آئی ایم ایف سربراہ کی تجاویز کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟
پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ افراد پہلے سے روزگار ڈھونڈ رہے لوگوں کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان کروڑوں بے روزگار یا عارضی روزگار سے منسلک لوگوں کی یہ تعداد ہر سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
تو کیا سماجی و معاشی حالات سے پیدا ہونے والی محرومی دھرنوں اور لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کے لیے سازگار ماحول بنا رہی ہے؟
معیشت کی بری حالت کا اندازہ تو چکوال کی صورتحال سے ہی لگایا جا سکتا ہے جہاں جون میں ہزاروں گریجوئیٹس اپنی ڈگریاں تھامے چوکیدار اور مالی کی ملازمت کے لیے درخواستیں دینے کے لیے قطار بنائے کھڑے تھے۔
ایسا نہیں کہ صرف ان پڑھ اور ہنر سے عاری افراد کو ہی روزگار نہیں مل پاتا، بلکہ پاکستان کی شہری جاب مارکیٹ میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔
مگر ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ سیاسی قیادت کو ساتھ مل کر ایک نکاتی ایجنڈے پر غور کرنا ہوگا، اور وہ ہے پاکستانی معیشت اور اقتصادی ترقی کی بحالی۔
مگر اس کے بجائے ملک کو مزید انتشار اور خلل انگیزی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
معیشت کو بہتر کرنے کے حوالے سے مشورے بڑی تعداد میں موجود ہیں، مگر ان میں زیادہ تر ایسے افراد کی جانب سے دیے جاتے ہیں جن کی نیت اچھی ہوتی ہے، مگر وہ معاشی معاملات میں بالکل سادہ لوح ہوتے ہیں۔ مگر آپ کو ایسے افراد کے مشوروں پر ضرور توجہ دینی چاہیے جو اگر عالمی معیشتوں کو بہتر کرنے کا نہیں تو کم از کم سنبھالنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ ایک ایسی ہی ماہرہ ہیں جن کے الفاظ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پیر کو ان کی ملاقات وزیر اعظم نواز شریف سے ہوئی جس میں کرسٹین نے حکومت کو مندرجہ ذیل تین حکمت عملیوں پر غور کرنے کا مشورہ دیا:
1 پاکستان کی معیشت کو لچکدار اور مضبوط بنایا جائے.
2: اقتصادی ترقی کو بڑھایا جائے۔
3: اقتصادی ترقی میں تمام طبقات کو شامل کیا جائے.
پاکستان کو اپنی معیشت لچکدار بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ کرسٹین لاگارڈ کے مطابق پاکستان کا قومی قرضہ 19 کھرب روپے ہے، جو کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی 65 فیصد رقم کے برابر ہے۔ چند ماہرینِ معاشیات کے مطابق یہ بات کسی خطرے کا باعث نہیں ہے۔ دیگر ممالک بشمول امریکا پر بھی قومی قرضہ اتنا ہی بڑا ہے۔
یہ حقیقت ہے۔ لیکن یہاں ایک بات جو شاید وہ ماہرین نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے قرضے بھلے ہی ان کی معیشتوں کے حساب سے بڑے ہوں، مگر اس سے ان کے صحت اور تعلیم کے شعبے اتنی بری طرح متاثر نہیں ہوتے جس طرح پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں متاثر ہوتے ہیں۔
کرسٹین لاگارڈ نے وزیر اعظم کو یہ یاد دہانی بھی کروائی کہ پاکستان اپنے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ رقم سود کی صورت میں ادا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کی صحت، تعلیم اور مجموعی فلاح و بہبود متاثر ہوتی ہے۔
اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب بچے نقصِ نشونما کے شکار ہیں اور پاکستان ایسے بچوں کی تیسری بڑی آبادی ہے۔ غذائی قلت اور ڈائریا جیسے قابلِ انسداد امراض پاکستان کے بچوں سے ان کے قد، ان کی جسامت اور قوت چھین رہے ہیں۔
تو معیشت کو کیسے لچکدار بنایا جائے؟ اس کے لیے پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریلوے جیسے سرکاری اداروں کے خساروں کو ختم کرنے سے شروعات کی جائے۔ ان سرکاری اداروں کے خسارے کی رقم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کی جانے والی رقم کا دو تہائی حصہ ہے۔ مسئلہ یہاں پر ہے۔
جہاں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام مفلس لوگوں کی مدد کرتا ہے، وہاں حکومت سرکاری اداروں کے خساروں کو پورا کرتے ہوئے سرکاری شعبے کے ملازمین کی سبسڈیز پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ سرکاری فنڈز کا یہ غیر پیداواری استعمال جلد ہی ختم ہو جانا چاہیے، اس سے پہلے کہ خسارے میں چلنے والے شعبے نفعے میں چلنے والے اداروں کے وسائل ختم کر دیں۔
پاکستان کو اپنے محصولات بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی اقتصادی پیداوار اور ترقی کو سہارا دے سکے۔ کرسٹین لاگارڈ نے وزیر اعظم کو یاد دلایا کہ پاکستان کی ٹیکس وصولی اقتصادی ترقی کو بحال رکھنے کے لیے ضروری شرح کی صرف آدھی ہی ہے۔
اگر ٹیکس کا دائرہ وسیع نہیں ہوا تو پاکستان کو آخری انتخاب کے طور پر آئی ایم ایف اور دیگر قرض دہندگان پر اپنا انحصار جاری رکھنا ہوگا۔ سو انتخاب سیدھا اور صاف ہے: یا تو ٹیکس یا پھر قرض۔
پاکستان اقتصادی ترقی کس طرح بڑھا سکتا ہے؟ اس کا جواب نجی شعبے کی نت نئی انٹرپرینیورشپ میں چھپا ہے. پاکستان میں نجی سرمایہ کاری کا معیشت میں حصہ صرف تقریبآ 10 فیصد ہے، جبکہ دیگر ابھرتی مارکیٹس کا اوسط 18 فیصد ہے۔ اسی اثنا میں پاکستان کی برآمدات اس کی جی ڈی پی کا 10 فیصد ہیں، جبکہ دیگر ابھرتی مارکیٹس میں یہ شرح 40 فیصد ہے.
تو اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟ کاروباروں سے بیوروکریسی اور طویل تاخیری مراحل کو ختم کیا جائے. آپریشنز اور ریگولیشنز کو شفاف بنا کر طرزِ حکومت کو بہتر کیا جائے۔ کرپشن کے خلاف جنگ کی جائے اور تمام معاملات کو قابل فہم بنایا جائے۔
مندرجہ بالا مشورہ صرف حکومت کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کا زیادہ تعلق عام شہری سے ہے جو کہ شدید ترین اخلاقی تنزل کی نذر ہو چکا ہے۔
ایک ایسی جگہ جہاں معمولی اہلکار اسکول میں داخلے سے لے کر پانی کے کنکشن کی منظوری دینے تک ہر چیز پر رشوتیں مانگتے ہیں، وہاں تعمیر اور ترقی کی امیدیں نہیں پالنی چاہیئں۔
ایسی جگہ جہاں معاشرہ ایک بدعنوان شخص کا ناطقہ بند کر دے، وہاں ایک منصفانہ اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، بہ نسبت اس جگہ کے، جہاں لوگ مذہب کی حد تک تو کرپشن کو برا سمجھتے ہوں مگر خود اس میں ملوث ہوں.
پاکستان کے لیے صرف اقتصادی ترقی ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ایسی اقتصادی ترقی، جس سے دولت چند افراد کے ہاتھوں تک محدود ہو جائے، اس سے معاشرے میں مزید تشدد جنم لے گا.
ہمیں ایسی اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے جس میں تمام طبقات شامل ہوں. کرسٹین نے وزیر اعظم کو یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ "دنیا کے اسکول نہ جانے والے ہر 12 بچوں میں سے ایک بچہ پاکستان میں رہتا ہے۔"
پاکستان کو نہ صرف تعلیم پر زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسی معیشت تعمیر کرنی ہوگی جس میں پڑھے لکھے متوسط طبقے کا تعمیری استعمال کیا جاسکے۔
اس دور میں کوئی بھی ایسا ملک، جو معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں خواتین کو کردار ادا کرنے سے روکے، مستحکم اقتصادی ترقی حاصل نہیں کر سکا ہے.
اس میں حکومت مدد تو کر سکتی ہے مگر گھر کی سطح پر لازماً تبدیلی لانی ہوگی۔ پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ خواتین پر زیادہ اعتماد کرتے ہوئے انہیں ان کی تقدیر کا مالک بنا کر معاشرے کا کارآمد حصہ بننے دیں۔
کرسٹین لاگارڈ کے مشورے میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں چھپا. انہوں نے اقتصادی ترقی کو بڑھانے، اقتصادی خسارے کو ختم کرنے، خواتین اور بچوں کو تعلیم دینے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنے فنڈز خود بڑھانے کو کہا ہے۔
کوئی کیسے اس بات سے متفق نہیں ہو سکتا؟
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔