نقطہ نظر

ٹرمپ بش سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں

بش کا تنقید سے نمٹنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ تنقید کو نظرانداز کر دیتے تھے جبکہ ٹرمپ تنقید کرنے والے پر برس پڑتے ہیں۔

اب کیوں کہ ٹرمپ کی صدارت کی متوقع ہولناکیوں کے حوالے سے پہلے ہی شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، تو میں آپ کو یہاں ایسا ایک تقابلہ پیش کرنے جا رہا ہوں جو دیگر لوگوں نے کرنے کی کوشش اب تک نہیں کی ہے۔

آپ کو جارج بش جونیئر یاد ہیں؟ ان کی جنونی صدارت اب یاد بن چکی ہے مگر ان کی لگائی گئی آگ آج بھی مشرق وسطیٰ میں بھڑک رہی ہے۔ جی ہاں، یہ وہ نقصان ہے جو کوئی جنونی شخص وائٹ ہاؤس میں آنے پر کر سکتا ہے۔ مگر بش اور ٹرمپ کے درمیان چند اہم فرق موجود ہیں جو کہ ٹرمپ کو زیادہ خطرناک ثابت کرتے ہیں۔

اس بات سے شروع کرتے ہیں کہ بش ایک نظریاتی شخص تھے جبکہ ٹرمپ ایک انتہائی خود پسند شخص ہیں۔ بش نے 40 سال تک زندگی من موجی اور جی بھر کر مے نوشی میں گذاری، لیکن پھر انہوں نے ایک عیسائی کی حیثیت سے نیا جنم لیا اور اپنی زندگی کا رخ نظم و ضبط سے بھرپور طرز زندگی کی جانب موڑ دیا۔

دوسری جانب ٹرمپ صرف اپنی مرضی اور خواہشوں کے پابند ہیں۔ وہ کسی بھی طاقت کو خود سے بڑا تسلیم نہیں کرتے اور خود کو کسی بھی اخلاقی معیار کے آگے قابلِ احتساب نہیں سمجھتے، چاہے پھر ان کے عمل کا تعلق روزمرہ کی زندگی سے ہو یا پھر ملک کے لیے ان کا اپنا ایجنڈا ہی کیوں نہ ہو۔

پڑھیے: امیر طبقے کی حمایت ہیلری کو لے ڈوبی؟

انہوں نے تمام زندگی خواتین کو اپنی مرضی کے انتخاب کے حق جیسے لبرل مقاصد کے لیے وقف کیے رکھا، مگر پھر اچانک سال 2012 کے آس پاس انہوں نے اپنا رخ پرو لائف (اسقاطِ حمل کی مخالف تحریک) مؤقف کی جانب موڑنا شروع کر دیا۔ پہلے یہ کہا کہ دیر سے حمل ضایع کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دینا چاہیے، اور پھر آہستہ آہستہ اپنا جھکاؤ زیادہ سے زیادہ سخت گیر مؤقف کی جانب کرتے ہوئے بالآخر یہاں تک کہہ دیا کہ حمل ضایع کروانے والی عورت سزا کی مستحق ہے۔

اسلحے اور نسل پرستی جیسے مسائل پر ٹرمپ نے انتہاپسند دائیں بازو کو اپنے ساتھ صرف تب ملانا شروع کیا جب انہوں نے اس کی طاقت کو محسوس کیا، جبکہ ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ کے لفظوں کی سہل روانی اس بات کی عکاس ہے کہ امریکا کی سیاسی زندگی کے لیے انتہائی اہمیت رکھنے والے ان مسائل پر اس طرح کے سخت گیر اور باعثِ تقسیم مؤقف اپنانے پر انہیں بالکل بھی افسوس نہیں۔

یہ کوئی بے باکی نہیں بلکہ ڈھیٹ موقع پرستی ہے۔ بناوٹی خیالات کا کوئی بھی ایسا شخص کسی بھی لمحے اپنا ذہن تبدیل کر سکتا ہے اور ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنے سابقہ خیالات کے بالکل برعکس باتیں بولنا شروع کردے گا۔

بش کے مقابلے میں یہ ایک اہم فرق ہے، کیوں کہ بش کے ذہن میں پختہ ارادے موجود تھے۔ ان کی سوچ ان کے مذہبی عقائد میں پیوست تھی اور دہائیوں تک وہ بہت قریبی انداز سے قدامت پسند سماجی ایجنڈا سے جڑے رہے اور حتیٰ کہ اس بنیاد پر مہم بھی چلائی۔

دوسری بات یہ کہ، بش بڑی حد تک ریپبلیکن پارٹی کے تخلیق شدہ شخص تھے جبکہ دوسری جانب ٹرمپ طاقت کے حصول کے لیے پارٹی کو گہرائی سے تباہ کر چکے ہیں۔ 2000 میں بش ایک مفاہمتی امیدوار تھے، کامیابی کے اعتبار سے ایک بہتر امیدوار، کیوں کہ ان کی پارٹی کے لوگ بش کے سوائے کسی دوسرے نامزد امیدوار پر متفق ہی نہیں ہو پائے۔

اقتدار میں ایک بار آجانے کے بعد، پارٹی جن دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی، انہوں نے ہر اس دھڑے کے سامنے سر جھکا کر اپنے لیے راستہ صاف کیا۔ اس لیے عیسائی دائیں بازو کو اٹارنی جنرل حاصل ہوا (جان ایش کروفٹ)، تنہائی پسندوں کو اقوام متحدہ میں نمائندہ حاصل ہوا (جان بولٹن)، پرانے فوجیوں کو وزیرِ خارجہ حاصل ہوا (کولن پاویل)، فوجی ٹھیکیداروں کو دفاع حاصل ہوا (ڈونلڈ رمسفیلڈ، جنہوں نے مسلح افواج کے بڑے بڑے حصوں کی نجکاری کی جستجو کی)، اور وال اسٹریٹ کو خزانہ حاصل ہوا (او نیل اور سنو کے امیدوں پر پورا نہ اترنے کے بعد ہینری پاؤلسن) اور جدید قدامت پسند دھڑے کو نائب وزارت ملی۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ پاکستان کیلئے اچھے ثابت ہوں گے یا برے؟

دوسری جانب جب ریپبلیکن پارٹی کے سربراہوں نے ٹرمپ کی حمایت نہیں کی تو ٹرمپ نے ان کے ساتھ گستاخانہ لہجہ استعمال کیا۔ ٹرمپ نے ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ انہوں نے تو بس مطالبہ رکھا اور جب انہوں نے فیصلے سے ڈگمگانا شروع کیا تب ٹرمپ نے برے انداز میں انہیں سزا دے ڈالی۔ وہ پارٹی سے بالاتر حیثیت میں کھڑے ہیں اور ایسا برتاؤ نہیں کریں گے کہ جیسے انہیں کچھ پارٹی کی مرہون منت حاصل ہوا ہے۔

بش کا تنقید سے نمٹنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ تنقید کو نظرانداز کر دیتے تھے۔ وہ اخبارات نہیں پڑھتے، اور صرف اپنی سوچ کا سہارا لینے سے زیادہ اپنے آس پاس موجود لوگوں سے مشاورت پر زیادہ انحصار کرتے۔ وہ اپنے ہم خیال مشیروں سے گھرے رہتے اور ان کا دربار انتہائی گروہی سوچ کا شکار بن گئی۔

دوسری طرف ٹرمپ تنقید کرنے والے پر برس پڑتے ہیں، وہ بڑے ہی محتاط انداز میں دیکھتے رہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں اور بڑی چستی کے ساتھ دیگر لوگوں کی آنکھوں میں اس کا اعتراف تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ اس اعتراف یا تصدیق کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر تنقید کا جواب تنقید میں ہی دے ڈالتے ہیں۔

علاوہ ازیں، بش زیادہ تر تنہا وقت کم ہی گزارتے اور اپنی سوچ اور فیصلہ سازی کا انحصار زیادہ سے زیادہ دوسروں پر ہوتا، یہاں تک کہ وہ خود کو ’ڈیسائڈر ان چیف‘ یا ’فیصلہ کرنے والوں کے سربراہ‘ کے طور پر پیش کرتے۔ مثلاً عراق پر حملہ صرف ان کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ڈک چینی، جو خارجہ معاملات پر سوچ بچار کرتے، کی سربراہی میں جدید قدامت پرست مشیر بھی تھے مثلاً کارل روو، جو داخلی معاملات پر سوچ بچار کا کام کرتے۔

دوسری جانب ٹرمپ دوسروں سے رائے نہیں لیتے اور زیادہ تر اپنی ذات تک ہی محدود رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی مخصوص مسئلے پر لوگ کیا سوچتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے اختلاف رائے رکھتے ہیں وہ انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ جب وہ اپنی سوچ تبدیل کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد لوگوں سے بھی ویسی ہی سوچ رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ کسی بھی فیصلہ سازی میں آس پاس کے لوگوں کا کوئی حصہ شمار نہیں ہوتا، جبکہ ان کے اپنے فیصلے مفاد پرستانہ، لالچ، خواہش اور دیگر حیوانی جبلتوں کے غلیظ ماحول میں کیے جاتے ہیں.

پڑھیے: پاکستان سے محبت ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

مختصراً کہیں تو ٹرمپ کی صدارت ہر حوالے سے بش کی صدارت سے زیادہ خطرناک ہونے کی ایک بڑی توقع ہے۔ بش کو تو اس بات کا احساس ہونے میں قریب چار سال لگے کہ عراق پر حملہ شاید ایک بہتر خیال نہیں تھا، ہاں یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اپنی غلطی کبھی بھی عوامی سطح پر قبول نہیں کی۔ جبکہ ایران پر بھی حملہ ان کے زیر غور تھا۔ سیمور ہرش کی رپورٹنگ کے مطابق تو اس حملے میں ممکنہ طور پر جوہری ہتھاروں استعمال ہونے پر غور کیا جا رہا تھا، مگر انہوں نے کبھی وہ سرخ لکیر عبور نہ کی۔

انہوں نے کیوٹو پروٹوکول (کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج اور گرین ہاؤس گیس کو کم کرنے کا ایک بین الاقوامی معاہدہ) سے واک آؤٹ کیا اور ان عالمی حکومتوں کو نیچا دکھایا جو امریکی طاقت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے درپے تھیں۔

مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے سامنے اپنا سر جھکایا اور ڈبلیو ٹی او پر عمل در آمد اور نیٹو کو طاقتور بنانے کی نگرانی بھی کی۔

آخر ٹرمپ کیسے اس طرح کے مسائل سے، اپنے گمراہ ذہن، قیاس آرائیوں، اپنی ذات تک ہی محدود فیصلہ سازی، اور ہر چیز، پھر چاہے وہ حقائق ہوں، دیگر افراد کی آرا، یا جو بھی ہو، کا انکار کرتے ہوئے نمٹ پائیں گے؟

بش نے ہمیں یہ دکھا دیا ہے کہ اگر وائٹ ہاؤس کی طاقت غلط ہاتھوں میں چلی جائے تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اب جبکہ ٹرمپ آئے ہیں تو یہ بش سے کئی گنا آگے اور کئی گنا زیادہ مہلک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔