرچیں کیوں نہیں ہیں؟‘‘ اس پر ان کا بیٹا اپنے بھیس سے نکل کر بولا، ’’میں نے جب میں نے کہا تھا کہ میں آپ کو مرچ جتنا ہی پیار کرتا ہوں اس سے میری مراد یہی تھی کہ آپ کے بغیر میری زندگی بے ذائقہ ہے۔‘‘
مذکورہ کہانی اسکول ٹیچر یونس ملکانی بیان کرتے ہیں اور ہنس پڑتے ہیں۔ ان کے گاؤں مادَو سولنکی جو سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں واقع ہے، جہاں کئی باسیوں کی زندگی میں مرچوں کا تعلق نہ صرف ذائقے سے ہے بلکہ خود زندگی کا دارومدار بھی انہی مرچوں پر ہے۔