کیا پاکستان میں بھی کوئی ڈونلڈ ٹرمپ آ سکتا ہے؟
دنیا بھر میں وطن پرست عوامیت پسندی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ذہن میں یہ سوچ آتی ہے کہ کیا پاکستان میں بھی ایسا کچھ ہوگا؟
مودی کے حکومت میں آنے اور ساتھ ساتھ آر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی تنظیم کے مزید مضبوط ہونے سے ہمارے ملک میں بھی اس کے مقابل کسی قوت کے ابھرنے کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔
کیا پاکستان میں بھی ایسی ہی کوئی تحریک اٹھے گی جس کے نتیجے میں ٹرمپ، لی پین، مودی، اردوان، اور ڈوٹیرٹ کو سیاسی کامیابیاں اور تشہیر حاصل ہوئی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے اچھا رہے گا کہ ہم ایک خاکہ ترتیب دیں کہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں جدید عوامیت پسند تحریک کیسی لگے گی۔ دنیا بھر میں موجود عوامیت پسندوں میں جو ایک قدر مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مشترکہ شناخت رکھنے والے اس گروہ کو لبھانے میں کامیاب رہتے ہیں جو ویسے تو بے تحاشہ ووٹ رکھتا ہے، مگر اس میں احساسِ محرومی اور دیوار سے لگائے جانے کا احساس موجود ہوتا ہے۔
یہ بات ہندوستان میں کوٹہ سسٹم سے نالاں متوسط اور اونچی ذات کے ہندوؤں، امریکا، فرانس اور برطانیہ میں امیگریشن، معاشی کساد بازاری اور ثقافتی تبدیلیوں سے نالاں سفید فاموں، اور ترکی کے اناطولیہ میں سرکاری سرپرستی میں سیکیولرازم کی ترویج سے نالاں قدامت پرست مسلمانوں پر صادق آتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے دو طرح کے ممکنہ سماجی گروہ یا شناختیں ہیں جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ عددی برتری رکھتی ہیں۔ میں انہیں ممکنہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ یہ گروہ بظاہر تو متحد نظر آتے ہوں، مگر گذشتہ 70 سالوں میں وہ باشعور سیاسی گروہ کے طور پر شاید ہی کبھی اکھٹے رہے ہوں۔
پہلا گروہ شمالی اور وسطی پنجاب، اور تقسیم کے بعد جنوبی پنجاب میں رہائش اختیار کرنے والے باشعور پنجابییوں پر مشتمل ہوگا۔ اگر معجزاتی طور پر ایک قوم پرست رہنما پنجابی قوم پرستی اور برتری کے بیانیے کے ساتھ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، تو وہ ملک کے تقریباً 40 فیصد رائے دہندہ عوام پر کنٹرول حاصل کر لے گا۔ ہمارے موجودہ سیاسی نظام میں یہ تکثیریت پیدا کرنے کے لیے تو کافی تعداد ہے، مگر فیصلہ کن اکثریت نہیں ہے۔
مگر حالیہ دور میں پنجابی عوامیت پسند لہر کے اٹھنے اور عوام کو اپنا گرویدہ بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ 'پنجابی ثقافتی شناخت' کا نعرہ کم ہی لوگوں کو متاثر کرے گا۔ دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب منتقل ہونے اور معاشی ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے کے دوران زبان اور دیگر ثقافتی شناختوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ متوسط اور بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی دوسری اور تیسری نسلیں زیادہ آسانی سے انگلش اور اردو کو اپنا لیتی ہیں۔ نتیجتاً اس بات پر زیادہ اتفاق نہیں ہے کہ شہری پنجاب میں پنجابی ثقافت کے اندر کیا کیا چیزیں شامل ہیں۔
دوسری اور زیادہ واضح رکاوٹ یہ ہے کہ پنجابیوں کے پاس خود کو دیوار سے لگا ہوا محسوس کرنے کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے۔ ریاست میں ان کی مضبوط نمائندگی کے علاوہ ان کا صوبہ ترقی کے تمام اشاریوں میں دوسرے صوبوں سے آگے ہے۔ ایک کے بعد ایک سول اور فوجی حکومتوں نے اس کی معاشی ترقی میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔ یہاں غربت کم ہے، اور باقی ملک کے بدترین حالات کے بارے میں بار بار یاد دہانی پنجابیوں کے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے میں مددگار ہے۔ آخر میں یہ کہ اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں پنجاب کی اشرافیہ اور متوسط طبقے کے مفادات کی مضبوط نمائندگی کرتی ہیں، لہٰذا اب کسی اور کے اس میدان میں آنے اور اس ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے گنجائش کم ہے۔
عوامیت پسندی کے لیے دوسرا ممکنہ گروہ پاکستان کی سنی آبادی کا ہے۔ ملک کی تقریباً 80 فیصد آبادی پر مشتمل یہ گروہ پاکستان کے تمام سیاسی اداروں میں اکثریت حاصل کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ مگر یہاں بھی واضح طور پر چند رکاوٹیں موجود ہیں۔
پہلی رکاوٹ اندرونی طور پر موجود اعتقادات، طرزِ عمل، اور علماء کی پیروی سے متعلق اختلافات ہیں۔ اگر ایک سنی عوامیت پسند لہر اٹھے گی، تو اس میں بریلوی طرزِ عمل کی دیوبندی طرزِ عمل سے مفاہمت کس طرح ممکن ہو سکے گی؟ اور مجموعی طور پر اس میں بڑھتی ہوئی سلفی آبادی کا کیا کردار ہوگا؟
پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد وقت جب اسلام پسندوں نے اپنے اعتقادی اور تنظیمی اختلافات کو بھلایا ہے، وہ تب ہے جب انہیں مشترکہ دشمن کا سامنا تھا۔ مثلاً 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جمعیت علماء پاکستان، جمعیت علماء اسلام اور جماعتِ اسلامی کا اتحاد؛ افغانستان میں امریکی مداخلت کے خلاف متحدہ مجلسِ عمل کا ابھرنا، اور حال ہی میں قانونِ توہینِ رسالت کے دفاع کے لیے دینی جماعتوں کا اتحاد اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہی وہ طرزِ عمل ہے جس کی وجہ سے ہر الیکشن میں دینی جماعتوں کو کم نشستیں اور ووٹس حاصل ہوتے ہیں۔
ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ ریاست نے پہلے ہی مذہبی برتری اور وطن پرستی کا ایجنڈا اپنا رکھا ہے۔ آئین میں آپ کو اسلامی شقیں جگہ جگہ نظر آئیں گی، یہاں تک کہ یہ مسلم و غیر مسلم کی تفریق بھی کرتا ہے۔ اسی طرح تعزیراتِ پاکستان میں کی جانے والی کئی ترامیم کے بعد یہ اسلامی قانونی نظام محسوس ہوتا ہے۔ فوج خود کو دینِ حق کا سپاہی قرار دیتی ہے جبکہ ملک کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اسلام پسندوں کا ثقافتی ایجنڈا گذشتہ 70 سالوں میں خاصا کامیاب رہا ہے، اس لیے ان کا سیاسی ایجنڈا حالیہ دور میں کم متاثر کن ہے۔
آخر میں پاکستان کے سیاسی نظام میں کچھ بنیادی خامیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ عوامیت پسند لہر کے اٹھنے اور سب کچھ بہا لے جانے میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔
ملک بھر کے ووٹرز کی اکثریت سیاست میں حصہ لینے کے لیے سرپرستی پر منحصر رہتی ہے۔ ووٹرز کو ریاستی وسائل اور سہولیات مقامی اشرافیہ اور طاقتور افراد کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، اور ان کی روزی روٹی اور ان کی زندگی بسا اوقات اسی چیز پر منحصر ہوتی ہے۔
زیادہ تر معاملات میں یہ اشرافیہ برادری اور لسانی (یا علاقائی) بنیادوں پر سیاست میں حصہ لیتی اور کامیاب ہوتی ہے، جس سے ووٹ ڈالنے والے عوام مزید تقسیم ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں عوامیت پسند دور کے عروج (1972-1968) کے دوران بھٹو کی ہندوستان مخالف قوم پرستی اور بائیں بازو کے بیانیے نے بھی پانچ میں سے صرف دو صوبوں کے ووٹرز کو متاثر کیا تھا۔
کسی بھی نظریاتی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی سیاسی سرپرستی سے بھی زیادہ مضبوط ہو، اور ان لسانی، ذات پات، برادری، اور قبائلی تفریقات کو بھی ختم کرے جن پر یہ سرپرستی قائم ہوتی ہے۔ لیکن فی الوقت یہ اس ملک میں تو مشکل لگتا ہے جس میں لسانی اور صوبائی نظریات کے علاوہ کوئی بھی نظریہ گذشتہ چار دہائیوں میں عوام کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 نومبر 2016 کو شائع ہوا۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔