جہانگیر بدر: لوٹوں کی دنیا میں ایک جیالا
ہمارے خطے میں درمیانے طبقے نے 20 ویں صدی کے سحر انگیز عہد میں ہزاروں سیاسی کارکن و دانشور پیدا کیے۔ ان میں بڑی تعداد ایسے بے مثال لوگوں کی ہے جنہوں نے منفعت، چمک اور عہدوں کی لالچ میں اپنی پارٹیوں یا گروپوں کو کبھی نہ چھوڑا۔ جہانگیر بدر کا شمار بھی ایسے سیاسی لیڈروں میں ہوتا ہے۔
نوآبادیاتی و فوجی حکمرانوں نے ہمشہ بدبودار سیاست کو پروان چڑھایا اور لوٹوں کو معتبری دی جبکہ سیاسی تحریکوں نے سیاسی کارکنوں کی ایک کھیپ قوم کو دی جن میں سے بیشتر سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں متوسط طبقے کے وہ ہیرے تھے جنہوں نے سیاست کی لاج رکھی۔
ایوب مخالف سیاسی لہر کی کوکھ سے لاتعداد سیاسی کارکنوں نے جنم لیا۔ یہی وہ وقت تھا جب نوجوان جہانگیر بدر پاکستان کی سب سے قدیمی درسگاہ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ بطور طالبِ علم رہنما وہ ہیلے کالج میں اسلامی جمعیت طلباء کو شکست دے کر اپنا لوہا منوا چکے تھے اور 1969 میں لاء کالج میں تھے۔
اس کے بعد بدر نے پنجاب یونیورسٹی کے انتخابات میں حافظ ادریس اور حفیظ خان کا مقابلہ کیا جو جمعیت کے نمائندے تھے۔ دونوں انتخابی معرکوں میں بدر بائیں بازو، آزادی پسند اور جمہوری قوتوں کے مشترکہ امیدوار تھے۔ اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں دو طلباء تنظیموں ہی کا زور تھا، اور جمعیت کا مقابلہ نیشنلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (این ایس او) کرتی تھی۔
یہ یحییٰ خانی دور تھا جس کے طاقتور وزیر میجر جنرل نوابزادہ شیر علی پٹودی اور میجر جنرل غلام عمر جماعت اسلامی اور شوکت اسلام کے دلدادہ تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کو وہ کیسے سرخوں کے ہاتھ جانے دیتے؟ جہانگیر بدر کو دونوں معرکوں میں شکست ہوئی مگر جس سیاسی بھٹی میں وہ کندن بنے اس کا اثر تادیر ان پر رہا۔
جہانگیر بدر نے ایک ایسی سیاسی جماعت کا انتخاب کیا جس نے نہ صرف ایک سیاسی تحریک میں آنکھ کھولی بلکہ اس کی تاریخ اس کے لیڈروں نے اپنے خون سے رقم کی۔ اس پارٹی کے رہنما ایک سندھی، جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے جہانگیر بدر کے شہر لاہور میں آ کر پارٹی بنائی تھی اور پنجابیوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔