نقطہ نظر

'جو بچہ انگلش نہ بولے، اس کا نام مجھے بتانا'

اگر تدریسی زبان کو طلبہ کے پڑھنے کی صلاحیت کو ناپنے کے لیے استعمال کیا جائے تو مادری زبان با آسانی سبقت لے جائے گی۔

مجھے ایک نوجوان ماں نے لاہور کے ایک اسکول میں زیر تعلیم اپنی بیٹی کے ساتھ پیش آئے ایک دل خراش تجربے کے بارے میں بتایا۔ بچی کو ان کے ٹیچر نے یہ کہہ رکھا تھا کہ کلاس میں جو بچہ انگلش نہیں بولتا، وہ اس کی شکایت انہیں آ کر دے۔

یہ سن کر مجھے حیرانی تو نہیں ہوئی مگر افسوس ضرور ہوا۔ کئی والدین کے ساتھ بھی ایسا ہی تجربہ ہو چکا تھا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ کئی والدین سمجھتے ہیں کہ انگلش سیکھنے کا فقط یہی ایک طریقہ ہے۔

چند ماہ قبل ایک مہنگے اسکول نیٹ ورک میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ پاکستان میں زبانوں کی جنگ اب بھی جاری ہے۔ ساہیوال میں واقع اس اسکول نیٹ ورک کے کیمپس کے ہیڈ ماسٹر نے اپنی جانب سے والدین کو ایک نوٹس بھیجا جس میں بڑے ہی عجیب و غریب الفاظ میں ہدایات درج کی ہوئی تھیں۔

نوٹس میں اسکول کی حدود میں 'فاؤل لینگوئیج' یا بے ہودہ زبان کے استعمال کی ممانعت کی گئی تھی۔ نوٹیفیکیشن میں واضح طور پر طعنوں، گالیوں، 'پنجابی' اور نفرت انگیز زبان کو 'فاؤل لینگوئج' میں شمار کیا گیا تھا۔

مجھے اس نوٹس کے بارے میں اس وقت پتہ چلا تھا جب میں ایک ایسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی جو کہ پاکستان میں ہر استاد کو پڑھنی چاہیے۔ اس کا کتاب کا نام 'وائے انگلش؟ کنفرنٹنگ دی ہائیڈر' ہے۔

اس کتاب کو چار ممتاز ماہرینِ لسانیات (پاؤلن بنس، رابرٹ فلپسن، ویگھن رپتحانہ اور رُوانی ٹیوپس) نے ایڈٹ کیا ہے، اس کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بچے کو اس کی اپنی زبان کے استعمال کرنے سے منع کرنا اور انگلش نہ بولنے والے معاشروں کے اسکولوں میں صرف انگلش بولنے اور درس و تدریس دینے پر زور دینا کس قدر نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

پڑھیے: انگلش کے بغیر آپ مستحق نہیں

کتاب کے تعارف میں ایڈیٹرز لکھتے ہیں کہ "انگلش کا بڑھتا ہوا رجحان دیگر زبانوں اور ان کی ثقافتوں پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جہاں انگلش صرف چند لوگوں کے لیے نئے مواقع اور رسائی پیدا کرتی ہے وہاں کئی ملکوں کا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ کئی لوگوں کے لیے انگلش کے دروازے ہی بند ہوتے ہیں۔‘

یہ ایک بڑی منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ جہاں حکومت مسلسل غربت ختم کرنے اور طبقات میں موجود محرومیوں کو مٹانے کا راگ الاپتی ہے وہاں اپنی نامناسب زبان پالیسی کے ذریعے نا انصافی کو فروغ دے رہی ہے۔

جس طرح کتاب میں بھی بیان ہے کہ اس کتاب کے تمام 26 لکھاری بنیادی طور پر کسی ایک یا انگلش زبان کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کے لیے ضروری یہ بات ہے کہ انگلش زبان کو کس طرح تیسری دنیا کے ملکوں میں اونچے طبقے کی جانب سے اکثریت، انگلش نہ بولنے والے، کو خارج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور لوگوں کو بے وقوف اور ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

اکثر ایک مقبول عام اور من گھڑت بات کو فروغ دیا جاتا ہے کہ انگلش ہی ہمارے تعلیمی مسائل کا ایک حل ہے۔ وہ والدین جو خود انگلش نہیں جانتے وہ ’انگلش میں دلائل‘ سے بھی کافی متاثر ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے بچے ناقدانہ سوچ پیدا کرنے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اب وہ ایک ایسی زبان پر منحصر ہو چکے ہیں جس میں وہ مکمل طور پر اپنا اظہار بھی پیش نہیں کر سکتے۔

یہ کسی کے لیے کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ساہیوال کے ہیڈ ماسٹرز جیسے ٹیچرز انگلش بولنے میں ماہر نہ ہوتے تو پھر وہ کچھ بھی بہتر کس طرح پڑھاتے؟ دراصل یہ تمام ہمارے ناقص تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں۔

زبان کے پیچیدہ مسائل کے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں یہ ہماری اپنی مقامی زبانوں اور ثقافت کو ختم کر رہی ہے وہاں یہ ہمارے بچوں کی ذہنی صلاحیت کو بے کار و بے اثر بنا رہی ہے۔

مزید پڑھیے: سی ایس ایس میں انگلش 'لازمی' ہے ہی کیوں؟

بچپن سے سیکھی ہوئی زبان میں تعلیم فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے طلبہ میں رٹا لگا کر پڑھنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ وہ اس عادت سے کبھی اپنا پیچھا نہیں چھڑا پاتے کیونکہ وہ کسی بھی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی صلاحیت سیکھنے سے محروم رہے ہوتے ہیں۔

تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ انگلش موجودہ دور کی بین الاقوامی زبان ہے اور اس بات کو ٹالا نہیں جا سکتا۔

وائے انگلش کے ایڈیٹرز اس کا ایک حل پیش کرتے ہیں۔ وہ انگلش کے علاوہ دیگر زبانوں کا احترام کرنے اور تعلیمی نظام کو ان زبانوں اور ثقافتوں کے اعتبار سے تعمیر کرنے کا کہتے ہیں جن سے بچے آشنا ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ، ’’تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس چیز کے لیے انگلش میں بہت بڑے پیمانے پر ماہرانہ صلاحیت کی ضرورت درپیش ہوگی۔

ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کی زبانِ اول کی صف میں انگلش کے شانہ بشانہ دیگر متعلقہ مقامی زبانیں بھی کھڑی ہوں۔

بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ تعلیمی سیاق و سباق میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ انگلش بڑی تیزی کے ساتھ مقامی زبانوں کی جگہ لے رہی ہے — بچوں کو ابتدائی اہم تدریسی تربیت اس زبان میں دینی چاہیے جو زبان وہ جانتے ہوں جس سے انہیں تمام دیگر زبانوں کو سیکھنے کی پختہ بنیاد فراہم کی جاسکے۔

یہ ایک صاف بات ہے کہ اگر تدریسی زبان کو ہی طلبہ کے پڑھنے کی صلاحیت کو ناپنے کے لیے استعمال کیا جائے تو مادری زبان یا ماحول میں بولے جانے والی عام زبان با آسانی سبقت لے جائے گی۔

مگر ایسی بھی افواہیں گرد کر رہی ہیں کہ سندھ اپنے تعلیمی نظام میں بہتری کی ایک غلط امید لیے انگلش کو بطور تدریسی زبان متعارف کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس طرح تعلیم بہتر نہیں ہوگی۔ وقت کی اہم ضرورت تعلیم اطفال کے مسائل کو حل کرنا ہے۔

اگر حکومت ایسا کرنے کا سیاسی عزم رکھتی ہے تو انہیں اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ اساتذہ کا معیار صرف اسی زبان میں بڑھایا جاسکتا ہے جو وہ جانتے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو اساتذہ کی تھوڑی اِن سروس تربیت سے وہ اپنی زبان میں بہترین انداز میں پڑھا سکتے ہیں۔

پڑھیے: اردو میڈیم والدین کے انگلش میڈیم بچے

جہاں تک بات بچوں کو انگلش پڑھانے کی ہے تو کچھ اساتذہ کو انگلش بطور ایک مضمون پڑھانے کے لیے تربیت فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس پورے مقصد کے لیے ایک طویل اور زیادہ کامل و سخت تربیت درکار ہوگی۔ دوسری جانب جن مقامی زبانوں کو بچے سمجھتے ہیں اور جن میں اساتذہ مہارت رکھتے ہیں، ان زبانوں میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین میں واضح بہتری دیکھی جا سکے گی۔

وائے انگلش کتاب کے مطابق، "مادری زبان پر محیط ایک سے زائد زبانوں پر مشتمل تعلیم پر کی جانے والی تحقیق واضح طور پر شاہد ہے کہ اس طرح نہ صرف تعلیمی نتائج بہتر ہوں گے بلکہ انگلش پر بہتر دسترس حاصل ہوگی۔"

انگلش میں پڑھیں

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔